تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     21-05-2020

موجودہ حالات میں عید کیسے منائیں؟

اس سوال کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ اس بار ایک نئے رنگ میں عید منائیں۔ آپ تو یہ سوچ رہے ہوں گے کہ عید بڑی پھیکی گزرے گی، بڑی بے کیف گزرے گی، بڑی بے رنگ گزرے گی۔ نہ پیاروں کی دید ہوگی نہ گلے ملنے کا کوئی موقعہ ہوگا، نہ اودے اودے نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرھنوں کے ساتھ تبادلہ زیارات ہوگا‘ تو پھر عید کاہے کو ہوگی۔ میں عید منانے کا ایک ایسا طریقہ آپ کو بتانے والا ہوں کہ جس پر عمل پیرا ہوکر آپ کی عید کا لطف دوبالا ہو جائے گا اور آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ ہم پہلے عید کی اس کیفیت سے محروم کیوں رہے۔
میرے چچا زاد بھائی مطلوب الٰہی پراچہ متوسط درجے کے اچھے بزنس مین ہیں اور راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ اللہ نے انہیں کارِ خیر کا حقیقی ذوق عطا کیا ہے۔ وہ الشفا ٹرسٹ آئی ہسپتال راولپنڈی کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں آئی کیمپ لگاتے ہیں‘ اور بے وسیلہ لوگوں کو مفت اُن کی بینائی لوٹاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خیر کے دیگر کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ جب سے کورونا کی وبا نے ہمارے ہاں پنجے گاڑے ہیں اور غریب لوگ بے روزگار ہوئے ہیں تو بھائی مطلوب بھی مقدور بھر لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ چار پانچ روز قبل ان کا فون آیا کہ انہیں معلوم ہوا ہے‘ کھیوڑہ اور پنڈ دادنخان کی چند بستیاں ایسی ہیں‘ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں سفید پوش خاندان فاقوں سے دوچار ہو چکے ہیں۔ مطلوب صاحب نے براہِ راست معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ اطلاع سو فیصد درست تھی۔ کھیوڑہ کے تقریباً دو سو کے قریب کانکن مکمل طور پر بے روزگار ہو چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آبائواجداد کبھی ایک طرح سے کھیوڑہ کی کانِ نمک کے مالکان میں سے تھے۔ مطلوب صاحب نے لندن میں رابطہ کیا اور میں نے اپنے ایک ایسے عزیز سے بات کی‘ جن کی فیملی کو اللہ نے رزق واسع بھی عطا کیا ہے اور ساتھ ہی انفاق فی سبیل اللہ کا زبردست ذوق بھی بخشا ہے۔ مظفر پراچہ صاحب سے عرض کیا تو انہوں نے کہا: کتنے پیسے درکار ہوں گے؟ میں نے ڈرتے ڈرتے ایک اندازہ بتایا۔ انہوں نے پلک جھپکتے میں خطیر رقم کا بندوبست کر دیا۔ مطلوب صاحب کو لندن سے بھی پیسے آ گئے، کچھ اور عزیزوں اور دوستوں نے بھی ہاتھ بٹایا۔ گزشتہ اتوار کے روز مطلوب پراچہ راشن کا ٹرک بھر کر کھیوڑہ گئے اور انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں راشن کے تھیلے تقسیم کئے اور کسی فرد کی عزّتِ نفس مجروح نہ ہونے دی۔ اور یوں وہ عید سے پہلے کھیوڑہ کے لوگوں کے لیے سامانِ عید پہنچا آئے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پیر کے روز کہا کہ بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے بالکل درست فرمایا؛ تاہم ہم ان کی اجازت سے اس میں تھوڑا سا اضافہ بھی کرنا چاہتے ہیں کہ لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانی ایسے ہیں‘ جنہیں عید پر بھی نئے کپڑے میسر نہیں آتے۔ خاص طور پر ان کروڑوں پھول سے بچوں کی محرومی اور دل شکستگی کا اندازہ کیجیے‘ جو عید پر نئے کپڑوں کے لیے، نئے جوتوں کے لیے اور عیدی کے چند روپوں کے لیے ترستے ہیں۔ ان یتیموں کے کرچی کرچی دلوں کا اندازہ لگائیے کہ جو عید کے موقع پر نئے کپڑوں سے ہی نہیں دستِ شفقت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ ذرا آخری نبی محمد رسول اللہؐ کا یہ واقعہ یاد کیجیے: ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبیؐ نمازِ عید کے لیے نکلے تو آپؐ نے دیکھا کہ سب بچے کھیل رہے ہیں، مگر ایک بچہ ایک طرف بیٹھا رو رہا ہے‘ اور اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے ہیں۔ آپؐ نے اس بچے سے فرمایا ''بیٹا کیا بات ہے تو رو رہا ہے اور باقی بچے کھیل رہے ہیں‘‘۔ بچے نے سرکارِ دو عالم کو بتایا: میرا باپ ایک غزوہ میں شہید ہو گیا تھا‘ میرے سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ جب میں نے ان بچوں کو نئے کپڑے پہنے اور کھیلتے ہوئے دیکھا تو میرا غم تازہ ہو گیا اور میں اسی لیے رو پڑا۔ سرکار دو عالمؐ نے یتیم بچے کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ میں تیرا باپ، عائشہ تیری ماں، فاطمہ تیری بہن، علی تیرے چاچا اور حسن و حسین تیرے بھائی ہوں۔ نبیؐ کے گھر والوں نے بچے کو نہلایا، دھلایا، اسے نئے کپڑے پہنائے اور وہ یتیم بچہ دونوں جہانوں کے والی کی انگلی پکڑے ہوئے عیدگاہ کی طرف روانہ ہوا۔ یتیم بچے کی اس پذیرائی پر عرش والا کتنا خوش ہوا ہوگا۔
فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا کہ ع
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
اس بار خنک موسم بہار میں گلستانوں میں پھول بہار دکھاتے رہے، مسکراتے رہے، گل و بلبل کے نغمے الاپنے والوں کا انتظار کرتے رہے مگر معصوم پھولوں کو کیا خبر تھی کہ ان کے چاہنے والے کورونا کی دہشت سے گھروں میں سہمے بیٹھے ہیں اور کوئی سیرِ باغ کی غرض سے اپنی اپنی پناہ گاہوں سے نکلنے کو تیار نہ تھا۔ غالباً ایسی ہی کسی وبا کے موقعے پر مرزا غالب نے کہا تھا: 
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا
مجھے لگتا ہے کہ اب کے جس رنگ میں بہار گزری ہے کچھ اسی طرح سے روایتی عید بھی گزرے گی۔ یہ شعر تو مدتوں پہلے کسی نامعلوم شاعر نے کہا تھا: 
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی، دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
مگر اب کے تو بظاہر گلے ملنے کا امکان کم کم ہی ہے۔ دیکھیے شاعر نے عید کی کیا خوب صورت عکّاسی کی ہے؎
عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا
عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا
ہمارے مہربان دوستوں میں سے ایک دل نواز اور مہمان نواز شخصیت کا دستر خوان بہت وسیع ہے مگر کورونا کی حشر سامانیوں کا اندازہ لگائیے کہ چند روز پہلے ان سے کسی دوست نے پوچھا ''جناب! ان دنوں آپ کے ہاں مہمان نوازی کا کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے برجستہ جواب دیا: ان دنوں ہمارے ہاں زیرو مہمان نوازی ہے۔ اس صورتِ حال سے اندازہ لگا لیجیے کہ اب کے روایتی عید کس رنگ میں گزرے گی۔ گویا دید ہوگی نہ ہی معانقہ ہوگا اور نہ ہی کوئی میل ملاقات ہوگی۔
اگرچہ حکومت اور کچھ رفاہی تنظیمیں اربوں خرچ کر رہی ہیں‘ مگر اب بھی کروڑوں ایسے خاندان ہیں کہ جن کے پاس سامانِ عید نہیں۔ بطور خاص ان بچوں کی محرومی اور آزردگی کا اندازہ لگائیے کہ جن کے پاس عید کیلئے نئے کپڑے ہیں نہ نئے جوتے۔ جس طرح بھائی مطلوب راولپنڈی سے کھیوڑہ آ کر بے وسیلہ لوگوں کی دل جوئی سے اپنے لئے دلی آسودگی حاصل کر سکتے ہیں، اسی طرح ہم سنت نبوی کے مطابق دور نزدیک کے بچوں اور یتیموں کے لیے عید کے موقع پر نئے کپڑوں، نئے جوتوں اور کھلونوں کا بندوبست کرکے اپنے لیے انوکھی اور انمول خوشی کا اہتمام کر سکتے ہیں اور پھیکی عید کو روحانی خوشی والی عید بنا سکتے ہیں۔
اگرچہ حکومت اور کچھ رفاہی تنظیمیں اربوں خرچ کر رہی ہیں‘ مگر اب بھی کروڑوں ایسے خاندان ہیں کہ جن کے پاس سامانِ عید نہیں۔ بطور خاص ان بچوں کی محرومی اور آزردگی کا اندازہ لگائیے کہ جن کے پاس عید کیلئے نئے کپڑے ہیں نہ نئے جوتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved