تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     21-05-2020

جھولا

میرے یار نے شدید معاشی مشکلات میں آنکھ کھولی تھی ۔ باپ مقروض تھا۔ لڑکپن ہی سے اس نے حالات بدلنے کی ٹھان لی اور عمر بھر شدید محنت کی ۔ باپ کے قرضے اتارے۔ اچھا گھر بنایا ‘بڑی گاڑی لی‘اسی دوران اس کے دماغ میں غربت اور غریبوں کیلئے شدید نفرت اپنی جگہ بناتی چلی گئی ۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ غریب وہ ہڈحرام تھے ‘ جنہوں نے محنت نہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے ۔ 
پڑھائی کے بعد میں اپنے چچا کے پاس بیرونِ ملک چلا گیا ۔ کئی سال گزار کر وطن واپس آیا تو اس سے ملنے گیا ۔باتیں جاری تھی کہ گھنٹی بجی ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ پھٹے پرانے کپڑوں والا ایک شخص ڈرائنگ روم میں چلا آتا ہے ۔میرا دوست اس کے احترام میں کھڑا ہو گیااور اپنے ہاتھ سے اسے مشروب پیش کرنے لپکا۔ملاقاتی کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ایک ان پڑھ ہے ‘ جو دیہاڑی پر مکانات کو پینٹ کرتا ہے ۔ جتنی دیر وہ باتیں کرتا رہا‘ میرا دوست ادب سے ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔ کچھ دیر وہ باتیں کرتے رہے ‘ پھر ملاقاتی نے کہا : اچھا بھائی‘ میں چلتا ہوں ‘ دعا کرنا آج اچھی مزدوری ملے ۔ 
ہم دونوں اکیلے رہ گئے ۔ مجھے سخت حیرت زدہ دیکھ کر وہ مسکرا رہا تھا‘ پھر اس نے مجھے ساری کہانی سنائی ‘ اس نے کہا : دو برس پہلے کی بات ہے ۔ میں اپنی بیٹی فاطمہ کے ساتھ گاڑی میں کہیں جا رہا تھا۔ ایک جگہ سڑک کنارے ایک جھولے والا کھڑا تھا۔ یہ گول گھومنے والا جھولا تھا‘ جس میں بیٹھنے والے بچّے کبھی اوپر جاتے ہیں اور کبھی نیچے ۔یہ ان جھولوں سے بہت مختلف تھا‘ ہم امرا کے بچّے جن سے محظوظ ہوتے ہیں‘ مگر چار سالہ فاطمہ نے ہنگامہ اٹھا دیا۔ مجبوراً مجھے رکنا پڑا۔ فاطمہ جھولے میں بیٹھ ہی رہی تھی کہ ایک غریب ساآدمی بھی اپنی بیٹی کو لیے وہاں آپہنچا‘ جو فاطمہ کی ہم عمر تھی ۔اس خوبصورت بچّی نے بالوں میں گلابی پونی لگا رکھی تھی ۔ گلابی رنگ فاطمہ کی کمزوری ہے ۔ہم دونوں نے اپنے اپنے پیسے نکال کر جھولے والے کو دئیے ۔اُس نے دونوں بچیوں کو ایک ہی جھولے میں بٹھا دیا ۔ جب جھولا گھومنا شروع ہوا تو دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے اور خوشی سے چیخنا شروع کر دیا۔مجھے ناگواری محسوس ہوئی ۔خیر جب چکر ختم ہوا اور بچیوں کو نیچے اتارا گیا تو انہوں نے دوبارہ کی ضد شروع کر دی ۔ میں نے دیکھا کہ غریب شخص نے اپنی جیب سے بہت سارے سکّے اکھٹے کر کے جھولے والے کو دئیے ۔اسکے پاس پیسے ختم ہو چکے تھے ۔ 
اب‘ جھولا گھومنا شروع ہوا تودونوں لڑکیوں میں دوستی ہو چکی تھی ۔ میں نے دیکھا : میری بیٹی اس سے کچھ کہہ رہی ہے ۔ اس نے اپنی پونی اتار کر میری بیٹی کو دے دی ۔ غریب شخص مسکرا نے لگا۔ مجھے اور زیادہ ناگواری محسوس ہونے لگی ۔جھولا‘ پھر رک گیا ۔لڑکیوں نے ایک اور چکر کی فرمائش کی۔ میں نے جھولے والے کو فاطمہ کے پیسے دئیے۔ فاطمہ اس کی بیٹی کو بھی اپنے ساتھ کھینچنے لگی ۔ جھولے والے نے میری طرف دیکھا۔ میں چاہتا تو میں اس کے پیسے بھی ادا کر سکتا تھا ‘لیکن مجھے محنت نہ کرنے والے لوگوں سے سخت نفرت تھی ۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی بیٹی کے کان میں کچھ کہا اور وہ خاموشی سے فاطمہ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر جھولے کے سامنے کھڑی ہوگئی ۔ جتنی دیر جھولا چلتا رہا ‘ وہ ہاتھ ہلاتی رہی ۔ فاطمہ خوشی سے چلّا رہی تھی ۔میری بیٹی نے کئی بار جھولے لیے ۔ ہڈ حرام غریب شخص اور اس کی بیٹی کھڑے دیکھتے رہے ۔ آخر فاطمہ بھی جھولے سے اتر آئی۔ دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ فاطمہ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی کہ اچانک اس کی بیٹی کو کچھ یاد آیا ۔ اس نے کہا ''فاطمہ دیکھو میرے بابا مینڈک بنتے ہیں ‘‘ ۔ وہ ہنس پڑا ۔
اپنی بیٹی کے اصرار پر وہ زمین پر مینڈک کی طرح بیٹھ گیا۔ دفعتاً وہ ہوا میں کئی فٹ اوپر اچھلا اور اس نے اپنے منہ سے مینڈک کی آواز نکالی ۔ فاطمہ نے ساری زندگی ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا تھا ۔ حیرت اور خوشی سے وہ سکتے میں آگئی۔ اچانک اس کی بیٹی بھاگی اور مینڈک بنے ہوئے اپنے باپ کے کندھوں سے لٹک گئی۔ وہ اسے خود پہ سوار کر کے بھی ایک بہت بڑے مینڈک کی طرح کئی فٹ تک اچھلا۔فاطمہ تالیاں بجاتی رہی ‘پھر اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا ''بابا ‘ مینڈک‘‘۔ وہ چاہتی تھی کہ میں بھی اس لڑکی کے باپ کی طرح مینڈک بن کر اسے خود پہ سوار کروں ۔ میں بھلا یہ کام کیسے کرتا ؟مجھے اس کی مشق نہیں تھی اور میرا وزن بھی کافی بڑھا ہوا تھا۔ پہلے تو مجھ سے اس انداز میں بیٹھا ہی نہیں گیا ۔ بیٹھ گیا تو چند انچ سے زیادہ چھلانگ ہی نہیں لگی۔ میری جان سے پیاری بیٹی فاطمہ اداس ہو گئی ۔ 
اچانک وہ غریب لڑکی‘ میری بیٹی فاطمہ کو پکڑ کر اپنے باپ کے پاس لے گئی ۔میں نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔ اس نے میری بیٹی کو کندھے پر سوار کیا اور مینڈک بن کر اچھلا ۔ شرم سے میں پانی پانی ہو گیا ۔ میں اس کے پاس گیا اور فاطمہ کو اتارنے کی کوشش کی‘ لیکن وہ تو جیسے اس سے چمٹ گئی تھی ۔ آخرکافی دیر بعد جب فاطمہ کا دل بھرگیا‘ تو وہ اس کے کندھے سے اتر آئی ۔
میں سوچنے لگا ۔ مجھے خیال آیا کہ وہ غریب شخص مجھ سے پیسے نکلوانے کے لیے مجھے خوش کر رہا تھا ۔میں اس کے پاس گیا۔ بٹوہ نکالا اور ایک بڑا نوٹ نکال کراس کی طرف بڑھایا۔اس نے نفی میں سرہلایا۔میں نے زیادہ نوٹ نکالے ۔ اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ میں حیرت سے اسے دیکھتا رہا ‘ پھر میں نے ساری رقم نکال کر اس کی طرف بڑھادی ۔
''جناب میں آپ سے کس چیز کے پیسے لوں ؟ ‘‘ اس نے ناراضی سے کہا ''کیا میں آپ کو بچوں کی خوشیاں فروخت کرنے والا نظر آتا ہوں؟‘‘۔
مجھے اپنے پائوں تلے زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ میرے ماتھے پر پسینہ آگیا ۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اگر میرے ہاتھ میں دنیا کی ساری دولت بھی موجود ہوتی تو میں اس شخص کو خرید نہیں سکتا تھا‘ کیونکہ وہ برائے فروخت تھا ہی نہیں ۔
اوسان بحال ہوئے تو ایک گہری سانس لے کر میں نے فاطمہ سے کہا '' اپنی سہیلی کو بتائو کہ ہماری گاڑی کی چھت کھل جاتی ہے ۔‘‘ فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اسے گاڑی میں لے آئی۔ دونوں لڑکیاں چھت میں سے سر نکال کے کھڑی ہو گئیں ۔ناچار وہ بھی خاموشی سے کھڑا ہو گیا ۔ 
یہی تھا ؛وہ شخص۔ اس نے مجھے زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش سبق سکھایااور وہ یہ تھا کہ غریب بھی قابلِ صد احترام ہو سکتاہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved