حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر قوم کے ایامِ عید ہوتے ہیں‘ ہماری عید کے دو ایام ہیں:عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ عید الفطر ماہ رمضان کی تکمیل پر یکم شوال کو تشکراور امتنان کا ایک اظہار ہوتا ہے ۔ اس روز بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوتا ہے جہاں اسے اللہ کی طرف سے بہت بڑا انعام ملتا ہے۔ عیدالاضحی سنتِ ابراہیمی ہے جب آپ نے اللہ کے حکم پر اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے پیش کر دیا تھا۔ اسی واقعے کی یاد میں عیدالاضحی یعنی عید قربان منائی جاتی ہے۔ ان دو تہواروں کے علاوہ امتِ مسلمہ کے اندر جو دیگر مختلف تہوار ایجاد کر لیے گئے ہیں ان کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے نہیں ملتی۔ عیدالفطر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس موقع پر ہر مسلمان غربا و مساکین کو صدقۂ فطر ادا کرتا ہے۔ اس صدقے کی حکمت یہ ہے کہ روزوں کے دوران کسی چھوٹی موٹی کوتاہی کی تلافی کے کفارہ اور غربا کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا ''جو شخص فطرانہ ادا کیے بغیر نمازِ عید کے لیے آیا وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے‘‘۔
فطرانہ ماہ رمضان کے دوران بالخصوص آخری عشرے میں مستحقین کو ادا کر دیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے‘ تاکہ وہ اس کے نتیجے میں عید کے لیے اپنی ضروریات کا اہتمام کر سکیں۔ جن اہل ایمان پر فطرانہ واجب ہے انہیں گھر کے تمام افراد‘ چھوٹے بچوں بلکہ اس بچے کی طرف سے بھی جو عید کے روز پیدا ہوا فطرانہ ادا کرنا ہو گا۔ کوئی مہمان گھر میں آ جائے یا گھر کے اندر کوئی ملازم یا ملازمہ ہو تو ان کی طرف سے گھر کے مالک پر فطرانہ واجب ہے۔ عید کے روز غسل کر کے اور خوشبو لگا کر عیدگاہ کی طرف نکلنا اور تکبیرات پڑھتے ہوئے جانا مسنون ہے۔ آنحضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ عید کے لیے آنے اور واپس جانے کے لیے اگر مختلف راستے دستیاب ہوں تو آنے اور جانے کے لیے الگ الگ راستے منتخب کیے جائیں۔
عید کے روز اہلِ ایمان ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں۔ اس سال کورونا کی وبا نے حالات بہت دگرگوں کر دیے ہیں۔ ان حالات میں پوری احتیاط برتنی چاہیے۔ گلے ملنے سے اجتناب ضروری ہے البتہ مبارک باد دینے اور مسکراتے ہوئے حال احوال پوچھنے کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے۔ کورونا کی وجہ سے ایک دوسرے سے بے گانگی اور روگردانی کسی صورت مناسب نہیں ۔ہماری روایتی عید کی کیفیت کچھ یوں ہے کہ اقبال نے تو اسے ہجومِ مومنین قرار دیا تھا۔ آج یہ ہجومِ بے یقین بن گیا ہے۔ ؎
عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مومنین
عید کے دن صبح فجر کی نماز کے بعد عید کی نماز تک کوئی نوافل نہیں پڑھے جاتے۔ ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں عید کے روز ایک شخص نے عیدگاہ میں نماز سے پہلے نفلوں کی نیت کی تو امیر المومنینؓ نے فرمایا: بھائی اس وقت عید کی نماز کے علاوہ کسی نماز کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ اس نے کہا کہ میں نفل ادا کر رہا ہوں کوئی برا کام تو نہیں کر رہا۔ آپؓ نے فرمایا: ہم نے آنحضورﷺکے ساتھ عید کی نمازیں پڑھیں تو کبھی بھی کسی نے نفل ادا نہیں کیے۔ پھر ابوبکرؓ‘ عمرؓ اور عثمانؓ کے دور میں بھی عید کے روز وہی معمول رہا جو آنحضورﷺکے دور میں تھا۔ اب تُو اگر اصرار کرتا ہے تو تیری مرضی۔ اس نے کہا :اب میں سمجھ گیا ہوں‘ لہٰذا میں عید کی نماز سے قبل کبھی نفل ادا نہیں کروں گا۔
عید الفطر کی خوشیاں محض نئے کپڑے پہننے اور انواع و اقسام کے کھانے تناول کرنے سے عبارت نہیں۔ اصل خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روز اپنے بندوں کو انعامات سے نوازتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے۔
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر کرتا ہے اور انھیں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!اس مزدورکا صلہ کیا ہے جس نے اپنے ذمے کا کام پورا کردیا۔فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کا صلہ یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ اے میرے ملائکہ ! میرے ان بندوں نے وہ فرض ادا کردیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔پھر اب یہ گھروں سے(عید کی نماز ادا کرنے اور)مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیں۔ میری عزت اور میرے جلال ‘ میرے کرم اور میری علوِّشان‘اور میری کبریائی کی قسم ہے کہ میںان کی دعائیںضرور قبول کروںگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:جائو میں نے تمہیں معاف کردیا اور تمہاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا۔حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اس حالت میں عیدگاہ سے پلٹتے ہیں کہ انہیں معاف کر دیا جاتا ہے۔‘‘(سنن بیہقی )
سید مودودیؓ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں :
''اللہ تعالیٰ ہر سال اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہ احسان کرتا ہے‘ کیونکہ انہوں نے رمضان کے روزے رکھے اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو عبادت کرتے رہے۔ پھر عید کے روز نماز کے لیے نکلے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس کے ہاں سے مغفرت اور مہربانیاں حاصل کرکے گھروں کو واپس پلٹتے ہیں۔‘‘ (کتاب الصوم‘ص266)
ایک روایت کے مطابق نبی اکرمﷺ نے اپنے منبر پر تشریف فرما ہونے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : ''آمین‘‘۔ پھردوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا ''آمین‘‘۔ تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر ''آمین‘‘ کو دہرایا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپؐ نے کس بات پر آمین کہا۔ آپؐ نے جواب دیا ـ:جبریلؑ میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے کہا: اس شخص کی تباہی و بربادی ہو جائے۔ میں نے کہا: کس کی؟ تو اس نے کہا کہ جس کے سامنے آپؐ کا اسمِ مبارک لیا جائے اور وہ آپ ﷺپر درود نہ بھیجے۔ میں نے کہا :آمین۔ پھر جبریلؑ نے کہا کہ اس شخص کی تباہی و بربادی ہو جائے تو میں نے کہا کس کی؟ اس نے کہا: جس کی زندگی میں رمضان کا مبارک مہینہ آیا اور گزر گیا مگر اس نے اپنے گناہوں کی معافی اور مغفرت کا کوئی اہتمام نہ کیا‘ میں نے اس پر بھی آمین کہا۔ تیسری مرتبہ جبریلؑ نے کہا اس شخص کی تباہی و بربادی ہو جائے۔ میں نے پوچھا کس کی؟ تو اس نے جواب دیا: جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا‘ مگر ان کی خدمت کر کے جنت کا مستحق نہ بن سکا۔ میں نے اس پر بھی آمین کہا۔ (مسند احمد‘ صحیح مسلم‘ جامع ترمذی)
اللہ کے نبی ﷺکے ہر فرمان کی اطاعت بلا چوںچرا ہر بندۂ مومن کے لیے لازمی ہے۔اوپر بیان کردہ فرمانِ نبویؐ پر غور کر کے آپ خود اندازہ کرلیجیے کہ نبی اکرمﷺ اور جبرئیلؑ کی دعا کس قدر مؤثر ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ختمی مرتبت ﷺ کا اسم گرامی جب بھی کسی مجلس میں آئے تو ہم ''صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہنا ہر گز نہ بھولیں۔ اسی طرح رمضان کو پورے اسلامی آداب کے ساتھ گزارنا چاہیے‘ تاکہ ہماری مغفرت ہوجائے۔ والدین جنت کا پروانہ ہیں اور ان کی خدمت میں کوتاہی دنیا اور آخرت کا ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ اس خسارے سے بچنے کی سنجیدہ کوشش ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی زندگیوں میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
عید ہر سال آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ ایک دور وہ تھا کہ روزِ عید اہلِ ایمان کے لیے فخر اور خوشی کا باعث ہوتا تھا۔ دنیا میں وہ سربلند تھے کیوںکہ اللہ و رسول ﷺکے احکام کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا کرتے تھے۔ انہوں نے دنیا سے ظلم کا خاتمہ کر کے نظامِ عدل قائم کر دیا تھا۔ آج ہم پستی کا شکار ہیں۔ عید تو منا لیتے ہیں‘ مگر عید کی خوشیاں کہاں؟ کشمیر میں قیامت برپا ہے‘ غزہ و فلسطین خون میں نہا رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمان بے پناہ مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔ ان کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ میانمار میں ہر کلمہ گو پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان مظلومین کے لیے کہیں سے کوئی امیدکی کرن نظر نہیں آتی۔ ؎
پیامِ عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے!
ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے!
علامہ اقبال نے جس دور میں کہا تھا کہ ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے‘ اس کے مقابلے میں آج حالات کہیں زیادہ دردناک ہیں۔ حقیقی عید اس روز ہو گی جب دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو گا۔ اہلِ ایمان عزت و حریت سے زندگی گزار سکیں گے۔افسو س اس بات کا ہے کہ ایک بے حسی اور نفس پرستی ہر جانب ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین