پی آئی اے کا مسافر طیارہ جس نے رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ کو جمعۃ المبارک کے دن ایک بج کر دس منٹ پر لاہور کے علامہ اقبال ہوائی اڈے سے اڑان بھری تھی، منزلِ مقصود کراچی پہنچ کر زمین کو نہ چھو سکا، اور ہوائی اڈے سے ایک، دو منٹ کی مسافت پر گنجان آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس میں عملے سمیت99 افراد سوار تھے، دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے۔ پنجاب بینک کے سربراہ ظفر مسعود اور ایک نوجوان انجینئر محمد زبیر اب ہسپتال میں زیر علاج ہیں، انہیں کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی، دونوں ہوش میں ہیں اور اپنے بچنے کی کہانی بھی بیان کر چکے ہیں۔ ظفر مسعود کا کہنا ہے کہ یوں لگا‘ کسی نے انہیں نشست سمیت اُٹھا کر باہر پھینک دیا ہو۔ محمد زبیر کو بھی یاد نہیں کہ یہ معجزہ کیسے ممکن ہوا۔ انہوں نے حادثے سے پہلے کی تفصیل البتہ یہ بتائی ہے کہ پرواز بالکل ہموار تھی۔ راستے میں کوئی الجھن یا دشواری محسوس نہیں ہوئی۔ کراچی پہنچ کر پتہ چلا کہ طیارے کے لینڈنگ گیئر نہیں کھل رہے۔ ہوا باز نے ایک چکر لگایا اور مسافروں نے کلمے کا ورد شروع کر دیا۔ چند ہی لمحوں بعد آگ کے شعلے تھے، اور شوروغوغا تھا، جہاز حادثے کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ ایک گنجان آبادی پر گرا، کئی مکان زمین بوس ہو گئے، اور درجنوں افراد جو اپنے اپنے گھروں میں بصد اطمینان بیٹھے ہوئے تھے، آناً فاناً ملبے کے ڈھیر پر تھے۔
مسافر عید منانے کے لیے کراچی جا رہے تھے کہ ان کے گھرانے بے چراغ ہو گئے۔ پورا ملک افسردگی میں ڈوب گیا۔ اظہار غم کے ساتھ ساتھ حادثے کے اسباب پر بھی بحث شروع ہو گئی۔ طیارہ جس صورتِ حال سے دوچار ہوا، وہ انتہائی غیر معمولی تھی۔ ایک تو اس کے لینڈنگ گیئر نہیں کھلے، اور دوسرے یہ کہ اس کے دونوں انجن کام کرنا چھوڑ گئے وہ قریب کی ایک گنجان آبادی کی بلند عمارت سے ٹکرا گیا۔ اس حادثے کے بعد یہ سوال بھی اُٹھا کہ ہوائی اڈے کے اس قدر قریب ایک گنجان ہائوسنگ سوسائٹی کیسے قائم ہو گئی، اور اس میں بلند و بالا عمارتیں کیسے تعمیر ہو گئیں، لیکن پاکستان کے عمومی حالات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا، یہاں ہر اس شخص کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جس کا جہاں بھی اور جو بھی بس چلتا ہے۔
کچے پکے ماہرین ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے، اور سول ایوی ایشن کی حالتِ زار پر بحث ہونے لگی، شفاف تحقیقات کا مطالبہ پوری شدت سے دہرایا جانے لگا۔ پی آئی اے کے سربراہ ایئر مارشل ارشد ملک نے بھی پریس کانفرنس طلب فرمائی، اور تفصیلاً اظہارِ خیال کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جہاز کو اڑانے والا عملہ بہترین تھا، اور جہاز بھی محفوظ ترین تھا۔ اس کا فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا چکا تھا۔ یہ بہترین حالت میں تھا۔ ان کے اس اصرار کے باوجود حقیقت یہ تھی کہ حادثہ ہو چکا تھا، اور درجنوں قیمتی جانوں کو نگل چکا تھا۔ ارشد ملک الفاظ کا جو بھی ذخیرہ تلاش کر لیں، اور انہیں جس قدر رقت آمیز انداز میں استعمال کر گزریں، وہ یہ بات نہیں جھٹلا سکتے کہ جہاز کا لینڈنگ گیئر نہیں کھلا، اس کے دونوں انجن بھی فیل ہو گئے، یہ تفصیل چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے کہ جہاز محفوظ نہیں تھا، اور اس کی جانچ پڑتال معیاری نہیں تھی۔ ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، جو ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کر دے گی، لیکن پاکستان کی تاریخ ایسے حادثوں اور ایسی کمیٹیوں سے بھری ہوئی ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران پی آئی اے کو جتنے حادثوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے اسے دُنیا کی محفوظ ترین ایئر لائنز کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے۔
آج بھی دُنیا میں ایسی متعدد ایئر لائنز کاروبار کررہی ہیں، جنہیں گزشتہ کئی برسوں میں کسی ایک بھی مہلک حادثے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ دور نہ جائیے، متحدہ عرب امارات کی ایئر لائن ہی کی کارکردگی جانچ لیجیے۔ یاد رکھا جائے کہ بہت کم حادثات ایسے ہوئے ہیں، جنہیں اتفاق کہا جا سکتا ہے۔ ان کی بھاری تعداد انسانوں کی غیر ذمہ داریوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک، دو نہیں متعدد ایسی ایئر لائنز آج بھی ہوائوں میں تیر رہی ہیں، جنہوں نے اپنے سسٹم کو مضبوط بنا کر اپنے آپ کو محفوظ بنایا ہے اور ان کی تاریخ مہلک حادثے کے لفظ سے آشنا نہیں ہے۔ پی آئی اے بھی ایک زمانے میں دُنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کے سربراہ تھے تو پروازوں کے آغاز کے وقت ان میںکی جانے والی انائونسمنٹ میں انشاء اللہ کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا۔ یہ کہنے کی اجازت نہیں تھی کہ ہم پرواز کرتے ہوئے انشاء اللہ دو گھنٹے بعد لاہور (یا کراچی یا کہیں اور) پہنچیں گے۔ ایئر مارشل سے اس پر (ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد) گفتگو ہوئی تو انہوں نے بڑا دلچسپ جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا آپ اگر نہانے کے لئے باتھ روم جا رہے ہوں تو کبھی اپنے اہلِ خانہ سے یہ نہیں کہتے کہ انشاء اللہ ابھی غسل خانے سے آ کر ناشتہ کرتا ہوں۔ انشاء اللہ آپ اُس وقت کہتے ہیں، جب طویل سفر پر روانہ ہو رہے ہوں یا کسی پُر خطر مہم پر گھر سے نکل رہے ہوں۔ ایئر مارشل کے بقول وہ پی آئی اے کا سفر اتنا ہی محفوظ بنا دینا چاہتے تھے، جتنا غسل خانے سے نہا کر آنا۔ انشاء اللہ کہنے سے خطرے کا احساس پیدا ہوتا ہے، اس لیے ان الفاظ کی باآواز بلند ادائیگی غیر ضروری تھی (انہیں آہستگی سے ادا کیا جا سکتا تھا) ایئر مارشل کی اس توجیہہ سے اتفاق نہ کرنے والے بھی، اس بات کی داد تو دیں گے کہ ان کے ذہن میں ایئر لائن کو محفوظ سے محفوظ تر بنانے اور سمجھنے کی اہمیت کیا تھی، اور اس کا معیار کیا تھا۔
پاکستان جب قائم ہوا تو بے سروسامان تھا۔ اس کا کوئی ریاستی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ بھارت کو تو بنی بنائی اور جمی جمائی حکومت مل گئی تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو عبوری حکومت کے وزیراعظم تھے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن وائسرائے کے طور پر اس کے سربراہ تھے۔ آزادی کے بعد وہ گورنر جنرل بن گئے اور پنڈت جی بدستور وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالے رہے، بھارت نامی ریاست میں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی انتظامی خلل پیدا نہیں ہوا، لیکن پاکستان نام کی کوئی ریاست موجود تھی، نہ اس کا کوئی دارالحکومت تھا، نہ کوئی انتظامی ڈھانچہ۔ بھارتی حکومت نے اس کے حصے کے وہ پیسے بھی ریلیز کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو اسے ترکے میں ملے تھے۔ اس عالم میں بھی اس کا انتظامی ڈھانچہ استوار کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نئی ریاست چوکڑیاں بھرنے لگی۔ معیشت کو سنبھالا گیا اور زبردست انتظامی ڈھانچہ بھی کھڑا ہو گیا۔ پی آئی اے کا قیام عمل میں آیا، تو چند ہی برس میں اس نے اپنا نقش جما لیا۔ اس نے خلیجی ممالک کو بھی تکنیکی میدان میں معاونت فراہم کی۔ سیاست کو ذمہ دار ٹھہرایے، یا اس پر حملہ آور ہونے والوں کا رونا روتے جائیے، نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آج ہمارا ہر شعبہ بد نظمی کا شکار ہے۔ ہوائی سفر کی تو بات ہی کیا زمینی سفر بھی محفوظ نہیں رہا۔ ہر روز درجنوں افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں لیکن کسی بڑے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ٹریفک کے قواعد و ضوابط تک نافذ نہیں ہو پا رہے۔ غیر تربیت یافتہ افراد گاڑیاں اور موٹر سائیکل دوڑاتے پھرتے اور کشتوںکے پشتے لگاتے چلے جاتے ہیں۔ سب نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مقتدر حضرات چونکہ خود ہٹو بچو کے درمیان محفوظ راستہ بنا گزرتے ہیں، اس لیے انہیں عوام الناس سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی بلا سے ان کے لیے، کوئی مرے اور کوئی جئے۔ اس ماحول میں ہوائی سفر کو محفوظ بنانے کی بات خواب معلوم ہوتی ہے، لیکن اسے دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی، تو آیئے یہ خواب دیکھتے رہیں، ہو سکتا ہے کبھی اس کی کوئی تعبیر ہاتھ آ جائے۔ ایک وقت میں پاکستان بھی ایک خواب ہی تو تھا!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا ‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)