تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     23-05-2020

خوشی کا سامان کہیں سے تو آئے

ایک تو ڈپریشن کا موسم، کچھ بیماری کی وجہ سے کچھ ہمارے حالات ہی ایسے ہیں۔ ادھار اور مانگے تانگے پہ گزارہ کرنے والا گھرانہ کبھی خوش وخرم ہوسکتا ہے؟ اور جس مملکت کی عادت بن چکی ہو مانگے تانگے پہ رہنے کی اس کا کیا حال ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ ہم نے کچھ غیرضروری طورپہ سنجیدگی کالبادہ اوڑھ رکھاہے۔
اب یہی دیکھ لیجیے وہ مقابلے کا امتحان جو ریحام خان کے سامنے کسی ٹی وی اینکر نے رکھ دیا۔ داد دینی پڑتی ہے اُس اینکر کو کہ سوال کیسا کیا اورکس بے دھڑک انداز سے۔ میرے جیسے آدمی کو ایسا سوال پوچھنا ہوتا تو گھوم پھر کے پتہ نہیں کہاں سے کہاں نکل جاتے اور مطلب پھر بھی سننے والے کے پلے نہ پڑتا۔ اس اینکر نما شخص نے سوال کیا پوچھا کلہاڑی اُٹھائی اور دے ماری۔ ریحام خان بھی داد کی مستحق ہیں۔ کوئی اورخاتون ہوتی تو کم از کم کنفیوژن کا شکار ہو جاتی‘ لیکن ریحام کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیلی، تھوڑا سا شرمائی ضرور کیونکہ سوال ہی ایسا تھا لیکن آنکھوں سے شرارت نہ گئی اور مسکراہٹ بھی قائم رہی۔ پھر شرمانے کے انداز میں جس طریقے سے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پہ لے گئیں وہ بھی کمال کا انداز تھا۔ سوال اگر بے دھڑک تھا تو جواب بھی اس سے کم نہ تھا۔ اول تو یہ ویڈیو سب نے دیکھ لیا ہوگا جنہوں نے نہیں دیکھا اورتجسس رکھتے ہیں یوٹیوب پہ جا کے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ 
ایسا انٹرویو امریکا میں کہیں آتا تووہاں کے ٹی وی اینکرخاص طورپہ وہ جو لیٹ نائٹ شو کرتے ہیں ہنس ہنس کے رُل جاتے۔ انہوں نے ایسی ایسی باتیں نکالنی تھیں کہ خود تو محظوظ ہوتے پوری قوم کو بھی ہنسا کے رکھ دیتے۔ ہمارے لوگوں میں حسِ مزاح کی کمی نہیں لیکن معاشرتی پابندیوں کی وجہ سے بہت کچھ جو ہم آپس میں کہتے ہیں اُس کا برملا اظہار سرعام نہیں کرسکتے۔ خاص طورپہ ہم پنجابیوں کی آپس میں روزمرّہ کی گفتگو نرالی ہوتی ہے۔ کون سے قریبی رشتے ہیں جن کو ہم بات کرتے ہوئے کھنگال کے نہیں رکھ دیتے لیکن ٹی وی وغیرہ پہ ایسے سنجیدہ چہرے رکھنے پڑتے ہیں اورایک پوری فہرست ہے ایسے موضوعات کی جن کا سرعام ذکر شجرِ ممنوعہ ہے۔ اسی لیے ریحام خان کا مختصر سا تبصرہ (دوران مقابلے کے امتحان کے) بہتوں نے سُنا اوردیکھا ہوگا لیکن سرعام اس کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں۔ 
دوسرا موضوعِ تفنن ان غصے میں آئی ہوئی بیگم صاحبہ کا ویڈیو ہے جب وہ اہلکاروں کی باز پرس کررہی تھیں‘ جنہوں نے اُن کی کار روکنے کی جسارت کی۔ صنفِ نازک تو ایک عمومی سا لقب ہے۔ بیگم صاحبہ نے شاید نازک پہلو سب چھپا رکھے تھے۔ ویڈیو پہ کچھ تبصرے میں نے دیکھے ہیں جو بہت دلچسپ ہیں۔ کچھ میں تو لکھاہے کہ شوہر صاحب کسی تمغۂ استقامت کے مستحق ہیں کہ اُنہیں پتہ نہیں کیا کیا برداشت کرنا ہوتا ہو گا۔ بہرحال بیگم صاحبہ نے وہاں موجود اہلکاروں کا کیا بگاڑنا تھا‘ اپنے شوہر کی نوکری انہوں نے یقینا متاثر کردی ہے۔ یہ قسمت کی باتیں ہیں۔ شریک حیات، مرد یا عورت، خالصتاً قسمت کا کھیل ہوتاہے۔ کس کے حصے میں کیا آئے کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ 
زیادہ تر لوگوں سے ایک رشتۂ ازدواج صحیح طور پہ ہینڈل نہیں ہوتا۔ قسمت اچھی ہو پھر تو کوئی بات نہیں لیکن سودا کھوٹا نکل آئے تو زیادہ تر لوگ، مرد ہوں یا خواتین، بے بسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کوئی کوئی ہوتاہے جو دھڑلّے سے کام لے سکتاہے۔ کئی خواتین جو ایک سے زیادہ رشتۂ ازدواج میں منسلک رہی ہوتی ہیں‘ اُن میں کمال کااعتماد ہوتاہے۔ ایک خاص شخصیت کی مالک خاتون ہی ایسا کرسکتی ہے نہیں تو زیادہ تر اگر اُن کے بھاگ اچھے نہ ہوں دَب کے رہ جاتیں ہیں۔
کئی مرد بھی ایسے ہوتے ہیں جو ڈاڈھی زنانی کے سامنے بیچارے لگتے ہیں‘ لیکن ایسے مردوں کی کمی بھی نہیں جو ہرچیز ڈنکے کی چوٹ پہ کرتے ہیں۔ نام لینا تو مناسب نہیں لیکن کئی ایسے شہرت رکھنے والے مرد ہیں جو ایک سے زیادہ بار اس رشتے میں گئے اورکبھی اس حقیقت کو نہیں چھپایا۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں، اسلام آباد کے رہائشی ہیں۔ عمر 80 کے لگ بھگ ہوگی۔ بچے جوان ہیں اورسب کے نام اپنے حصے کی جائیدادیں ہیں۔ پہلی بیوی فوت ہوچکی ہے۔ حالیہ دنوں میں اپنے سے خاصی کم عمر دوشیزہ سے رشتہ کیا اور دھوم دھام سے ولیمے کااہتمام کیا۔ بات توہوئی نا۔ نہیں تو کئی رنگین مزاج اشخاص اپنی ایسی حرکات کو خفیہ رکھنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ شہر میں چپکے سے ایک شادی کرلی وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں ادا اپنے جاننے والے کی اچھی لگی۔ کچھ کرو تو سہنے کا جگرا بھی رکھو۔ 
چینی سکینڈل کا ذکربھی ہوجائے۔ کیسے کیسے لمبے ہاتھ ان سب نے مارے ہیں۔ گنے کے کاشتکاروں کا استحصال تو پرانی بات ہے۔ اوپر سے حکومتیں مل والوں کو اضافی رقوم سبسڈی کے ضمن میں دیتی رہی ہیں۔ کیا مزے کی لوٹ مار۔ نرالی بات تو یہ ہے کہ شوگر مالکان کی نمائندگی تمام سیاسی پارٹیوں میں ہے۔ اسی لیے سکینڈل پہ جو کمیشن بیٹھا اس کی رپورٹ آئی تو تقریباً تمام پارٹیوں کے زعما نے اُسے مستردکردیا۔ سوال یہ ہے کہ کچھ ہونا بھی ہے یا نہیں۔ اس ملک میں جن کے لمبے ہاتھ ہیں ان کے ساتھ کبھی کچھ ہوا ہے؟ کرپشن کا سن سن کے کان پک چکے ہیں۔ کرپشن کے نام پہ نعرے لگتے ہیں، تقریریں ہوتی ہیں، ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ یہ بس باتیں ہیں عام لوگوں کو بہلانے کیلئے۔ عوام بھی ہیں کہ باآسانی بہل جاتے ہیں۔ 
