تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     24-05-2020

عوامی شعور کی آزمائش

نیا مرحلہ‘ نئی حقیقت‘وائرس ابھی کہیں نہیں جارہا۔ لاک ڈائون کرکے یا خود کو محدود کرکے کچھ وقت گزارا جاسکتا ہے لیکن بہت دیرتک نہیں۔ ممالک وائرس کو زندگی کو ایک حقیقت سمجھ کر اس کے ساتھ نبردآزماہونے کی کوشش میں ہیں۔ وائر س کے بغیر زندگی ابھی کچھ عرصہ تک ممکن نہیں ہوگی ۔ اسی طرح یہ احساس بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ روزگار کے بغیربھی کا م نہیں چلے گا ۔ دنیا بھر میں دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافے کی شرح معقول حد تک کم ہوجائے تو لاک ڈائون نرم کیا جانے لگا۔ اس وقت چیلنج یہ ہے کہ کئی ہفتوں سے گھروں میں بند افراد کیا کام ‘ سفر اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں اپنا رویہ تبدیل کر پائیں گے یا نہیں؟ 
اس عالمی وبا کے پہلے مرحلے میں سیاسی عزم اور قیادت کی جانچ تھی ۔ ہم نے دیکھا کہ مختلف مالک مختلف حکمت ِعملی اپناکر لاک ڈائون نافذ کررہے ہیں۔ نقصان کو کم کرنے کے لیے لوگوں کو گھروں میں ٹھہرنے کی ہدایت کی جارہی ہے ۔کچھ ممالک جلدی لاک ڈائون کی طرف چلے گئے ‘ کچھ نے تاخیر کردی ۔ پیشگی اقدام یا تاخیر کی ذمہ داری سیاسی قیادت پر آئی۔ دو ماہ تک لاک ڈائون تو امیر اور خوشحال ممالک بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔کام کے بغیر کام نہیں چلتا؛ چنانچہ اب کم و بیش ہر ملک اپنی معیشت کھول رہا ہے ۔ اب ذمہ داری حکومت سے ہٹ کر عوام پر چلی گئی ہے ۔چاہے جتنے بھی سخت قوانین ہوں‘حکومت عوام کے رویے کو کنٹرول نہیں کرسکتی ۔ ہم نے ترقی یافتہ ممالک کے پڑھے لکھے افراد کو بھی حفاظتی طریق کار کی خلاف ورزی کرتے دیکھا ہے ۔ وبا کے پھیلائو کو روکتے ہوئے معیشت کو کھولنے کے اس اہم مرحلے پر عوام سے بات کرنے اوراُن کا تعاون حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ تحفظ کے معیار پر کاربند رہنے کے لیے عوام کے تعاون کے تین پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ انسانی فطرت کسی جگہ پر محدود کیے جانے اور خوفناک نتائج سے خبردار کرنے کے خلاف بغاوت ضرورکرتی ہے ۔ گزشتہ چند ہفتوںکے دوران کورونا نے لوگوں کے ذہنوں میں ایسے خوف وخدشات پیدا کردیے ہیں کہ وہ معیشت کھلتے ہی بہت زیادہ رد ِعمل کا مظاہرہ کریں گے ۔ کچھ تو خوف کا شکار رہیں گے جبکہ دوسرے اس طرح گھومیں پھریں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ کسی اور ممکنہ لاک ڈائون سے پہلے وہ گلیوں اور دکانوں کی طرف لپکیں گے تاکہ وہ بہت کچھ خرید لیں؛چنانچہ لاک ڈائون میں نرمی کرنے کے متوقع نقصانات ضرور ہیں۔ اس کے لیے عوام کا رویہ تبدیل کرنے کیلئے کو ئی حکمت ِعملی اختیار کرنا ہوگی تاکہ اُن کی عادات تبدیل کی جاسکیں۔ 
1: زیادہ معلومات: پہلا مرحلہ آگاہی ہے ۔ اس وائرس کی اہم بات یہ ہے کہ اس کا پھیلائوبیک وقت پوری دنیا میں ہے ۔ ہر ملک میں حفاظتی اقدامات پر کم و بیش یکساں حکمت ِعملی اپنائی جارہی ہے ۔ پہلا مرحلہ عالمی سطح پر ابلاغ کرنا تھا۔ یہ مؤثر طریقے سے ہوچکا۔ دوسرا مرحلہ لاک ڈائون کو نرم کرنا اور عوام کو نقل وحرکت کی اجازت دینا ہے ۔ یہ درحقیقت ایک چیلنج ہے ۔ سماجی فاصلہ رکھنا اورگلوز اور ماسک پہننے کے پیغام کو ایشیا کے بہت سے ممالک میں سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ۔ مغربی معاشرے زیادہ تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن وہاں اتنا نظم موجود نہیں۔ وہ پارکوں اور ساحلوں پر جاتے ہوئے ہدایات پر عمل نہیں کرتے ۔ پاکستان جیسے مشرقی معاشرے کم تعلیم یافتہ ہیں۔ یہاںدکانیں اور مارکیٹیں تنگ ہیں۔ سماجی فاصلے ابھی تک قابل ِقبول مشق نہیں ؛ چنانچہ بہت سنجیدہ طریقے سے ابلاغ کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو بڑھتے ہوئے خطرے سے خبردار کیا جاسکے ۔ موبائل فون پر رنگ ٹونز کے ذریعے ہاتھ دھونے ‘ ماسک اور گلوز پہننے اور باہر جاتے ہوئے چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت کی ترغیب دی جائے ۔ 2: متاثرہ افراد کا کھوج لگانا اور قانون کی عملداری: رویے کی تبدیلی کا دارومدار ہمیشہ قواعد وضوابط کے نفاذ پر ہوتا ہے ۔نفاذ مؤثر ہوگا تو مثبت تبدیلی آئے گی۔ غیر مؤثر نفاذ منفی رویے ابھارے گا۔ سماجی معمول میں تبدیلی کے لیے تادیب اور انعام ضروری ہیں ۔ چین نے سخت قوانین اور جنوبی کوریا نے لازمی ٹیسٹنگ کے ذریعے لوگوں کو دوسرے مرحلے کی احتیاطی تدبیر پر کاربند کردیا۔ ممالک کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو ان ایس اوپیز پر کاربند رکھنے کے لیے کس معیار کی جانچ اور نگرانی چاہیے۔ یہ ممالک پر منحصر ہے کہ کیا وہ عوامی مقامات پر سماجی فاصلے کی نگرانی کرنے کے لیے ربورٹ استعمال کرتے ہیں یا پولیس ۔ پاکستان میں عوام عید کی خریدار ی کے لیے دیوانہ وار نکل کھڑے ہوئے ہیں‘ یہاں دو باتوں کا التزام کرنا ہوگا‘ پہلے یہ کہ ہدایات پر عمل نہ کرنے والی دکانوں کو سزا کے طور پر بند کردیا جائے ۔ دوسرا یہ کہ عوام کی عادات کوتبدیل کرنے کے لیے اُنہیں احساس ہوکہ حکام اُن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ 3: تبدیل شدہ رویوں کے رول ماڈل سامنا لانا: دوسرے مرحلے پر لاک ڈائون نرم کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ٹی وی اور معاشرے میں سماجی تبدیلی کی ترغیب دینے کے لیے رول ماڈل سامنے لائے جائیں ۔ جس طرح ہاتھ دھونے کی ترغیب دینے کے لیے مہم چلائی گئی ‘ اسی طرح عوامی مقامات پر سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے مختلف ذرائع سے پیغامات پہنچائے جائیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ طبقات کے لیے شہرت یافتہ افراد‘ جیسا کہ اداکار‘ کرکٹر ‘ سول سوسائٹی کے نمایاں افراد کی خدمات حاصل کی جائیں ۔وہ عوام کو دکانوں اور دیگر مقامات پر جاتے ہوئے ماسک ‘گلوز اور سینی ٹائزرز کے استعمال اور چھ فٹ فاصلہ برقرار رکھنے کی ترغیب دیں۔ 
اس سطح کی عالمی وبا کو نہ محض حکومتی کارروائی کنٹرول کرسکتی ہے اور نہ ہی عوامی ردِعمل۔ رویہ تبدیل کرنے کیلئے جبر کا اثر وقتی ہوگا۔ کورونا وائرس جیسی صورتحال میں کہیں زیادہ مستقل رویے کی تبدیلی درکا ر ہے ۔ اس کیلئے مسلسل عوامی آگاہی اور ابلاغ کی مہم چلائی جانی چاہیے ۔ بعض طبقات میںتبدیلی کی ترغیب دینے والے ماڈلز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نسبت زیادہ مؤثر رہتے ہیں۔ معاشرے پر اثر انداز ہونے والے افراد ‘ مقامی انداز اور زبان کا استعمال بھی فرق ڈالتا ہے ۔ وائرس کے ساتھ کامیابی اور محفوظ طریقے سے رہنے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وباکا علاج یا ویکسین دریافت ہونے تک کیا لوگ ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے خود کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور کیا وہ ایسا کرپائیں گے یا نہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved