تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     24-05-2020

کورونا کی آڑ میں بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا

کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو صحت کے حوالے سے تو غیر محفوظ کیا ہی ہے، اس وبا کے کئی ایسے اثرات ہیں جن کا ابھی کوئی ذکر نہیں کر رہا، دنیا ایک عجیب طرح کے عدم استحکام، غیر یقینی کیفیت اور دباؤ کا شکار ہے۔ اس وبا نے ملکوں کے سماجی ڈھانچے کو بھی شدید متاثر کیا ہے، کئی ریاستوں کو بقا کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور وہ بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ قوم پرستوں کی حکومتوں میں ہے جو اس وبا سے لڑنے میں ناکام رہے اور اب اقلیتوں کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان حکومتوں نے اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں انسان اس وبا کے دوران امتیازی سلوک اور رویوں کا شکار ہیں۔ کئی ملکوں میں مسلمان اقلیت ناصرف محروم طبقات سے تعلق رکھتی ہے بلکہ اس وبا نے ان کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور کئی ملکوں میں اسلاموفوبیا ناصرف بڑھ رہا ہے بلکہ اب یہ سب کچھ منظم طریقے سے ریاستی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ 
بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو مسلمانوں کو نشانے پر رکھ لیا گیا اور انہیں وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں میڈیا کے ساتھ حکمران بی جے پی آگے آگے رہی۔ مارچ کے آخر میں نئی دہلی میں ہونے والے تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد بی جے پی نے اسے وائرس ٹیررزم کا نام دیا اور وبا کے دوران مسجد جانے والے مسلمانوں کے ساتھ دہشتگردوں جیسا سلوک کرنے کے مطالبات سرعام کئے گئے۔ بھارتی میڈیا نے اسے کورونا جہاد کا نام دیا جس کے بعد مسلمان امدادی کارکن جو کمیونٹی کی مدد کا کام کر رہے تھے، شہریوں کے حملوں کی زد میں بھی آئے۔ مسلمان خوانچہ فروشوں کے بائیکاٹ کی اپیل حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ نے کی تو شہریوں نے خوانچہ فروشوں سے نام اور شناخت طلب کرنے کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ حکمران جماعت نے جب منظم طریقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو حکومتی سرپرستی میں چلنے والا میڈیا ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا۔ بھارتی حکومت نے کورونا وائرس کی وبا کو اسلاموفوبیا بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ بھارتی حکومت نے اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ لاکھوں بے گھر افراد سڑکوں پر پیدل سینکڑوں میل دور اپنے دیہات کی طرف نکلے، بھوک پیاس اور بیماری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا‘ لیکن میڈیا ان پر توجہ دینے کے بجائے کورونا جہاد کا راگ الاپتا رہا، اس طرح بھارتی حکومت میڈیا کو استعمال کرکے اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی نظر آئی۔ اس کا نتیجہ ہندو اکثریتی ملک میں پہلے سے ظلم اور امتیاز کا شکار مسلمانوں کے خلاف نفرت گہری ہونے کی صورت میں نکلا۔ 
بھارت کے متعلق تو ہمارا میڈیا بھی رپورٹ کرتا رہا اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو عرب ملکوں نے بھی پہلی بار نوٹس کیا اور بھارتیوں کو اس ظلم کے نتیجے میں اپنی ناراضی کا احساس بھی دلایا۔ سری لنکا میں بھی مسلمانوں کے ساتھ بھارت جیسا ہی سلوک ہو رہا ہے لیکن وہاں سے اس کی رپورٹس زیادہ باہر نہیں آئیں۔
سری لنکا کثیر نسلی اور کثیر مذہبی ملک ہے لیکن اسلاموفوبیا وہاں عرصے سے موجود ہے جسے اس وبا کے دوران مزید ہوا دی گئی۔ سری لنکا کے مسلمان قوم پرستوں کے حملوں کا شکار رہے لیکن وہاں کی حکومت نے کبھی مسلمانوں پر حملوں کا نوٹس نہیں لیا اور حملہ آور دندناتے پھرتے رہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو سری لنکن میڈیا کے ایک حصے نے اس کا الزام بھی مسلمانوں پر دھر دیا اور قوم پرستوں نے اس کو اچک لیا۔ سری لنکا میں بھی مسلمانوں کے مذہبی اجتماعات کو وائرس پھیلنے کا سبب قرار دیا گیا۔ بودھ مت اکثریت سے تعلق رکھنے والے عوام میں یہ تاثر پختہ کیا گیا کہ وہ مسلمانوں سے خریداری ترک کر دیں ورنہ وہ بھی وائرس کا شکار ہو جائیں گے۔ 
کورونا وائرس کی آڑ میں ایک اور امتیازی سلوک کیا گیا جس نے مسلمانوں کو بے چین کر رکھا ہے، اپریل میں حکومت نے لازمی قرار دیا کہ جو بھی کورونا وائرس سے ہلاک ہو گا اس کی لاش کو جلایا جائے گا، یہ قانون یا پابندی مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے کی لگائی گئی۔ مسلمانوں کے بنیادی مذہبی حق کو چھین لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی پھیلایا گیا کہ مسلمانوں کی مذہبی روایات ہی وائرس پھیلانے کی وجہ بن رہی ہیں ۔ اسلام میں انسانی جان کو مقدس سمجھا جاتا ہے ایک قتل کو انسانیت کا قتل کہا گیا، لاش کی تکریم بھی اسی تقدیس کا حصہ ہے، مسلمان اپنے فوت ہو جانے والے عزیز رشتہ دار کے غسل، کفن، نماز جنازہ اور تدفین کے ذمہ دار ہوتے ہیں بلکہ کوئی انجان مسلمان بھی کہیں مردہ پایا جائے تو اس کی لاش کی تکریم کی جاتی ہے اور اسے اسلامی طریقے سے تدفین کے لیے رضاکارانہ لوگ آگے آتے ہیں۔
دنیا بھر میں وبا پھیلنے کے بعد جب اس کے تدارک کے طریقے بنائے گئے تو تدفین کے لیے احتیاطی تدابیر اپنائی گئیں۔ دنیا بھر میں مسلمان انسانیت کی بقا کے لیے ان تدابیر کو اپنائے ہوئے ہیں۔ غسل اور کفن کو احتیاطی تدابیر کے تحت وقتی طور پر متروک کر دیا ہے لیکن نماز جنازہ اور تدفین پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔ سائنسی طور پر کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ کورونا کے مریض کی میت کو دفن کرنے سے وائرس پھیل سکتا ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں بھی ایسی پابندی کی مثال بھی نہیں ملتی۔ 
سری لنکن حکومت کی طرف سے کورونا وائرس سے مر جانے والے ہر شہری کی لاش کو جلانے کی ہدایت وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے نہیں بلکہ اسلاموفوبیا کو منظم بنانے کا ایک حصہ ہے۔ سری لنکا بھی اس وبا کی آڑ میں بھارت کی مسلم کش پالیسی کو اپنا رہا ہے۔ 
بھارت اور سری لنکا اسلاموفوبیا اور مسلم دشمن پالیسیوں میں اکیلے نہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دس لاکھ یغور مسلمانوں کو کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔، اقوام متحدہ ان کیمپوں کو حراستی کیمپ قرار دیتا ہے جبکہ چین انہیں ری ایجوکیشن کیمپ کہتا ہے۔ اگر کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لوگوں کو مجمع سے بچنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو ان کیمپوں میں لاکھوں مسلمان کیسے بچ پائیں گے۔ 
برما کے روہنگیا نسل مسلمان فوج کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار رہے ہیں۔ برما کی حکومت کو اقوام متحدہ میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔ روہنگیا مسلمان اس وبا کے دوران بنگلہ دیش، بھارت میں کیمپوں میں پڑے ہیں کیا ان کیمپوں میں انہیں وائرس سے بچانے پر دنیا کی توجہ نہیں؟ تو اس کا جواب بھی ہاں میں ہے۔ ان کیمپوں میں اگر وائرس پھیلا تو ان مسلمانوں کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی لیکن دنیا بھر میں وائرس روکنے کے ذمہ دار اس پر توجہ نہیں دے رہے تو اس کی وجہ بھی اسلاموفوبیا ہے۔
اس تمام صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کورونا وائرس کو مسلم اقلیتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ریاستیں مسلم اقلیتوں پر نا صرف ظلم روا رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس وبا کی آڑ میں یہ ظلم بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر میں نسل پرست حکمران اس وبا کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اقوام عالم کو اس کا نوٹس لے کر ان حکمرانوں اور ریاستوں کا احتساب کرنا چاہئے تاکہ کورونا وائرس فسطائیت بڑھانے کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved