تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-05-2020

نئی ’’سرد جنگ‘‘: ہمارا رویہ کیا ہو؟

بہت عرصے سے یہ بات تواتر سے کہی جا رہی ہے کہ نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ کورونا وائرس کی ووہان سے ابتدا‘ پھیلائو اور اب ساری دنیا کی معیشت کی تباہی کے مناظر ہمارے سامنے ہیں۔ معاشی پہیہ صنعتی ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک ہر جگہ جام ہو چکا ہے۔ جہاں اسے پھر سے چلانے کی کاوشیں ہو رہی ہیں‘ وہاں امریکہ نے چین پر دبائو میں اضافہ بھی کر دیا ہے۔ الزامات تراشے جا رہے ہیں کہ چین نے وبا کی موجودگی کے بارے میں دنیا کو بروقت مطلع نہیں کیا‘ خبر کو چھپائے رکھا۔ حقائق ان الزامات کے برعکس ہیں‘ مگر ایسے موقع پر جب کوئی ملک نہ تو وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہے اور نہ ہی رہ سکتا ہے‘ امریکہ نے چین پر کیوں چڑھائی کر رکھی ہے؟ یہ تک کہا جا رہا ہے کہ امریکہ اور دوسرے ممالک چین سے ہرجانہ طلب کرنے کا جواز رکھتے ہیں۔ چین نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے کہ اگر کسی وبا نے کسی ملک میں قدرتی آفت کے طور پر ظہور کیا تو کیا یہ انصاف ہے کہ اسے ہی موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایڈز کے مرض کی ابتدا امریکہ میں ہوئی‘ اور اس سے لاکھوں باشندے افریقی ممالک میں لقمہ اجل بن گئے۔ کسی نے نہ تو مطالبہ کیا‘ اور نہ ہی امریکہ نے کوئی جرمانہ ادا کیا۔ اسی طرح چین والے یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ نے افریقی باشندوں کو لاکھوں کی تعداد میں اس براعظم سے پکڑ دھکڑ کر انہیں صدیوں تک غلامی کی زنجیریں پہنائے رکھیں۔ اس کا حساب کون دے گا؟
پُرانی یا پہلی سرد جنگ میں‘ جو نظریاتی بنیادوں پہ شروع ہوئی تھی‘ بھی دہائیوں تک زیادہ تر زبانی جنگ لڑی گئی۔ بڑی طاقتیں کبھی بھی ایک دوسرے کے مدِ مقابل نہ ہوئیں۔ دونوں کے پاس مہلک ہتھیاروں کے انبار لگے ہوئے تھے‘ اور دونوں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ ظاہر ہے‘ کوئی تباہ ہونا کیوں پسند کرے گا؟ اس لئے زیادہ زور پروپیگنڈے پر تھا۔ ثقافت‘ معیشت‘ نظریات اور اتحادی اس جنگ کا اہم حصہ تھے۔ جنگی طور پر دونوں کیمپ ہتھیاروں سے لیس اور تیار تھے؛ البتہ سرد جنگ طفیلیوں کے ذریعے لڑی گئی۔ امریکہ ویت نام میں جا گھسا‘ تو چین اور روس نے ویت کانگ تحریک کی بھرپور مدد کی۔ امریکہ کو آخر کار پسپا ہونا پڑا‘ پچپن ہزار فوجی مارے گئے اور امریکہ کے اندر اور باہر جنگ کے خلاف مزاحمتی تحریکیں چلیں۔ روس افغانستان میں مداخلت کا مرتکب ہوا تو امریکہ نے حساب برابر کر دیا۔ افغان مجاہدین کی مدد کی‘ پاکستان کو قریبی اتحادی بنایا‘ جس کے لئے ہم پہلے سے تیار بیٹھے تھے کہ ہمارا مفاد افغانستان سے روس کے انخلا میں تھا۔ اس جنگ کے آغاز میں ہی ہم امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے حلیف بن گئے تھے۔ اس علاقے میں طاقت کے توازن کے مسائل‘ بھارت کا جارحانہ رویہ اور ہماری ترقی و سلامتی کے تقاضے ایسے تھے کہ ہمیں غیر جانب داری میں کوئی فائدہ نظر نہ آیا۔ اس پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔ دونوں جانب جاندار دلائل موجود ہیں‘ مگر تاریخی حقیقت یہی ہے کہ ہم ایک دفعہ نہیں بلکہ تین بار امریکہ کے حلیف رہ چکے ہیں۔
ماضی کے نظریات اور نظریاتی کشمکش تو قصۂ پارینہ ہو چکے ہیں۔ ان کی علمی‘ ادبی اور فلسفیانہ افادیت سے نہ اس وقت انکار تھا‘ نہ اب ایسا ہو سکتا ہے۔ میری نسل کے اکثر دانش ور اور اساتذہ اسی ادب سے فیض یاب ہوئے‘ اور اب بھی سیاسی فلسفے اور بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ پڑھنے اور پڑھانے کے حوالے سے یہ اہمیت کا حامل ہے۔ کم از کم مارکس سیاست زیادہ تر دم توڑ چکی ہے۔ روس اور چین نے بھی مغربی سرمایہ داری نظام کی مجاوری کے فرائض نہایت ہی ایمان داری اور تن دہی سے انجام دینے شروع کر دئیے ہیں۔ روس داخلی پالیسیوں کے تضادات اور قیادت کے جمود کا شکار رہا ہے‘ مگر چین نے تو ترقی کی معراج حاصل کی ہے اور بہت ہی قلیل عرصے میں کہ مثال ملنا مشکل ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے جب چین عالمی تجارتی تنظیم کا رکن بنا تھا تو مغرب سے لے کر مشرق تک منڈیوں میں اس کے لئے رسائی آسان ہو گئی۔ امریکہ نے بھی نہ صرف اپنی قومی منڈی چین کی مصنوعات کے لئے کھولی بلکہ اپنی کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کی ترغیب بھی دی۔ اوسطاً ہر سال ایک سو ارب ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری ہونے لگی اور چین کی قیادت اور اس کے نوخیز سرمایہ داروں نے وہ کارنامے کر دکھائے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چند سال پہلے چین نے جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا تھا‘ اب چین امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ کھربوں ڈالرز کا اس کے پاس محفوظ سرمایہ‘ جہاں چاہے سرمایہ کاری کے لئے ہر وقت موجود ہے۔ اس کے ساتھ چین نے نہ صرف اپنی عسکری قوت کو جدید بنایا اور اس میں اضافہ کیا بلکہ ایک عالمی تجارتی شاہراہ کی تعمیر شروع کر کے کئی ممالک کو اپنے اقتصادی چیلنجوں کی لڑی میں بھی پرو لیا ہے۔ پاکستان اس عالمی شاہراہ کا کلیدی رکن اور حصہ ہے‘ اور یہاں چھ سو ارب روپے کی سرمایہ کاری میں سے ساٹھ ارب روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا آغاز کئی منصوبے شروع کر کے کر دیا گیا ہے۔ 
امریکہ نہیں چاہتا کہ چین عالمی طاقت کی مسابقت کی دوڑ میں اسے پیچھے چھوڑ دے۔ چین کی اڑان سے پہلے ہی امریکہ کے زوال کی کہانیاں شروع ہو گئی تھیں۔ مقابلے میں یہ بات کہی گئی کہ بیسویں صدی امریکہ کی صدی تھی‘ اکیسویں صدی میں بھی امریکہ کا غلبہ رہے گا۔ پال کینیڈی اور جوزف نائے نے کتابیں اور مضامین لکھ کر یہ مکالمہ کافی عرصے تک جاری رکھا۔ چونکہ سیاست اور بالخصوص عالمی سیاست میرا مضمون ہے‘ لہٰذا اپنی رائے دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آخر اس دشت میں نصف صدی لگائی ہے۔ پہلی بات یہ کہ تاریخ خود کو کبھی نہیں دھراتی‘ جسے نئی سرد جنگ کہا جا رہا ہے‘ یہ دراصل امریکہ اور چین کے مابین اس بات پر اختلافات ہیں کہ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ دانش ورانہ نجی ملکیت کے حقوق کا تحفظ اور عالمی منڈیوں میں غلبہ کس کا ہو گا۔ یہ اختلافات خاصے عرصے سے چلے آ رہے تھے‘ مگر جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے‘ ان میں شدت آ گئی ہے۔ مقصد چین پر دبائو بڑھا کر تجارتی مراعات حاصل کرنا ہے کہ چین درآمدات اور برآمدات میں مناسب توازن قائم کرے۔ ٹرمپ نے امریکی قوم پرستی کے جذبے کو ہوا دی ہے۔ امریکہ نے بلو کالر ورکرز کی بے روزگاری‘ امریکی کمپنیوں کی چین اور دیگر ممالک میں مصنوعات تیار کر کے قومی منڈی میں برآمدات اور ادائیگیوں کے بگڑتے ہوئے توازن کی ذمہ داری صدر اوبامہ اور ڈیموکریٹس کی لبرل پالیسیوں پہ ڈال دی ہے۔ امسال نومبر میں ہونے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بھی اس بیانیے پر زور دیا جائے گا۔ سب کو معلوم ہے کہ کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے میں ٹرمپ ناکام رہے ہیں۔ ماہِ رواں کے آخر تک اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد صرف امریکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ سابق صدر اوبامہ نے بھی جوابی وار کر دیا ہے کہ ایسا لگتا ہے‘ کہ امریکہ میں اس وقت کوئی قیادت نہیں‘ صرف ایسا ہونے کا بہانہ اور بھرم رکھا جا رہا ہے۔ 
یہ ایک انوکھی سرد جنگ ہے‘ جس کے تانے بانے ادنیٰ سیاست سے شروع ہو کر عالمی سیاست اور اس کی دھڑے بندیوں سے جا ملتے ہیں۔ اس تنائو کی کیفیت میں پاکستان کی موجودہ پالیسی درست ہے کہ چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں پہ تعاون‘ پیش قدمی اور رفتار میں اضافہ کیا جائے‘ اور کسی قسم کا دبائو قبول نہ کیا جائے۔ اب تو ویسے ہی دبائو کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ امریکہ اور مغرب کے ساتھ درست روایتی‘ لین دین‘ باہمی تعاون اور دوستی کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ چین کی ابھی تک یہ خواہش ہے کہ وہ یورپ اور امریکہ کی منڈیوں تک رسائی رکھے اور عالمی معیشت سے جڑا رہے۔ پاکستان کا مفاد سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور اس کشیدگی میں اپنا دامن پاک رکھنے میں ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved