تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     27-05-2020

چینی انکوائری رپورٹ کی سیاست

پاکستان کی وفاقی حکومت نے اکیس مئی دو ہزار بیس کو شوگر رپورٹ شائع کرنے کا جو فیصلہ کیا‘ اسے جرأت مندانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں ان طاقتور اشخاص اور گروہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو ہمیشہ اقتدار کی غلام گردشوں میں دکھائی دیتے ہیں‘ قطع نظر اس بات کے کہ ملک پر حکومت کون کر رہا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی، پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی میں ان لوگوں کی چھاپ بڑی نمایاں ہے۔ ماضی میں بھی سیاسی طور پر فعال حلقے اکثر اس بارے میں بات کرتے رہے ہیں کہ یہ لوگ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو اپنے کارباری مفادات آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب پہلی بار ایک ایسی رپورٹ دستیاب ہے جس میں عوامی پیسے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو توڑ مروڑ کر ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کہانی تفصیلاً موجود ہے۔
حکومت کے لیے چینی رپورٹ دو دھاری تلوار ہے۔ ایک جانب رپورٹ کی اشاعت اس بات کا اظہار ہے کہ عمران خان حقائق نہیں چھپاتے چاہے ان کے قریب ترین رفقا پر ان حقائق کے منفی اثرات ہی مرتب کیوں نہ ہوتے ہوں۔ اس رپورٹ نے وفاقی حکومت کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ چینی کی صنعت پر کچھ ڈسپلن نافذ کرکے اسے مؤثر حکومتی کنٹرول کے تحت لے آئے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اس رپورٹ کی مؤثر طریقے سے پیروی کی جائے۔ اس میں کچھ ایسی معلومات ہیں جن کا شفاف طریقے سے ایماندارانہ اور غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ ان معاملات کے بارے میں مل مالکان کی اپنی رائے ہے اور انہیں یقینا اس حوالے سے منصفانہ شنوائی کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر سکیں۔
دوسری جانب اس رپورٹ نے عمران خان صاحب کی حکومت کے سیاسی مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے کیونکہ یہ حکومت قومی اسمبلی میں بڑی ہی قلیل عددی اکثریت رکھتی ہے۔ چینی کے کاروبار سے وابستہ اشخاص پاکستان کے حکمران حلقوں میں بڑے تگڑے اثرورسوخ کے مالک ہیں اور وہ مل کر حکومت کو گرانے کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں، خصوصاً پی ایم ایل این اور پی پی پی، موقع سے فائدہ اٹھا کر حکومت کے خلاف کام کرنے پر راضی ہو سکتی ہیں۔ چینی مافیا اور دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اگر کسی مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہو گئیں تو یقینا حکومت کے لیے بڑی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں‘ جو ان دونوں جماعتوں پر مسلسل احتساب کا شکنجہ کس رہی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ملک میں اٹھاسی شوگر ملیں ہیں۔ ان میں سے اکثر اُن لوگوں کی ہیں‘ جو اہم سیاسی عہدوں پر فائز ہیں یا اس وقت ان عہدوں پر موجود ہیں یا یہ ایسے لوگوں کے رشتہ دار ہیں جو اہم ترین حکومتی مناصب پر فائز ہیں۔ یہ سب چیزیں انہیں پاکستانی سیاست میں اہم مقام دلاتی ہیں۔ اپنے اس سیاسی اثرورسوخ کی مدد سے یہ لوگ معاشی قوت حاصل کرتے ہیں اور پھر اس معاشی قوت کے بل پر مزید سیاسی طاقت حاصل کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار و معاشی فائدے کا یہ بد طینت پہیہ یونہی گھومتا رہتا ہے۔ شوگر کمیشن رپورٹ نے بڑی تفصیل سے اُن حربوں پر روشنی ڈالی ہے جو شوگر انڈسٹری اپنے مفادات کے تحفظ اور منافع میں اضافے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ ان میں وہ حربے بھی شامل ہیں جو قیمتوں کے تعین اور ان میں اضافے کیلئے برتے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں چینی انڈسٹری سے وابستہ متنازعہ ترین معاملے یعنی سبسڈی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ چینی ایکسپورٹ کرنے اور اس ایکسپورٹ پر سبسڈی حاصل کرنے کا معاملہ ہے۔ ماضی کی پی ایم ایل این اور پی پی پی اور حال کی پی ٹی آئی حکومت کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ان سبھی حکومتوں نے چینی انڈسٹری کو مالی سبسڈی مہیا کی۔ شوگر مل مالکان کی جانب سے حکومت کو یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان میں چینی کی اضافی مقدار موجود ہے اس لیے اس کی ایکسپورٹ کی اجازت دی جانی چاہیے۔ بعد میں جو معاملات سامنے آئے ان سے یہ بات کھل گئی کہ اضافی چینی موجود ہونے کے بارے میں معلومات درست نہ تھیں۔ ایکسپورٹ کی وجہ سے ملک میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ چینی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں نے نہ صرف چینی کی ایکسپورٹ کی مد میں فائدہ اٹھایا بلکہ مقامی منڈی میں قیمتوں میں اضافے سے بھی مستفید ہوئے۔ ابھی تک چینی کی قیمتیں فی کلو پچاسی سے نوے روپے تک ہیں اور کم ہونے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شوگر ملیں دوہرے بہی کھاتے رکھتی ہیں؛ ایک اپنے ریکارڈ کیلئے، جس میں حقیقی اعدادوشمار ہوتے ہیں جبکہ دوسرے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کیلئے جن میں تمام ٹرانزیکشنز کا اندراج شامل نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کیسے گنے کے کاشتکاروں کو کماد کی فصل کیلئے کم قیمت دی جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں شوگر ملوں اور ان کے مالکان کے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں انہیں ان مل مالکان کے خلاف یا پی ٹی آئی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کیلئے تو استعمال کیا جا سکتا ہے کہ جس کا انحصار شوگر مل مالکان پر ہے یا ان کے شراکت داروں پر؛ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ چینی کے کاروبار سے وابستہ ان اشخاص کو اس وقت تک مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک کسی عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے۔
وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ ان الزامات کے متعلق تفتیش کیلئے کسی ایک ہی ادارے کو ذمہ داری سونپنے کی بجائے مختلف اداروں کو ذمہ داری سونپے کہ ان معاملات پر مزید اقدامات کریں۔ اس رپورٹ کے حوالے سے چار مختلف قسم کی انکوائریاں ہونی چاہئیں۔ پہلی انکوائری مختلف حکومتوں کی جانب سے شوگر انڈسٹری کو دی جانے والی مالی سبسڈی کے حوالے سے ہونی چاہیے۔ کیوں‘کیسے یہ سبسڈیاں منظور کی گئیں اور ان کا مقصد کیا تھا؟ ایسی مالی سبسڈیوں سے فائدہ کس نے اٹھایا؟ شوگر مل مالکان یہ سبسڈیاں حاصل کرنے کیلئے کس طرح حکومتوں پر اثر انداز ہوئے؟ یہ سبسڈی دے کر حکومت نے کس طرح کے سیاسی فوائد حاصل کیے؟
دوسری انکوائری دوہرے بہی کھاتوں کے متعلق ہونی چاہیے اور اس کی ذمہ داری فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو سونپی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام شوگر ملیں اور ان کے مالکان ٹیکس دہندہ ہیں اس لیے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کو ہی یہ معاملہ دیکھنا چاہیے۔
تیسری بات یہ کہ صرف چینی کی صنعت کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ چینی کی قیمت کا تعین کرے۔ حکومتی عہدیداران اور محکموں کو بھی اس عمل میں شامل ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے جائزہ لیا جانا چاہیے کہ شوگر مل مالکان کی تجویز کردہ قیمتوں کو کیسے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے کردار کا جائزہ ضروری ہے کیونکہ چینی کی خریداری کا ایک کلیدی کردار یہی ادارہ ہے۔ چوتھی بات یہ کہ چینی رپورٹ میں کچھ ایسے لوگوں کے نام نہیں لیے گئے جو چینی انڈسٹری کے ساتھ معاملات کرتے رہے۔ کچھ شوگر ملوں کے بارے میں اس رپورٹ میں بات نہیں کی گئی؟
پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں چینی کی صنعت سے وابستہ اشرافیہ کے اثرورسوخ کو ریگولیٹ کرنے کی سمت میں یہ رپورٹ پہلا قدم ہے۔ اس معاملے کی مختلف حکومتی اداروں کی جانب سے مزید تحقیقات کے دوران یہ بات یقینی بنائی جانی چاہیے کہ چینی کی صنعت سے وابستہ اشخاص کو منصفانہ موقع دیا جائے۔ 
کلیدی سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ چینی رپورٹ اور حکومت کی جانب سے مستقبل میں کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں عام لوگوں کو بھی کوئی ریلیف حاصل ہوگا یا نہیں؟ کیا چینی کی قیمت کم ہوگی یا کم از کم مستقبل میں اس میں ہونے والا اضافہ ہی رک پائے گا یا نہیں؟ اگر عام لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں ملتا تو یہ بات ماننے میں کوئی امر مانع نہ ہوگا کہ موجودہ رپورٹ اور اس حوالے سے کی جانے والی دیگر تحقیقات اوپری سطح پر اشرافیہ کے مابین طاقت کی رسہ کشی کے سوا کچھ اور نہیں۔ روایتی طور پر پاکستانی اشرافیہ ایک دوسرے کے ساتھ متعدد وجوہ کی بنا پر گتھم گتھا ہوتی ہے خصوصاً سیاسی غلبے اور ریاستی وسائل پر قبضہ اس لڑائی کی بڑی وجہ بنتے رہے ہیں؛ تاہم یہ لوگ اپنی اس کھینچا تانی کو ایسی سطح تک نہیں لے جاتے جہاں سے واپسی کی کوئی راہ نہ ہو۔ اگر ان کی آپسی لڑائی طول پکڑ جائے تو طاقت کو توازن حکومتی اداروں کی جانب جھک جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved