تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     21-05-2020

کیا فلسطین کے لیے یوم القدس کی ریلیاں کافی ہیں؟

آج جب لکھنے بیٹھا تو حسب عادت تمام اخبارات کھنگالے، ایک سے بڑھ کر ایک موضوع تبصرے کے لیے دستیاب تھا، کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس میں عدالت کی ہفتے میں سات دن کاروبار کھولنے کا حکم اور پھر اس پر وضاحت، حکومت کی پالیسیوں پر عدالتی تشویش، وبا سے نمٹنے کے لیے مختص رقوم کے استعمال پر تحفظات، عدلیہ اور انتظامیہ کی حدود و قیود، عدالتی حکم نامے کی آڑ میں تاجروں کا وبا سے بچنے کے اقدامات کو روند ڈالنا، دسویں مالیاتی کمیشن کی تشکیل کے خلاف عدالت میں رٹ، سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی کی طرف سے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کا مطالبہ، اس کی وجوہات، اثرات اور اس کی آئینی و قانونی حیثیت، عید کی چھٹیوں پر وفاقی حکومت کے دو متضاد نوٹیفکیشن، نماز عید کے اجتماعات پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن کی رائے اور دارالعلوم دیوبند کا وبا کے دوران نماز عید پر فتویٰ، غرض کئی موضوعات تھے ۔ لیکن اسرائیل میں بنجمن نیتن یاہو نے دوبارہ وزارت عظمیٰ کے حلف کے بعد فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے جس نے بے چین کر رکھا ہے۔ کل یوم القدس بھی منایا جائے گا، اسلامی ملکوں میں احتجاج ہوگا، بیانات جاری ہوں گے اور پھر اگلے یوم القدس تک خاموشی چھا جائے گی جیسے کہ اب بنجمن نیتن یاہو کے اعلان پر خاموشی چھائی ہے۔ کم از کم میری نظر سے کسی اسلامی ملک کے لیڈر کا کوئی بیان نہیں گزرا۔
عرب ملکوں کی 1948 اور 1967 کی جنگوں میں ناکامی کے بعد اسرائیل کو فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل ہوا، آج تک فلسطینی عوام اس نقصان کے ازالہ کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن کچھ ہاتھ نہیں آ رہا۔ فلسطینی عوام اپنی ہی سرزمین اور گھروں میں مہاجر اور قیدی جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ فلسطینیوں نے اپنی سرزمین پر حق کے لیے مسلح جدوجہد بھی کی اور پرامن مذاکرات بھی لیکن انہیں انصاف اور امن نصیب نہیں ہوا۔ مسلح جدوجہد اور امن مذاکرات دونوں راستوں پر چلتے ہوئے فلسطینیوں نے عظیم قربانیاں دیں، امن کی خاطر اسرائیل کو کچھ مواقع پر رعایت بھی دی لیکن فلسطین کو اسرائیلی قبضے سے آزادی نہ ملی۔
اب اس سے بھی بد ترین حالات کا سامنا ہے، اسرائیلی لیڈروں کی فلسطینی زمینوں پر قبضے کی بھوک مٹنے کو نہیں آ رہی، اب اسرائیلی وزیر اعظم کھلے عام فلسطینی علاقوں پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیل مستقبل کی فلسطینی ریاست کا تقریباً تیسرا حصہ مزید ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھا ہے، اسرائیل کے منصوبے زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کے ہیں۔
سب سے پہلے تو مسلم ممالک فلسطین کے معاملے کو مسئلہ فلسطین کہنا چھوڑ دیں کیونکہ اصل مسئلہ اسرائیل اور اس کی فلسطینی علاقوں پر قبضے کی کوششیں ہیں۔ فلسطینی علاقوں پر قبضے پر نیتن یاہو کا اصرار بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے لیکن ابھی تک کوئی اسے سنجیدہ نہیں لے رہا، اسی وجہ سے اسرائیل کھلے عام یہ اعلانات کر رہا ہے اور اس کے لیے اس کے پاس کوئی قانونی جواز بھی نہیں ہے۔ اسرائیل کا یہ اعلان جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل غزہ کے مغربی کنارے کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب تک مغربی کنارہ مقبوضہ علاقہ ہے جس کو اسرائیل اب ضم کرنے کو ہے۔ یہ اقدام اقوام متحدہ کی اتھارٹی کے لیے بھی چیلنج ہے جس نے اس معاملے پر کئی قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد اور شاباک کے سابق سربراہ، ریٹائرڈ فوجی افسر نیتن یاہو کی اس پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن ان کی مخالفت بین الاقوامی یا انسانی حقوق کی بنیاد پر نہیں۔ ان سب کی طرف سے مخالفت کی وجہ اسرائیل کی سکیورٹی کو اس اقدام کے نتیجے میں درپیش خطرات ہیں۔ ان سب کو ہمسایہ عرب ملکوں میں مخالفت اور بین الاقوامی سطح‘ بالخصوص یورپ میں‘ پر اسرائیل کے خلاف رائے عامہ بننے کے خدشات ہیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں امریکی اور یورپی یہودیوں کی یک جہتی کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سابق بااثر افراد اس اقدام کو خطرہ تصور کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے اس اعلان کے مخالف اسرائیلی فلسطینیوں کے حقوق کی بات تک نہیں کرتے، قبضے کے حامی اپنے مذہبی عقیدے کو بنیاد بناتے ہیں‘ جس میں مغربی کنارہ ان کے لیے اہمیت رکھتا ہے، لیکن موجودہ دور کے قوانین اور سرزمین پر حق کے معیارات ان کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔
اسرائیل کے ان اقدامات پر امریکی رد عمل مایوس کن ہے، فلسطین کو کاٹنے اور اس کی زمین پر قبضے کے اقدامات کو موجودہ امریکی انتظامیہ کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے، اس قبضے کا ایک اور مقصد فلسطینیوں کو چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹنا ہے۔ فلسطینی علاقوں کے درمیان میں اسرائیلی آبادیات ہوں گی اور یوں فلسطینیوں کا متحد ہو کر مزاحمت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ نیتن یاہو کی دوبارہ بننے والی حکومت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقابل عمل منصوبے کا حصہ ہے جسے ڈیل آف سنچری کا نام دیا گیا ہے۔ مارچ 2019ء میں امریکا نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حق کو تسلیم کر کے مزید فلسطینی علاقوں پر قبضے کی حوصلہ افزائی کی۔ امریکا کی موجودہ انتظامیہ اسرائیل کے اقدامات کی مخالفت تو کجا، یہ پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کر رہی کہ مزید فلسطینی علاقوں پر قبضے کے لیے ان کے پاس کوئی قانونی جواز بھی موجود ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو تل ابیب کے حالیہ دورے میں صاف کہہ چکے ہیں کہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا معاملہ اسرائیل کا اپنا ہے۔ اس بیان کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس قبضے کے لیے اسرائیل کو فلسطینیوں سے پوچھنے کی ضرورت ہے نہ اس پر کوئی بین الاقوامی قانون لاگو ہوتا ہے۔ اسرائیل اگر اس منصوبے پر عمل کرتا ہے تو ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی طرف سے اس کی مذمت متوقع ہے لیکن اس مذمتی بیان کے ساتھ جو بائیڈن کوئی مضبوط مؤقف اپنانے سے گریز کریں گے۔
اب تک یوں لگتا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات پر چند دن میڈیا کوریج چلے گی، چند لیڈر بیانات داغیں گے اور حالات جو بھی ہوں دنیا آگے بڑھ جائے گی۔ فلسطینی عوام کے ساتھ مسلم ممالک اظہار یکجہتی کے بیانات دیں گے لیکن فلسطینی عوام کو آج تک یکجہتی کے بیانات نے کوئی فائدہ نہیں دیا اور شاید اب وہ ان بیانات پر توجہ بھی نہ دیں۔
یوں لگتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل غنڈہ گردی کی سیاست کر رہے ہیں اور انہیں بین الاقوامی قوانین کی کوئی پروا نہیں۔ امریکا اسرائیل کو ہلہ شیری دیتا ہے لیکن دنیا کے سامنے کھل کر نہیں آتا۔ جولائی میں اسرائیل قبضے کا یہ منصوبہ اپنی پارلیمنٹ میں پیش کرے گا۔ فلسطینی عوام نے اب تک شکست تسلیم نہیں کی اور آئندہ بھی نہیں کریں گے۔ اسرائیل نے منصوبے پر عمل کیا تو ایک بات یقینی ہے کہ قبضہ تو شاید کوئی روک نہ پائے لیکن اسرائیل کے سکیورٹی خطرات ضرور بڑھیں گے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قبضہ، خواہ صدیوں سے ہو، قابض قوتوں کو بالآخر پسپا ہونا پڑتا ہے، فلسطینیوں کو بھی ان کا حق، آزادی اور امن ضرور ملے گا۔ 
میرا سوال صرف اتنا ہے کہ کیا مسلم دنیا ہر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منا کر بری الذمہ ہو سکتی ہے؟ کیا مسلم دنیا کے لیڈروں کو تاریخ معاف کر پائے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved