حکومت اخبار فروشوں کو جلد کیش کی خوشخبری دے گی: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''حکومت اخبار فروشوں کو جلد کیش کی خوشخبری دے گی‘‘ لیکن واضح رہے کہ کیش کی ادائیگی اور خوشخبری میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ دونوں سراسر مختلف چیزیں ہیں اس لیے زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ‘ کیونکہ خوشخبری ہم خود دیتے ہیں اور ادائیگی حالات و واقعات پر منحصر ہوتی ہے اور حالات و واقعات حکومت چھوڑ، کسی کے بھی اختیار میں نہیں ہوتے، اور حکومت کے اختیار میں تو بالکل ہی نہیں ہوتے کیونکہ حکومت کے اختیار میں خود اس کا اپنا آپ بھی نہیں ہے ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
رمضان کے بعد کورونا عالمِ اسلام میں نہیں رہے گا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''رمضان کے بعد کورونا عالمِ اسلام میں نہیں رہے گا‘‘ بلکہ صرف خاکسار اور اس کی تقریریں رہ جائیں گی اس لیے کورونا کی غیر حاضری پر اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کورونا سے بھی زیادہ فکر مندی کی بات ہے اس لیے التماس ہے کہ اپنے اپنے قرنطینہ سے باہر آنے کی کوشش نہ کریں ورنہ ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ہمارا کام صرف خبردار کرنا تھا جو کر دیا ہے جبکہ جملہ تقاریر بھی ہم اپنے قرنطینہ ہی سے کیا کریں گے کیونکہ ہمیں عوام سے زیادہ اپنی سلامتی زیادہ مطلوب ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
مزدوروں کو پائوں پر کھڑا کریں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''زیادہ روزگار والے ترقیاتی منصوبے لا کر مزدوروں کو پائوں پر کھڑا کریں گے‘‘ جو کافی عرصے سے سر کے بل کھڑے ہیں اور ہمارا کام انہیں پائوں پر کھڑا کرنا ہے تا کہ وہ اپنے مسائل حل کر سکیں جبکہ خود حکومت بھی کافی عرصہ سر کے بل کھڑی رہنے کے بعد اب پائوں پر کھڑی ہوئی ہے اور اب مسائل کی طرف اس نے توجہ دینا شروع کیا ہے اور یہ ویسے بھی ایک نہایت خوشگوار تجربہ ہے کیونکہ پہلے جو چیزیں الٹی نظر آتی تھیں اب سیدھی دکھائی دینے لگ گئی ہیں اور سر کو بھی کچھ سکون حاصل ہوا ہے کیونکہ ان کا سارا بوجھ سر پر ہی ہوا کرتا تھا ۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
اگر تم دل کی بات سن سکتے
اگر تم دل کی بات سن سکتے
تو تمہاری آنکھوں میں اُجالا
اور ماتھے پر چاند ہوتا
بالوں میں
در در کی خاک کی بجائے
سوالات کی گرہیں ہوتیں
اپنی مرضی کی راتوں سے گزرتے
اور مانوس صبحوں میں آنکھ کھولتے
خوابوں کو لباس کرتے اور کسی کو بے آرام کیے بغیر
بستیوں سے گزرتے
اپنے پائوں کے چکر کو
ٹھوکر میں تبدیل نہ ہونے دیتے
اوک سے پانی پیتے
اور کسی بھی در پر پڑے رہتے
موت کی سمفنی کو یاد رکھتے ہوئے
محبت کی گلیوں میں صدا لگاتے
اگر تم دل کی بات سن سکتے
تو لوگوں کی انگارہ آنکھوں سے گزر کر
اسے سینے سے لگا لیتے
اس کے زخموں کو
اپنے آنسوئوں سے مندمل کرتے
وہ۔۔۔۔۔ جس نے تمہارے نام کا ورد کرتے ہوئے
دنیا سے ملامت پائی
اور اپنوں سے پتھر کھائے
عمر بھر مڑ مڑ کر، اس جانب دیکھا
جہاں تم کبھی موجود نہ رہ سکے
اگر تم دل کی بات سن سکتے
تو شاید کچھ لافانی لفظ لکھ جاتے
کتابوں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر
آسمان کو ہاتھ لگاتے
دیواروں کی بجائے
زندگی سے جڑے ہوتے
تمہاری مٹی خراب نہ ہوتی
تمہارے جسم پر اپنے زخم ہوتے
اور کاندھوں پر اپنی صیلب
آج تمہارے دل میں
اس قدر ڈر نہ ہوتا
تم۔۔۔۔ بے ریا جیتے
اور بے نیازی سے مر سکتے!
آج کا مطلع
کسی لرزتے ہوئے ستارے پہ جا رہا تھا
میں کوئی خس تھا مگر شرارے پہ جا رہا تھا