تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-06-2013

بوتل کہاں سے آئے گی؟

شہباز شریف شیر کی بات کرتے ہیں، شیر کا ہَوّا کھڑا کرکے مخالفین کو ڈراتے ہیں۔ مگر اچھا ہے کہ وہ شیر جیسے نہیں ورنہ اِتنا کام نہ کر پاتے۔ شیر صرف ڈرانے کے لیے ہوتا ہے، کام کرنے کے لیے چیتے کی سی پُھرتی درکار ہوتی ہے۔ وزارتِ اعلیٰ کے دور میں ہم نے اُنہیں چیتے کی سی پُھرتی سے کام کرتا ہوا پایا ہے۔ دوسروں کی طرح ہم بھی اُنہیں کام کے معاملے میں چیتا سمجھ کر خوش تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ شہباز شریف میں ایک اور مخلوق بھی چُھپی ہوئی ہے۔ بھلا ہو تہمینہ دولتانہ کا جنہوں نے لَب کُشائی کے ذریعے عُقدہ کُشائی فرمائی۔ تہمینہ دولتانہ کا کمال یہ ہے کہ جو کچھ بھی بولتی ہیں وہ ماننا پڑتا ہے، بالخصوص جب وہ سامنے ہوں! لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے تہمینہ صاحبہ نے انکشاف فرمایا ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کرنے والا ایک جن مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے اور اِس جن کو دُنیا شہباز شریف کے نام سے جانتی ہے۔ تہمینہ دولتانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے جن کو بوتل میں واپس بند کرکے دَم لیں گے۔ تہمینہ دولتانہ کے انکشاف کے بارے میں سُوئے ظن رکھنے کی ہم میں تاب نہیں۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ شہباز شریف کے بارے میں تہمینہ دولتانہ کا تخمینہ غلط ہوسکتا ہے۔ ویسے مسلم لیگ (ن) میں جنّات صفت شخصیات کی کمی نہیں۔ ٹاک شو میں ہم نے خود دیکھا (اور سُنا) ہے کہ کئی رہنما مخالفین کو نیچا دِکھانے کی کوشش میں خاصا جنّاتی انداز اختیار کرتے ہیں! سندھ میں مسلم لیگ (ن) نے سلیم ضیاء کو ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں جن کا قد کاٹھ دیکھ کر جنّات بھی لمحہ بھر کو ششدر رہ جاتے ہوں گے! کاش سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا حجم بھی سلیم ضیاء کے جُثّے جیسا ہوتا! اور خود تہمینہ دولتانہ کیا کِسی سے کم ہیں؟ کِس کی مجال ہے کہ وہ بول رہی ہوں تو کچھ بولے۔ وہ جب میڈیا سے ہم کلام ہوتی ہیں تو عالم یہ ہوتا ہے کہ ع وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی! ہم نے اُنہیں ٹاک شوز میں بھی سُنا ہے۔ بولتے وقت اُن کی ہیبت ایسی ہوتی ہے کہ سُننے والے تردید کی ہِمّت اپنے اندر خال خال ہی پاتے ہیں۔ جب اُنہوں نے شہباز شریف کو جن قرار دیا تب بھی میڈیا کا کوئی نمائندہ نکتۂ اعتراض پر کچھ کہنے کی جسارت نہ کر پایا! اِس سے میڈیا والوں کی بے ہِمّتی بھلے ہی ثابت ہوتی ہو، بے عقلی کا نہ ہونا بھی تو ثابت ہوتا ہے! تہمینہ دولتانہ نے وفاداری کی پوائنٹ سکورنگ میں شہباز شریف کو جو ٹاسک دے دیا ہے اُس کی نوعیت پر بھی کچھ غور کرلینا چاہیے تھا۔ لوڈ شیڈنگ کے جن کو جب بوتل سے نکالا گیا تھا تب وہ بچہ تھا۔ اور پھر یاروں نے بوتل توڑ دی تھی۔ جن کا بچہ خوب کھا پی کر اب فُل فلیجڈ جن میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اگر بوتل ہوتی بھی تو تنومند جن اُس میں کہاں سماتا؟ اگر تہمینہ دولتانہ کو سَچّی ثابت کرنے کے لیے شہباز شریف کِسی طرح لوڈ شیڈنگ کے جن کو جکڑ بھی لیں تو کب تک جکڑے رہیں گے؟ اُسے بند کرنے کے لیے بوتل کا اہتمام لازم ہے۔ ویسے اب یہ جن کِسی بوتل میں کہاں سمائے گا؟ اِس کے لیے تو ایسا container چاہیے جو اِسے contain کرنے کے لیے مطلوب طاقت رکھتا ہو! آپ سوچیں گے اب کوئی ایک جن کہاں ہے؟ یہاں تو جنّات کی قطار ہے جو طویل ہوتی جارہی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک جن بے لگام ہے اور ہم پر مُسلّط ہے۔ دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، اسٹریٹ کرائمز، بم دھماکے، فرقہ وارانہ حملے، ٹارگٹ کلنگ، اسٹیک ہولڈرز میں تصادم اور سب سے بڑھ کر ڈرون حملے۔ یہ آخری جن تو خرابیوں کا شاہِ جنّات ہے! اِتنے بہت سے جنّات کے لیے ہم بوتلیں اور کنٹینرز کہاں سے لائیں گے؟ مسلم لیگ (ن) نے پہلے مرحلے میں شیر بن کر لوڈ شیڈنگ کے شکار پر نکلنے کا اعلان کردیا ہے۔ اِس معاملے میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے لیے مخالفین کو بھی دُعاگو رہنا چاہیے کیونکہ توانائی کا بحران حل ہونے سے پورے ملک کا بھلا ہوگا۔ لوڈ شیڈنگ کا معاملہ بھی سب کے لیے الگ نوعیت کی شِدّت رکھتا ہے۔ سابق حکومت کے لیے یہ معاملہ کچھ یوں تھا کہ ع بوجھ وہ سَر سے گِرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے اور چند روز بعد قائم ہونے والی حکومت کے لیے بات کچھ یوں ہے ع کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے! مسلم لیگ (ن) کا ایک اور مشکل ٹاسک قوم کو اُس کیفیت کیلئے تیار کرنا بھی ہے جس میں مسائل حل شدہ حالت میں پائے جاتے ہوں۔ ہم نے جو آواچھ عشروں کی عرق ریزی سے بگاڑا ہے وہ راتوں رات دُرست کیسے ہوسکتا ہے؟ اِنسان اپنے ماحول کا عادی ہوتے ہوتے اُس کی پیداوار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مسائل خواہ پیچیدہ ہوں، جب اُن کی عادت سی پڑ جاتی ہے تو پیچیدگی باقی نہیں رہتی۔ غالبؔ کی زبان میں کہیے تو ہم بھی ایسی حالت میں ہیں کہ ع مُشکِلیں مُجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں! بُہتوں کو اب یاد نہیں رہا کہ جب ٹی وی چینلز کی بھرمار نہیں تھی اور پرائم ٹائم ٹاک شو نہیں تھے تب شام سات سے رات گیارہ بجے تک وقت کیسے گزرتا تھا یا گزارا جاتا تھا۔ بالکل یہی معاملہ لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کا ہے۔ اگر کِسی دِن بجلی مقررہ وقت پر غائب نہ ہو تو ذہن میں وسوسے اُبھرنے لگتے ہیں، دِل بیٹھنے لگتا ہے۔ شیڈول کے مطابق بجلی کا نہ جانا طوفان سے پہلے کی خاموشی جیسا دِکھائی دیتا ہے! مسائل حل ہوتے دِکھائی دیں تو وحشت بڑھنے لگتی ہے۔ مسائل کا پنپنا سازش اور اُن کا حل کی طرف بڑھنا بڑی سازش جیسا نظر آتا ہے! ہم یقین کرنے کو تیار ہیں کہ شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے جن کو گردن سے پکڑ کر بوتل یا کنٹینر میں بند کرسکتے ہیں۔ اِس صورت میں ایک مسئلہ تو حل ہو جائے گا مگر اصل مسئلہ تو اِس کے بعد کا ہے۔ قوم کو نفسیاتی طور پر تیار بھی کیجیے کہ وہ لوڈ شیڈنگ کے بغیر شب و روز کِس طور بسر کرے گی۔ صورتِ حال کو بدلنے سے پہلے نئی صورتِ حال میں معاملات کنٹرول کرنے پر بھی غور کرلینے میں کچھ ہرج نہیں۔ ہماری نظر میں تو پاکستانی دُنیا کی طاقتور ترین قوم ہیں۔ آپ نے کبھی اِس بات پر غور کیا ہے کہ اِس قوم کو کنٹرول کرنے کے لیے کیسے کیسے مسائل پیدا کئے جاتے اور پروان چڑھائے جاتے ہیں؟ مسائل کی فراوانی کا عالم یہ ہے کہ لوگ اب ایک ہی معاملے میں کم شِدّت والے مسائل کو حل سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں! یہ تمام مسائل حل کرلیے جائیں تو قوم کا حال کیا ہوگا؟ جب مسائل کا طوق گردن سے اُتار پھینکا جاچکا ہوگا تب قوم کو قابو میں رکھنے والی بوتل یا کنٹینر ہم کہاں سے لائیں گے؟ تہمینہ دولتانہ ہی کچھ راہ نُمائی فرمائیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved