ہمارے معاشرے میں ساس اور بہو کے باہمی تعلق میں اکثر اوقات کشیدگی ہی دیکھنے میں آتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب اخبار میں یا ریڈیو ٹی وی وغیرہ پر کسی بہو کا انٹرویو ہو تو آپ کو یہی سنائی دے گا کہ موصوفہ کے اپنی ساس کے ساتھ بہت ہی اچھے تعلقات ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ساس میڈیا میں اپنی بہو کے بارے میں اظہار خیال کرے تو وہ بھی یہی کہتی سنائی دے گی کہ میری بہو تو بالکل میری بیٹیوں کی طرح ہے ۔مجھے نہیں معلوم کہ ایسے طرز عمل کو منافقت قرار دینا چاہیے یا نہیں لیکن یہ ہرکوئی جانتا ہے کہ بہو ساس کی اور ساس بہو کی تعریف دل پر پتھر رکھ کر ہی کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے ریڈیو کی ملازمت کے دوران جب میں ڈرامہ سیکشن کا پروڈیوسر تھا تو مزاحیہ خاکوں کا ایک بڑا موضوع ساس بہو کا جھگڑا ہوتا تھا۔ ایسے موضوعات جن کے بارے میں معاشرے میں آگہی موجود ہو، مزاح پیدا کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ مصنف کو بس ایک اشارہ کرنا ہوتا ہے کہ یہ ساس ہے اور اپنی بہو کے بارے میں کہہ رہی ہے۔ اس کے بعد کے منظر میں مزاح کا رنگ بھرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ایک روز ڈرامہ سیکشن کے کمرے میں ساس بہو کے جھگڑے سے متعلق ایک مسودے پر ہم لوگ بات چیت کررہے تھے کہ ساتھ والے کمرے سے جوکہ مذہبی نشریات کا کمرہ تھا، ایک مولوی صاحب ہماری گفتگو سن کر ہمارے کمرے میں آکر بولے کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کو کچھ حیرت ہوئی کہ آخرمولوی صاحب مزاحیہ ڈرامے کے مسودے میں کیا رہنمائی کرسکیں گے ،لیکن وہ مولوی صاحب جو عمر میں بھی ہم سب سے بڑے تھے اور اپنے لہجے سے کچھ کہنے کے لیے کافی سنجیدہ دکھائی دیتے تھے۔ لہٰذا میں نے کہا۔ فرمائیے مولوی صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں! بولے :ہمیں ہمارے اسلام نے بتایا ہے کہ مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہوتا ہے اور عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہوتا ہے۔ ان حقوق کو اگر دل سے تسلیم کرلیا جائے تو ساس بہو کا جھگڑا ہوہی نہیں سکتا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لڑکی کسی گھر میں بیاہی جائے وہاں اس پر اس کے شوہر کا حق سب سے زیادہ اور اس کے شوہر پر لڑکی کی ساس کا حق سب سے زیادہ۔ اس طرح تو وہ لڑکی اپنی ساس کی غلام بن کر رہ جائے گی۔ بولے یہی تو بات ہے سمجھنے کی۔ جولڑکی ان حقوق کو دل سے تسلیم کرلیتی ہے وہ تھوڑے ہی عرصے میں اپنی ساس کو گرویدہ کرلیتی ہے اور ساس بہو کا جھگڑا ختم ہوجاتا ہے۔ ان مولوی صاحب کا اصرار تھا کہ انہوں نے کئی گھرانوں میں اس کا عملی ثبوت دیکھا ہے۔ اس کے بعد وہ مولوی صاحب تو تشریف لے گئے لیکن ہم ڈرامہ سیکشن میں اس روز زیربحث مسودے کو حتمی شکل نہ دے سکے اور جوکچھ وہ کہہ گئے تھے اس پر ہی بات کرتے رہے۔ جس دور کی میں بات کررہا ہوں اس زمانے میں ریڈیو سٹیشنوں پر ایسی بحثیں ہرطرف ہوتی رہتی تھیں جن میں سٹاف ممبران کے ساتھ ساتھ باہر سے آنے والے مہمان خواتین وحضرات بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔یہی مولوی صاحب کی گفتگو مجھے یاد ہے کہ اگلے روز ہی ریڈیو سٹیشن پر ایک اور کمرے میں ماں کے حقوق کی بحث میں تبدیلی ہوگئی۔ ایک صاحب کا استدلال تھا کہ یقینا ماں کا درجہ بہت بلند ہوتا ہے اور اولاد کے لیے ماں کی محبت کے بے لوث ہونے میں بھی کوئی شک نہیں اور یہ کہ ماں کی دعا میں اتنا خلوص ہوتا ہے کہ وہ پروردگار کے حضور کھڑی ہوکر اس وقت تک فریاد کرتی رہتی ہے جب تک قبول نہیں ہوجاتی۔ لیکن سب مائیں ایک جیسی تو نہیں ہوتیں۔ مائوں ہی میں ہمیں بعض اوقات ایسی عورتیں ملتی ہیں جو اپنی کسی ضد یا انا کی خاطر اولاد کے ارمانوں کا خون کردیتی ہیں۔ بعض اتنی لاپرواہ ہوتی ہیں کہ اولاد کو کبھی ان کی محبت کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔ کئی صورتوں میں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ماں اپنے شوہر کے پاس بچے چھوڑ کر کسی آشنا کے ساتھ فرار ہوجاتی ہے۔ ان صاحب کا سوال تھا کہ پھر یہ کہنا کہ ماں کے پائوں کے نیچے جنت ہوتی ہے تو کیا ہر ماں کے پائوں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔ لاہور ریڈیو سٹیشن پر اس دور میں معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی تشریف لایا کرتے تھے ۔یہ تمام بحث جب ان کے گوش گزار کی گئی تو فرمانے لگے جس حدیث مبارک میں ماں کے پائوں کے نیچے جنت کی بات کی گئی ہے اس حدیث میں مائوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے قرب کو اتنا آسودہ رکھیں کہ بچوں کو وہ جنت محسوس ہو۔ یعنی ایک جملہ بولا اور ساری بحث سمیٹ کے رکھ دی۔ کیسے کیسے کمال کے لوگ ہمارے ہاں گزرے ہیں۔ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے اور دین کی بے مثال سمجھ رکھتے تھے۔ قرآن کی رو سے انقلاب کس طرح لایا جاسکتا ہے ان کا خاص پسندیدہ موضوع تھا۔ اکثر فرماتے تھے کہ کلمہ حق کہنے کی پہچان یہ ہے کہ جب بھی کلمہ حق ادا کیا جائے گا اس دور کا ابوجہل اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا۔ اگر آپ نے اپنی دانست میں کلمہ حق ادا کیا اور اس دور کا ابوجہل آپ سے نبرد آزما نہ ہوا تو سمجھ لیں کہ آپ نے کلمہ حق ادا نہیں کیا ۔ کیونکہ آپ جب حق کی آواز بلند کریں گے تو اس کی مزاحمت ہوگی اور پھر اس مزاحمت کی مزاحمت میں اسلامی انقلاب کی امید پیدا ہوگی۔ یہ تو ہے انقلاب کا قرآنی نظریہ اور ہماری سیاست آج کل Win Win Situation کی تلاش میں رہتی ہے یعنی تم بھی خوش اور ہم بھی خوش ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved