جس دنیا میں ہم زندگی گزار رہے ہیں ‘ چند عشروں میں وہ کتنی تیزی سے بدل گئی ہے ۔ ایک وقت تھا‘ جب اکثر چیزیں ‘حکمران بڑی آسانی کے ساتھ کنٹرول کر لیا کرتے تھے ۔گنتی کے چند اخبارات ہوا کرتے تھے اور ایک سرکاری ٹی وی ۔ آپ لیبیا او رمصر میں دیکھیں تو نصف صدی تک ایک ہی شخص یا ایک ہی خاندان حکومت کرتا نظر آتا ہے ۔ حالات ‘اگر تبدیل نہ ہوتے اور اس میں ٹیکنالوجی کا ایک بہت بڑا کردار ہے تو پاکستان میں آج بھی شریف خاندان کی حکومت ہوتی ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ کسی حکمران نے بیرونِ ملک خفیہ جائیدادیں بنا لی ہوں ۔ خفیہ جائیدادیں ‘ سوئٹزرلینڈ جیسے ملکوں میں خفیہ بینک اکائونٹس ہمیشہ سے بنائے جاتے تھے ۔ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہیں ہوتی تھی ۔ اس لیے کہ سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور یہ سب کام بڑی رازداری کے ساتھ سرانجام دئیے جاتے تھے ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بدلتی چلی گئی ۔ کمپیوٹر ایجاد ہوئے۔بہت بڑا ڈیٹا ایک چھوٹی سی چِپ میں محفوظ ہونے لگا ۔ دنیا میں انٹرنیٹ کیبل بچھا دی گئی ۔ دنیا بھر کے کمپیوٹر اس کے ساتھ منسلک ہو گئے ۔ ڈیٹا بڑی تیزی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگا۔ ویکسین اور انجن سمیت ہر بڑی ایجاد کے بعد دنیا بدل جاتی ہے ۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد دنیا بدل چکی تھی ۔ اس بدلی ہوئی دنیا میں کوئی شخص اور کوئی ملک یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے پہلے والے حال ہی میں زندہ رہنا ہے ۔ ڈیٹا کاغذ سے کمپیوٹر میں منتقل کرنا ایک بہت بڑی مجبوری تھی ۔ اس ڈیٹا کا بیک اپ بھی ہوتا ہے ‘ اکثر صورتوں میں جسے کاغذ کی طرح آگ لگائی نہیں جا سکتی ۔
بڑی بڑی شخصیات کا ڈیٹا چوری اور انٹرنیٹ پر جاری ہوا۔ یہ وہ ڈیٹا تھا‘ جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ریکارڈ کیا تھا۔ آپ کو وکی لیکس یاد ہوں گی ۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکہ جیسی خونخوار عالمی طاقت جن چیزو ں کو منظرِ عام پر آنے سے روکنا چاہتی تھی اور جس کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی ‘ وہ ناکام رہی۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ سب ٹیکنالوجی کا کما ل تھا۔ ڈیٹا ریکارڈ کیا جا رہا تھا اور دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتقل ہو رہا تھا ۔اس ڈیٹا میں نقب لگانا بھی ممکن تھا۔
2013ء میں ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس نے ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیے کہ امریکی دنیا بھر کا ڈیٹا کھنگال رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بڑی ویب سائٹس کے مالکان اس ضمن میں امریکہ کے ساتھ تعاون کر رہے تھے ۔ دنیا میں اس کے خلاف ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ اس لیے کہ یہ لوگوں کے پرائیوسی حقوق کی خلاف ورزی تھی ۔
گزشتہ برسوں میں بے شمار سلیبرٹیز کی خفیہ ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ۔ یہ وہ ویڈیوز ہیں ‘ جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ریکارڈ کی تھیں کہ بعد میں انہیں دیکھ کر اپنا دل بہلا سکیں ۔ بعد میں یہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر نشر ہو گئیں اور بچّے بچّے نے انہیں دیکھ لیا اور ان سلیبرٹیز کا اثر ورسوخ ‘ ان کی مال و دولت کچھ بھی ان کے کام نہ آسکی ۔ جب عالمی طاقت امریکہ اپنی کوشش کے باوجود وکی لیکس جیسی چیزوں کو نشر ہونے سے نہ روک سکی تو ایک اکیلی شخصیت کیا کر سکتی تھی ؟
آپ کو پنامہ لیکس بھی یاد ہوں گی ۔ دنیا بھر کی اہم سیاسی شخصیات کی خفیہ جائیدادوں کے ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیے گئے۔شریف برادران کی طرح ‘ یہ دنیا بھر کے وہ لوگ تھے‘ جن کی مرضی کے بغیر ان کے ملک میں پتّہ بھی نہیں ہلتا تھا ۔ اپنے غیر معمولی اثر وسوخ کے باوجود ‘ وہ اپنی خفیہ جائیدادوں کے ثبوت منظرِ عام پر آنے سے روک نہ سکے ۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ڈیٹا بجلی کی رفتار سے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتقل ہو رہا تھا۔خفیہ جائیدادوں کا ڈیٹا بھی محفوظ تھا اور دنیا بھر کے صحافی اس ڈیٹا کو نشر کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے تھے ‘ اگر انٹرنیٹ کی صورت میں ڈیٹا دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بجلی کی رفتار سے منتقل نہ ہو رہا ہوتا‘ تو وہ کبھی مل کر یہ سب کچھ نہ کر سکتے ۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کوئی انسان اس دنیا سے اٹھے گا نہیں ‘ جب تک کہ اس کا ظاہر و باطن دنیا پر آشکار نہ ہو جائے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے حالات‘ خیالات اور نظریات دوسروں کو بتانے کا رجحان رکھتاہے ۔وہ زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکتا ۔ اسی رجحان کا نتیجہ ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے مسلسل لڑتے رہتے ہیں ؛ حالانکہ اگر دوسرے میرے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تو مجھے کیا پڑی ہے کہ میں اپنے نظریات لکھ کر ان کے حضور پیش کروں کہ سرپھٹول شروع ہو ۔ اس کے باوجود آپ دیکھیں کہ دن رات لوگ اپنی توانائیاں اس کارِخیر میں صرف کر رہے ہیں اور فی سبیل اللہ ۔بغیر کسی آمدن یا مادی فائدے کے ۔
کہا جاتاہے کہ اگر قیامت کے دن آج کے انسان کی برائوزنگ ہسٹری اور اس کی انٹرنیٹ پر سرگرمیاں کھول کر اس کے سامنے رکھ دی جائیں تو یہ اس کا مکمل نامہ ٔ اعمال ہوگا ‘ جسے وہ کسی صورت بھی جھٹلا نہیں سکے گا۔ کوئی بھی متحمل نہیں کہ اس کے موبائل میں محفوظ ڈیٹا ‘ اس کی برائوزنگ ہسٹری ‘ اس کا فیس بک کا پاسورڈ کسی دوسرے کے ہاتھ لگ جائے ۔ اس کے باوجود سب اپنے ہاتھوں سے دن رات ڈیٹا ریکارڈ کر رہے ہیں ۔سب اپنا ذاتی ڈیٹا ریکارڈ کر کے اسے دوسروں کو بھیج رہے ہیں ۔
ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ کبھی کبھی ایسا لگتاہے کہ انسان ہپناٹائز ہو چکا ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ میں جو کچھ ریکارڈ کر رہا ہوں ‘ وہی میرے خلاف کل پیش کیا جائے گا ۔ وہ جانتاہے کہ جو کچھ وہ ریکارڈ کر رہا ہے ‘ اگر وہ کسی کے ہاتھ لگ گیا تو اس کی خیر نہیں ۔ اس کے باوجود وہ پاگلوں کی طرح ایک ایک چیز ریکارڈ کرنے میں مصروف ہے ۔ وہ کچھ ڈیٹا ریکارڈ کرتاہے‘ پھر اس کا موبائل چھین لیا جاتاہے اور یہ ڈیٹا لوگوں کے ہاتھ لگ جاتاہے ۔ اس کے بعد وہ نئے سرے سے ریکارڈنگ شروع کرتاہے اورپھر وہ موبائل کہیں رکھ کر بھو ل جاتاہے ۔ وہ جو کچھ مرضی کرے ‘ بے شک اسے ڈیلیٹ کر دے ‘ ڈیٹا recoverکر لیا جاتاہے ۔
ایسا لگتاہے کہ دنیا میں جس طرح ہمارا ڈیٹا چوری کر کے نشر کیا جاتاہے ‘ یہ صرف ایک ٹریلر ہے ‘ حشر کے دن کا ۔