تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-05-2020

جنابِ شیخ کا نقشِ قدم …

لگتا ہے قسم کھالی گئی ہے کہ مان کر نہیں دینا۔ بہت کچھ ہے جو سب پر کُھل چکا ہے‘ ظاہر ہوچکا ہے۔ اور مزید بہت کچھ ہے جو کُھلتا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلنے پر دنیا کی جو حالت ہوئی ہے اُس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ امریکا کہتا ہے کہ چین نے کچھ گڑبڑ کی ہے۔ چین کہتا ہے کہ معاملات امریکا نے بگاڑے ہیں۔ یورپ کوئی اور کہانی سُنا رہا ہے۔ ایشیائی ریاستیں کچھ اور سوچ رہی ہیں۔ جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے امریکا نے اس کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کرنے کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کرنے کے بجائے محض الزام تراشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ چین کو زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ دنیا کی توجہ اُس طرف ہو جائے اور عالمی قیادت کے حوالے سے امریکا کی اہلیت کے بارے میں تحفظات جڑ نہ پکڑیں۔ چین کو بدنام کرنے کی سازش مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ غیر معمولی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے باوجود کورونا کی وبا کے پھیلاؤ میں چین کے کردار کی بات اہلِ جہاں کے ذہنوں میں زیادہ جگہ حاصل نہیں کر پائی۔ امریکا اور یورپ کے عوام کے ساتھ بہت بُرا ہوا ہے۔ دونوں خطوں کی قیادت کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے مکمل تیاری کی حالت نہیں تھی۔ اس کا جو منطقی نتیجہ نکل سکتا تھا وہی نکلا ہے۔ کورونا سے بچاؤ کی خاطر لاک ڈاؤن نے معاملات کو ایسا الجھایا کہ اب کچھ بھی سلجھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکا‘ اٹلی‘ برطانیہ‘سپین‘ جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو خاصی بھاری قیمت چُکانی پڑی ہے۔ یورپ میں کورونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ امریکا میں یہ تعداد ایک لاکھ کو چُھونے والی ہے۔ 
امریکا سے توقع تھی کہ وہ قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کورونا وائرس سے نجات کی راہ دکھائے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دنیا یہ بات بھول گئی تھی کہ امریکا کی قیادت اِس وقت ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیر سنجیدہ شخص کے ہاتھ میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پورے معاملے سے خاصے بھونڈے اور شرمناک انداز سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے پر اُنہوں نے مزید غیر متوازن رویہ اپنانے کو ترجیح دی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں معاملات نے جس طور چُوں چُوں کے مربّے کی سی شکل اختیار کی ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے اپنی اہلیت منوانے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ کسی بھی حوالے سے جامع تیاری کی ہی نہیں گئی تھی۔ محض بڑھکیں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو اپنی برتری منوانی ہو تو کچھ کرکے بھی دکھانا پڑتا ہے۔ صرف دعوے کرنے والوں کا وہی حشر ہوتا ہے جو کورونا کی وبا میں امریکا کا ہوا ہے۔ نیو یارک میں جس طرح کی حالات پیدا ہوئے وہ دنیا کو کچھ اور سوچنے پر مجبور کرنے کیلئے کافی تھے۔ نیو یارک (ریاست) میں کورونا کے ہاتھوں ایسی بدحواسی پھیلی کہ ہسپتالوں میں جگہ نہ رہی۔ لوگ علاج کیلئے ترستے رہے۔ اس بدحواسی اور بدانتظامی میں اموات بڑھ گئیں۔ طبی عملے کے تحفطات اپنی جگہ تھے۔ یہی کیفیت‘ انتہا کے ساتھ‘ اٹلی میں بھی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد سپین کی باری آئی۔ اٹلی میں جب کورونا کی وبا نے زور پکڑا تو معمر افراد کی دیکھ بھال کرنے والے مفقود تھے۔ ہزاروں معمر افراد اس لیے موت کے منہ میں چلے گئے کہ انہیں بے سہارا چھوڑ دیا گیا تھا۔ سپین میں بھی کچھ ایسے ہی شرمناک نظارے دکھائی دیئے۔ اپنی اقدار کو برتر قرار دے کر دنیا پر تھوپنے کی کوشش کرنے والے مغرب کو اب کچھ شرم محسوس کرنی چاہیے۔ 
شدید نوعیت کی بدانتظامی اور شرمناک قسم کی بے حِسی کا مظاہرہ کرنے پر بھی امریکی قیادت باقی دنیا کو موردِ الزام ٹھہرانے پر تُلی ہوئی ہے۔ چین کو بخشنے کے لیے وہ اب بھی تیار نہیں۔ امریکا اور یورپ میں جو کچھ ہوا کیا وہ بھی چین کا کیا دھرا تھا؟ چین وائرس تو پھیلا سکتا تھا‘ انتظامی خرابی پھیلانے کی صلاحیت اُس میں کہاں سے آئی؟ کورونا کی وبا نے امریکا اور یورپ کو بہت عجیب کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ دونوں اب تک پروپیگنڈا کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ ہم آہنگی کے بغیر بات نہیں بن سکے گی۔ امریکا اور یورپ کو اپنی ذمہ داری سمجھنا ہوگی۔ اگر وہ اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لیے شدید نوعیت کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پتھر کی سی بے حِسی اور جمود کو اپنائے رہیں گے تو خرابیاں دور کرنا ممکن نہ رہے گا۔ وہ وقت اب تیزی سے جارہا ہے جب امریکا ہر معاملے میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا تھا۔ دنیا بدل گئی ہے۔ کئی خطے تیزی سے ابھرے ہیں۔ ایشیا کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اُسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو بگاڑ ہی پیدا ہوگا۔ آج کی دنیا میں تمام معاملات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مل بیٹھ کر‘ ہم آہنگی اور اتفاقِ رائے کے ساتھ ہی معاملات نمٹائے جاسکتے ہیں۔ امریکا کو جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی والی ذہنیت سے جان چھڑانا ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو دوسروں کا کم‘ اپنا بہت زیادہ نقصان کرے گا۔ امریکی قیادت کیلئے اس نکتے پر غور کرنا لازم ہے کہ اب ہر معاملے میں امریکا باقی دنیا کو صرف اپنی مرضی کے تابع نہیں رکھ سکتا۔ اکیسویں صدی میں عالمی بساط پر کئی بڑے کھلاڑی ابھرے ہیں۔ چین نمایاں ترین ہے۔ عالمی طاقت بننے کے سفر میں چین نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب اُس کا رویہ معقول ہی رہا ہے۔ اُس نے ''نرم قوت‘‘ کو شعار بنائے رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے نمٹانے کی امریکی روش کا انجام یورپ کے ساتھ ساتھ چین نے بھی تو دیکھا ہے۔ کیا کوئی سبق نہیں سیکھا جائے گا؟ یقیناً سبق سیکھا جائے گا‘ بلکہ سیکھ لیا گیا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران چین نے خاصے متوازن اور معقول رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوسروں پر الزام تراشی کرنے کے بجائے اُس نے شہریوں کو وبا سے بچانے پر توجہ دی۔ یورپ نے بھی الزام تراشی کے بجائے معقولیت کا دامن تھامے رہنے کو ترجیح دی ہے۔ معیشت کے نقصان کو معقولیت کی حدود میں رکھنے کیلئے اُس نے بھی چین کی طرح سمارٹ لاک ڈاؤن کیا اور مطلوب نتائج آسانی سے حاصل کرلیے۔ اب جنابِ شیخ کیلئے اپنے گریبان میں جھانکنے کا وقت آگیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved