بھاشا ڈیم کی تعمیر کے اعلان نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور وہ کسی زہریلے ناگ کی طرح پھن پھلائے ڈنگ مارنے کیلئے موقع تلاش کر رہا ہے کہ کسی طرح سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کروا دے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کا باقی ماندہ پانی بھی ہتھیا لے ۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ہندوستان گزشتہ 73 برس سے ہماری آبی گزر گاہوں کو اپنے قبضے میں کرنے کیلئے سرگرم ہے‘ اگر اس کے بس میں ہو تو پاکستان کی جانب ایک بوند پانی بھی نہ آنے دے ۔ خطے میں بھارت کی آبی جارحیت کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔توانائی کے منصوبوں کی آڑ میں بھوٹان کے آبی ذخائر پر بھارتی قبضہ ہو یا بنگلہ دیش میں سالانہ سیلاب‘ ہمیشہ سے ہی ہمسایہ ممالک کے آبی وسائل کو اپنے مذموم عزائم میں کامیابی کیلئے استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے سیاچن میں بھی پن بجلی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔چین نے بھارت کو سبق سکھانے اور اسے لگام ڈالنے کیلئے 2018ء میں بھارت کا دریائے برہما پترا کا پانی روک دیا تھا اور اس پر ڈیم کی تعمیر شروع کر دی تھی۔ یوں عالمی قوانین کی باغی مودی سرکار کے جارحانہ اقدام کی بدولت جنوبی ایشیا تباہ کاریوں کی زد میں ہے ۔
سندھ طاس معاہدے بھارتی عیاری و روایتی ہٹ دھرمی کا واضح ثبوت ہے۔ مذکورہ واٹرٹریٹی کے تحت اُس نے ہمارے تین دریاؤں کو قابو کیا اور اب باقی بچ جانیوالے دریاؤں کے پانیوں کو اپنے تصرف میں کرنے کیلئے آبی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بھارت کئی بار سندھ طاس معاہدے کی روح سے ہی انحراف کر چکا۔ ماضی میں بگلیہار ڈیم کا معاملہ ہو یا کشن گنگا کا‘ بھارت نے ہمیشہ پاکستان مخالف جارحانہ سفارتی حکمت ِ عملی کے تحت معاہدے کو مجروح کیا۔ صحیح معنوں میں مذکورہ معاہدہ ہمارے گلے کا طوق بن چکا۔ ادھر بھارت معاہدے کی دھجیاں اڑا رتے ہوئے آبی مکاریوں میں مصروف ہیں اور ہم ہیں کہ اسی نام نہاد معاہدے کی پاسداری کے لحاظ میں خود کو بنجر و صحرا بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ہندو بنئیے کی عیاری و سفاکی خطرناک نہج پر پہنچ چکی کہ پاکستان کو قحط زدہ بنانے کی جائز وناجائز ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستانی دریاؤں کے منبع پرسینکڑوں ڈیم کی تعمیر کے بھارتی نا پاک منصوبے ‘ دریائے جہلم‘ چناب پر درجنوں ڈیموں کی تعمیر سمیت پاکستان کو مغربی جانب سے بھی پانی سے محروم کرنے کیلئے دریائے کا بل پر 22 ڈیموں کی تعمیر بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت نواز طبقہ ہندوستان کے ساتھ مل کر کالا باغ سے لیکر دیامیربھاشا ڈیم تک تمام قومی آبی منصوبوں کو متنازع بنا نے کے منظم منصوبوں میں ملوث ہے ؛چنانچہ اس دو رفتن میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر کا تاریخی اعلان مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی پاکستانی قوم کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ بہرحال ہمیں کسی طور بھی ہندو بنیئے کی سازشوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے‘ بلکہ اس کی ہر چال پر مسلسل نظر رکھنا ہوگی۔واضح رہے کہ دیامربھاشا ڈیم کے تعمیر میں روڑے اٹکانے کیلئے بھارت کی جانب سے اس کیخلاف اقوام متحدہ میں بھی درخواست دینے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ بھارت نے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کو بھی درخواستیں دیں کہ اس منصوبے کیلئے رقم فراہم نہ کی جائے‘ کیونکہ یہ منصوبہ ایک ایسی جگہ پر بنایا جا رہا ہے‘ جو کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ 2012ء میں بھارتی کوششیں رنگ لے آئی تھیں ‘جب دونوں مالیاتی اداروں نے تعمیر کی رقم روک لی گئی تھی۔ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں تعمیر کیا جانے والا دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے پر 14 سو ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے ‘جس سے 45 سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ اس ڈیم کا پانی آبپاشی اور پینے کیلئے بھی استعمال کیا جائے گا۔ آبی ماہرین کے مطابق تربیلا ڈیم کی صلاحیت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے‘ اس لئے دیامر بھاشا ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے زیادہ بہترین آپشن ہے۔ اس ڈیم سے16500 ملازمتیں اور 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی‘ جبکہ تربیلا ڈیم کی عمرمیں 35 سال کا مزید اضافہ ہو گا۔منصوبے پر کام شروع ہونے سے 16 ہزار500 نوکریاں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ سیمنٹ اورسٹیل کے بھرپوراستعمال سے صنعت کو سہارا ملے گا۔ دیامربھاشا ڈیم سے4500 میگاواٹ سستی بجلی بھی حاصل کی جاسکے گی۔ ڈیم سے گردونواح میں رقبے کی سوشل ڈیویلپمنٹ پر 78.5 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ ڈیم میں 6.4ملین ایکڑفٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔ ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے ملک کو درپیش 12 ملین ایکڑفٹ کمی میں بہتری آئے گی۔
اس وقت پاکستان کو آبی ذخائر تعمیر کرنے کی بہت ضرورت ہے ۔ ہم مسلسل اپنے آبی وسائل کو ضائع کرتے چلے آرہے ہیں ۔ 1951ء میں ہر سال5,250 مکعب میٹر پانی کی سطح پر پانی کی دستیابی اب ایک ہزار مکعب میٹر کے قریب رہ گئی ہے۔ امکان ہے کہ 2025 ء تک یہ مزید 860 مکعب میٹر رہ جائے گا۔دریائے سندھ کا نظام سالانہ قریباً 134.8 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کی آمد حاصل کرتا ہے۔ اوسط سالانہ بارش 100 ملی میٹر سے کم 750 ملی میٹر سے زیادہ تک ہوتی ہے۔ تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی تعمیر کے بعد پاکستان میں کوئی قابلِ ذکر بڑا پانی کا زخیرہ تعمیر نہیں کیا گیا‘ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا اور اس میں صرف سمندر میں پانی ضائع ہونے والا ہی روک لیتے تو آج ہمارے ملک کو قلت آب جیسے سنگین معاملے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
درحقیقت دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک نے اپنے پانی کی قلت کو پورا کرنے سمیت زراعت و دیگر ضروریات اور مستقبل میں قحط جیسی سنگین صورتِ حال سے بچاؤ کیلئے آبی منصوبے تعمیر کر رکھے ہیں ۔ پاکستان میں بارشوں سے ہر سال قریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے‘ لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث صرف 13.7 مکعب ایکڑ فٹ پانی بچایا جاتا ہے۔ تربیلا ڈیم کے بعد ہمیں ہر دس سال بعد نیا ڈیم بنانا چاہیے تھا‘ مگر افسوس حکمران آپس میں دست و گریباں رہے اور قومی و ملکی فلاحی منصوبوں کو بھی پاکستان کی مجہول سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا‘ افسوس یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