یہ جو خبروں میں بات آئی ہے کہ اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں جو ایک مشہور ریستوران ہے اس نے اپنے توسیعی منصوبے کے تحت سینکڑوں درختوں کا قتل عام کردیا۔ خبروں کے مطابق بغیر کسی باقاعدہ اجازت کے۔ وزیراعظم کے ماحولیات کے ایڈوائزر ملک امین اسلم حرکت میں آئے ہیں اور ریستوران کو سیل کردیا گیاہے۔ قانونی کارروائی بھی کئی اشخاص کے خلاف ہوئی ہے۔ لیکن درحقیقت کارروائی تو سی ڈی اے کے چیئرمین کے خلاف ہونی چاہیے۔ ریستوران جہاں واقع ہے کوئی خفیہ جگہ نہیں۔ سی ڈی اے کو نہیں پتہ چل رہاتھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے؟ بس ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ وَقتی کارروائی‘ لیپا پوچی کیلئے اور پھر حالات معمول پہ آجاتے ہیں اورجس کی جو مرضی ہو ایسا ہی کرتاہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ آپ بااثر ہوں۔ بااثر افراد کیلئے یہ دنیا کا آزاد ترین ملک ہے۔ 
عید کیسے گزرے گی؟ اس عید پہ کورونا کا اثر نمایاں ہے۔ بازار اور شاپنگ مال کھل گئے ہیں لیکن پھر بھی وہ بات نہیں جو نارمل حالات میں ایک روایت ہوا کرتی تھی۔ قوم کا مزاج کچھ بجھا بجھا سا ہے۔ جن طبقات نے معیشت کے بند ہونے سے نقصان اٹھایا ہے وہ تو ابھی تک نفع نقصان کا حساب لگا رہے ہیں۔ حساب مکمل ہوگا تو عید کی خوشیوں کی طرف لوگوں کا دھیان جائے گا۔ 
ایک اور بے ضرر طبقہ ہے، بدنام بہت لیکن کسی کو نقصان پہنچانے والا نہیں۔ اس طبقے کے افراد پہ بہت بُری گزری ہے۔ بات کریں تو روتے ہوئے ملیں گے کہ فلاں چیز نہیں مل رہی، فلاں کی قیمتیں بہت اُونچی پہنچ چکی ہیں۔ اس طبقے کا حال دیکھ کے دل میں ہمدردی اُٹھتی ہے۔ مزاجاً یہ لوگ فقیر اور درویش قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا پُرسان حال کوئی نہیں۔ اوپر سے یہ موضوع بھی ایسا ہے کہ کھل کے بات نہیں ہو سکتی۔ ظلم کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے کہ دل پہ زخم ہوں اور آپ کچھ کہہ بھی نہ سکیں۔ 
پسِ تحریر: پچھلے کالم میں غلطی ہو گئی۔ ایس ایچ او کلفٹن جو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد پراسرار طور پہ مارے گئے‘ اُن کا نام حق نواز سیال تھا‘ نوازش علی نہیں۔ اس غلطی کی معذرت۔ کالم کا جو موضوع تھا یعنی نواب شاہ کی خبریں ان کے بارے میں ملک کی سب سے باخبر شخصیت جن کا پراپرٹی کاروبار میں بڑا نام ہے سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ نواب شاہ کے مکینوں کے بارے میں جو افواہیں گردش کررہی ہیں یہ 2000 فیصد غلط ہیں۔ اور میں نے ان افواہوں پہ پورا کالم داغ ڈالا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved