موجودہ صورتحال پر سیاست کرنے والوں
کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی:عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''موجودہ صورتحال پر سیاست کرنے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی‘‘ اگرچہ قوم تو ہمیں بھی کبھی معاف نہیں کرے گی‘ لیکن اس کی وجوہ کچھ اور ہیں‘ بلکہ کچھ کیا‘ بیشمار ہیں‘ جن کا شمار قوم بھی کر رہی ہے اور ہم بھی اور ابھی تک اس میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس لیے قوم اور ہم نے یہ کام اللہ میاں پر چھوڑ دیا ہے جب تک کہ ہم ان میں اور بہت سی وجوہ کا اضافہ نہیں کر لیتے‘ کیونکہ ہم کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں‘ وہ جیسا بھی ہو اور ہم نے اچھے برے کا کبھی خیال نہیں کیا‘ جبکہ کام تو کام ہوتا ہے‘ اگر اچھا برا دیکھنے لگ جائیں تو وہ کام کبھی سرے نہیں چڑھ سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک خصوصی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ملکی نظام کو راتوں رات بدلنا مشکل ‘ لمبا
سفر ہے اور آگے بڑھ رہے ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''ملکی نظام کو راتوں رات بدلنا مشکل ‘ لمبا سفر ہے اور آگے بڑھ رہے ہیں‘‘ لیکن جوں جوں آگے بڑھ رہے ہیں ‘یہ سفر بھی مزید لمبا ہوتا جا رہا ہے‘ جبکہ ہمارے ذمے اسے راتوں رات بدلنا ہی لگایا گیا تھا اور جس کا مطلب ہے کہ ہماری اہلیت کا اندازہ لگانے میں خاصی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا تھا؛ حالانکہ ہم عاجزو مسکین لوگ ہیں اور اپنی اوقات میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ‘کیونکہ اگر اوقات سے باہر نکلنے کی کوشش کریں‘ تو ہمیں روکنے والے بھی موجود ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گے‘ اس لیے جس رفتار سے ہم آگے بڑھ رہے ہیں‘ اسے غنیمت سمجھنا چاہیے‘ کیونکہ دس قدم آگے بڑھ کر بیس قدم پیچھے بھی جانا پڑتا ہے‘ اس لیے ملکی نظام کو راتوں رات بدلنا نہایت مشکل ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیاکے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو مالی دبائو کا سامنا ہے‘ نکالنے کیلئے وقت درکار ہے: علیم خان
سینئر وزیر پنجاب عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ''ملک کو مالی دبائو کا سامنا ہے‘ نکالنے کے لیے وقت درکار ہے‘‘ بلکہ مالی دبائو کے ساتھ ساتھ ملک کو ہمارے دبائو کا بھی سامنا ہے۔ اس لیے یہ دہرا کام ہے اور اس کے لیے وقت بھی دہرا چاہیے؛ چنانچہ ہم ملک کو باری باری اس دہرے دبائو سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کسی جلدی میں بھی نہیں‘ کیونکہ جلد بازی کا کام ٹھیک نہیں ہوتاہے اور یہ دبائو کچھ اس طرح پیدا ہوا اور ان میں اضافہ ہوا ہے کہ ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوئی؛ حالانکہ فرشتوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں ‘لیکن اس کا امکان بھی ہے کہ یہ کسی وقت بھی خراب ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ قوتِ برداشت ان میں بھی کم ہی ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نیلم بھٹی کی شاعری
نیلم بھٹی کی یہ شاعری ہمیں امریکہ سے موصول ہوئی ہے:
کہیں سے دھوپ ترے چہرے کی اُتر سی گئی
کہ تیرے ماتھے کو چُومے کئی زمانے ہوئے
تمہارے موسموں سے مانگ لوں نیا آنچل
گئی رُتوں کے سبھی پیرہن پرانے ہوئے
شبِ وصال کے رنگیں رُباب کی مانند
دھڑک رہا ہے کوئی دل میں خواب کی مانند
جانِ الفت یہ سب خیالی ہے
جہاں دل تھا وہ دشت خالی ہے
شوق کی بات اور ہے‘ تاہم اگر وہ شاعری کو اپنی پہچان بنانا چاہتی ہیں تو انہیں جدید اردو غزل کا مطالعہ زیادہ سے زیادہ کرنا ہوگا۔
اور ‘ اب آخر میں علی شیرانؔ کی شاعری
میں تجھ پہ کر نہیں سکتا نثار اور چراغ
ہوائے لمس کے جھونکے نہ مار اور چراغ
اٹھا کے طاق سے اک روز پھینک دے گا کوئی
مرا وجود‘ ترا انتظار اور چراغ
سفر کو یاد رہے گا ہمارا رختِ سفر
یہ سرخ آبلے‘ گرد و غبار اور چراغ
تو جان لینا کہ پھر امتحانِ دوستی ہے
اگر بجھایا گیا ایک بار اور چراغ
تری جدائی میں اک دوسرے کو تکتے ہیں
تمام رات رُخِ اشکبار اور چراغ
وجودِ وقت پہ تزئینِ شب کے زیور ہیں
ہماری نیند‘ حسیں خواب زار اور چراغ
قدیم وقتوں سے اک دوسرے کے یار ہیں یہ
کبھی بچھڑ نہیں سکتے مزار اور چراغ
سماں بناتے ہیں شب کا سفید چہروں پر
سیاہ رنگ کے گہرے حصار اور چراغ
نویدِ صبح کے امکاں میں چل بسے دونوں
شبِ شکست کا گریہ گزار اور چراغ
شبِ سکوت میں شیرانِؔ محوِ رقص ہیں بس
دُھواں‘ اندھیرا‘ ہوائے خمار اور چراغ
آج کا مقطع
اک آغازِ سفر ہے اے ظفرؔ یہ پختہ کاری بھی
ابھی تو میں نے اپنی پختگی کو خام کرنا ہے