تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-05-2020

تیار تو رہنا پڑے گا

دنیا بھر کے اخبارات‘ جرائد‘ ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس کے تجزیوں میں ایک بات تو ڈٹ کر کہی جارہی ہے کہ امریکا اب دنیا کی قیادت کا اہل نہیں رہا۔ کہا اب جارہا ہے ‘مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکا اپنی نا اہلی بہت پہلے ثابت کرچکا ہے۔ دنیا پر حکومت کرنے والوں کو کچھ کرکے بھی دکھانا ہوتا ہے۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اُنہیں طاقت اور حکمرانی کے حوالے سے یاد نہ رکھا جائے‘ بلکہ کچھ اور بھی ہونا چاہیے۔ امریکا نے قدم قدم پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ صرف اور صرف طاقت اور استبداد کے حوالے سے یاد رکھے جانے کا خواہش مند ہے۔ 
''ایڈکٹیڈ ٹو وار‘‘ (جنگ کا عادی) ایک تصویری کتاب ہے۔ اس کتاب میں خاکوں اور اُن سے وابستہ مکالموں اور حقائق کی مدد سے یہ بتانے کی اچھی کوشش کی گئی ہے کہ امریکا کی جنگ پسند ذہنیت نے دنیا میں بہت سی خرابیاں پیدا کی ہیں اور اب خود امریکا کو بھی خرابیوں کا سامنا ہے۔ ''ایڈکٹیڈ ٹو وار‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا جب سے قائم ہوا ہے تب سے اس بات کا خواہش مند رہا ہے کہ اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کو زیر نگیں کرے‘ ان پر حکمرانی قائم کرے۔ اس خواہش نے جنگ پسند ذہنیت کو فروغ دیا۔ ہر دور کی امریکی قیادت نے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے طاقت کے بے محابا استعمال کو ترجیح دی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ امریکا کے ہاتھوں کئی خطوں میں شدید نوعیت کی خرابیاں پھیلیں اور چند ایک تو مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
بیسویں صدی میں امریکا نے دو عالمی جنگوں کے دوران اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ ان جنگوں نے یورپ کو تباہ کردیا۔ اُسے اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونے کے لیے امریکا کی ضرورت پڑی۔ امریکا کی مدد سے دوبارہ مستحکم ہونے کے بعد یورپ نے امریکا کا ''بغل بچہ‘‘ رہتے ہوئے جینے کو ترجیح دی۔ جنگ پسند ذہنیت یورپ میں صدیوں رہی مگر بیسویں صدی کے دوران وہ اس ذہنیت سے ہٹ کر جینے کا خواہش مند ہوا۔ یورپ کی سیکیورٹی کی ذمہ داری بہت حد تک امریکا نے قبول کرلی اور اس کے عوض یورپ نے ہر غلط کام میں اُس کا ساتھ دیا۔ اِن دونوں کے گٹھ جوڑ نے کئی خطوں کو شدید خرابی اور تباہی سے دوچار رکھا ہے۔ 
یورپ نے معاملات کو بروقت بھانپ لیا اور راستہ بھی بدل لیا۔ وہ جنگ پسند ذہنیت کے دام سے بہت حد تک نکل چکا ہے اور نرم قوت (عصری علوم و فنون میں پیش رفت‘ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ ثقافتی تفاعل وغیرہ) کے ذریعے عالمی برادری میں اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ یورپ کی متعدد ریاستوں ہی نے حقیقی فلاحی ریاست کا تصور بھی دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک برطانیہ کو چھوڑ کر پورا یورپ امریکی پالیسیوں کا کھل کر ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ بعض معاملات میں یورپ اگر امریکا کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا ہے تو محض مجبوراً ‘کیونکہ ایسا کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ 
بہر کیف‘ یورپ تو راستہ بدل چکا۔ امریکا سے ایسا نہیں ہو پارہا۔ اس کی قیادت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ طاقت کے ذریعے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے‘ کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ طاقت کے ذریعے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے مگر سب کچھ طاقت کی مدد سے نہیں کیا جاسکتا۔ کل تک ایسا ممکن تھا۔ کوئی ملک بڑی طاقت میں تبدیل ہوکر اپنے آپ کو الگ تھلگ اور محفوظ رکھ سکتا تھا۔ ٹیکنالوجیز نے اب تمام معاملات کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ امریکی قیادت بھی اس بات کو ضرور سمجھتی ہے کہ معاملات پہلے جیسے نہیں رہے۔ محض طاقت کے ذریعے ہر کام نہیں کیا جاسکتا‘ مگر پھر بھی وہ اس ڈگر سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکا نے بہت سے خطوں میں بہت بڑے پیمانے پر خرابیاں پیدا کی ہیں‘ اگر اُس کی طاقت فیصلہ کن نہ رہی اور وہ دنیا کی قیادت کرنے کا اہل نہ رہا تو بہت سے کمزور مل کر اُس کے خلاف محاذ بھی بناسکتے ہیں۔ 
چین ایک اچھے آپشن کے طور پر ابھر رہا ہے۔ جن ممالک کو امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں غیر معمولی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ چین کے ساتھ کھڑے ہوکر ایک ایسا بلاک تیار کرسکتے ہیں جس کے آگے امریکا بھی پانی بھرتا دکھائی دے۔ امریکا کے لیے مشکل صرف یہ نہیں ہے کہ چین غیر معمولی استحکام کے ساتھ اُس کے مقابل کھڑا ہے‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ اب یورپ کچھ اور سوچ رہا ہے۔ یورپی قیادتیں چاہتی ہیں کہ جنگ و جدل کی راہ سے ہٹ کر کچھ مثبت کیا جائے۔ امریکا اُنہیں ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔ اُس نے دو ڈھائی عشروں کے دوران ایسے حالات پیدا کیے کہ یورپی قیادتوں کو لامحالہ باقی دنیا کے خلاف جاکر امریکی مفادات کے تحفظ سے متعلق اقدامات کرنا پڑے۔ خیر‘ اب یہ کہانی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حالات پر نظر رکھنے والے محسوس کرسکتے ہیں کہ یورپ اب جنگ و جدل کی راہ پر گامزن نہیں رہنا چاہتا۔ اُسے بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو شرحِ پیدائش کا ہے۔ یورپ کی آبادی میں اضافہ نہیں ہو رہا‘ یعنی آگے چل کر اُسے ورک فورس کے حوالے سے سنگین پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسے میں وہ کسی بڑی جنگ کی بھٹی میں اپنے لاکھوں نوجوانوں کو بھلا کیوں جھونکنا چاہے گا؟ 
طاقت کا گرتا ہوا گراف امریکی قیادت کے لیے سوہانِ روح ہوتا جارہا ہے۔ طاقت برقرار رکھنے کے لیے امریکا کچھ بھی کرسکتا ہے۔ امریکا کو بدمعاش ریاست قرار دینے والوں کی خود امریکا میں بھی کمی نہیں۔ جب کسی بدمعاش کی طاقت میں کمی واقع ہوتی ہے یا وہ فیصلہ کن حیثیت سے محروم ہونے لگتا ہے تب وہ ایسا بہت کچھ کرتا ہے جس سے کھیل ہی بگڑ جائے۔ بدمعاشی کی ذہنیت ایسا ہی کچھ کرواسکتی ہے۔ امریکا اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ دنیا کو اس کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ چین‘ روس‘ ترکی اور دیگر ہم خیال ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر آکر‘ یورپ سے تعلقات مربوط اور مستحکم رکھ کر ایسا بہت کچھ کرنا پڑے گا ‘جسے دیکھ کر امریکا زیادہ خرابیاں پیدا کرنے سے باز رہے۔ اس تیاری میں تاخیر کا خمیازہ کئی خطوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved