تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-05-2020

وہ کس کی بیوی تھی؟

واقعہ اہم نہیں ہوتا۔ اہم انسانی شعور ہے جو اس کی تعبیر کرتا ہے۔
تاریخ کبھی علمِ یقین تک رسائی نہیں دیتی۔ زیادہ سے زیادہ گمان۔ مورخ واقعات نقل کر دیتا ہے جس طرح سنتا ہے، صحت و ضعف کا حکم لگائے بغیر۔ جیسے طبری۔ کچھ اس کی زحمت اٹھاتے اور روایت کے کمزور یا مستند ہونے کے بارے میں اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی ظاہر ہے کہ ظن سے زیادہ کا فائدہ نہیں دیتا۔ تاریخ کے علم میں ایک شعبہ وہ بھی ہے جوجرح و تعدیل کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ ایک واقعے کی روایات کو جمع کرتا اور ان کے بارے میں اپنی ترجیح بیان کرتا ہے۔ اس کی کاوش کا ثمر بھی گمان کے سوا کچھ نہیں۔
کہنا یہ ہے کہ تاریخ کے باب بھی کوئی جتنی مشقت بھی اٹھالے، گمان کی سرحد سے نہیں نکل سکتا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہر واقعہ اتنے عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ان سب کو بیک وقت احاطۂ امکان میں لانا عملاً محال ہے۔ ماضی بعید کی بات تو چھوڑیے، حال کے واقعات کی کوئی ایک تعبیر ممکن نہیں۔ یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ ایک واقعہ ہوا لیکن انسان کبھی اس کی ایک تعبیر پر متفق نہیں ہوتے۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حادثاتی موت چند سال پہلے کا واقعہ ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ وہ اس کا ہدف تھیں یا ایک خود کش حملے کے نتیجے میں جان سے گئیں۔ اقوامِ متحدہ سے لے کر ملک کے عدالتی نظام تک، سب کی سعی و جہد کا حاصل صرف گمان ہے۔ یہ ایک مثال نہیں۔ اس کا اطلاق کسی واقعے پر کر لیجیے، نتیجہ یہی نکلے گا۔ یہ ہمارے نہیں، عالمِ انسانیت کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
اس کے باوجود، اس میں شبہ نہیں کہ تاریخ نے انسان کے مذہبی، سیاسی اور سماجی خیالات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مغرب میں جب علوم کی سائنسی بنیادوں پر تشکیل ہوئی تو علم کو شعبوں میں بانٹ دیا گیا۔ یوں تاریخ کو ایک مستقل علم کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس علم نے تاریخ کو کئی ادوار میں تقسیم کیا۔ ایک کو قبل ازتاریخ (Pre History) کہا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ غیر مصدقہ ہے۔ یہ دورِ اوّ ل کی داستانیں ہیں جن کی کوئی مصدقہ حیثیت نہیں۔ مغرب میں فروغ پانے والے جدید علم کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ یا حضرت موسیٰؑ تاریخ کی ثابت شدہ شخصیات نہیں ہیں۔ عالمِ مسیحیت نے سیکولرازم کو قبول کرنے کے باوجود علمِ تاریخ کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا۔ اس نے سائنس کو تو مانا مگر سماجی علوم پر سائنسی اصولوں کے اطلاق کو نہیں مانا، اگر وہ اُس تاریخی شعور کے ساتھ متصادم تھا جو مسیحی روایت کے زیرِ اثر وجود میں آیا۔ اس نے علمِ تاریخ کا یہ حق قبول نہیں کیا کہ وہ ان مذہبی مقدمات کو چیلنج کرے۔ اس نے زمین کی گردش کو تو با دلِ نخواستہ مان لیا کہ اس کے بغیر چارہ نہیں تھا لیکن یہ بات تسلیم نہیں کی کہ حضرت ابراہیمؑ یا حضرت موسیٰ ؑ غیر حقیقی شخصیات ہیں۔
اس کی ایک وجہ ہے۔ تمام قدیم مذاہب روایت پر کھڑے ہیں۔ بدھ مت اور ہندو مت تو یہودی یا مسیحی مذاہب سے بھی پرانے ہیں۔ علمِ تاریخ کی سائنسی بنیادوں پر تشکیل کو اگر مان لیا جائے تو یہ تمام مذاہب قبل از تاریخ ادوار سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں ان کی علمی بنیاد باقی نہیں رہتی؛ تاہم، اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوصف، مذہبی روایت کے زیرِاثر وجود میں آنے والا تاریخی شعور، واقعات کی اس تعبیر سے اتفاق نہیں کرتا۔
بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ اسلام کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ یہ ایک تاریخی مذہب ہے۔ جدید علمِ تاریخ اس کو قبول کرتا ہے۔ اسلام کا دعویٰ اگرچہ یہ ہے کہ وہ جدید نہیں، قدیم ہے۔ یہ کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ وہی ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ کا مذہب تھا یا حضرت موسیٰ ؑ کا۔ یہی نہیں، سیدنا محمدﷺ اپنا مقدمہ انہی تاریخی شواہد کے تسلسل میں پیش کرتے ہیں؛ تاہم اسلام تاریخ کی اُس روایت کو مانتا ہے جس کی توثیق سیدنا محمدﷺ کرتے ہیں اور جو قرآن مجید میں بیان ہوئی جو آپﷺ پر نازل ہوا۔ اس لیے مسلم تاریخی شعور کی اساس ایک ایسی شخصیت سے روایت ہونے والے علم پر ہے جو قبل از تاریخ ادوار کا تسلسل ہونے کے باوجود، تاریخ کی ایک معلوم شخصیت ہے۔ اس کا تعلق قبل از تاریخ دور سے نہیں ہے۔
میں اس سے یہ استباط کرتا ہوں کہ انسان کا تاریخی شعور، کسی واقعے کی جس تعبیر سے اتفاق کر لیتا ہے، وہی تاریخ کی سب سے مستند تعبیر بن جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ تاریخی سند کی بنیاد پر کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی محقق ان واقعات کی صحت کو دلائل کے ساتھ چیلنج کر دے تو بھی لوگ اسے مان کر نہیں دیتے۔ میرا خیال ہے کہ اس شعور کو چیلنج کرنے کا اصل وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تشکیلی مرحلے میں ہو۔ جب اس مرحلے میں اسے قبول کر لیاجائے یا لوگ گروہی نفع نقصان کے تناظر میں صحتِ واقعہ کو نظرانداز کر دیں تو اس کے اثرات صدیوں تک باقی رہتے ہیں۔ 
مسلم تاریخ میں پیدا ہونے والی فرقہ واریت اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ اس تاریخ کے بعض واقعات کی ایک تعبیر جب ایک گروہ کے سیاسی مقاصد کے زیرِ اثر رائج ہو رہی تھی تو دوسرے گروہوں نے اسے، اس بنا پر قبول کر لیاکہ ان کے گروہی مقاصد کو ان تعبیر سے فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ یوں وہ تعبیر اجتماعی نفسیات کا حصہ بن کر تاریخی شعور میں اتر گئی۔ عمومی ارتقا کے نتیجے میں جو تاریخی شعور پیدا ہوا وہ بھی بادشاہت اور موروثی اقتدار کو قبول نہیں کرتا تھا۔ اس سے بھی اس تعبیر کو فائدہ پہنچا۔ اب اسے کھرچنے کی کوئی کوشش، کتنی ہی محققانہ کیوں نہ ہو، اسے پذیرائی نہیں مل سکتی۔ اس کی مثال محمود عباسی صاحب کی کتب ہیں۔ ان کی علمی قدروقیمت کو پرکھے بغیر، مسلمانوں کے اجتماعی تاریخی شعور نے انہیں مسترد کر دیا۔
حالیہ تاریخ میں بھٹو صاحب کی موت پر ایک نظر ڈالیے۔ جب ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ان پر موت کی سزا نافذ ہو گئی تو اس باب میں دو موقف سامنے آئے۔ ایک کے نزدیک، یہ فیصلہ واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر ہوا، لہٰذا درست تھا۔ دوسرا موقف یہ تھا کہ وہ عدالتی قتل ہے۔ تدریجاً پہلے موقف کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور محض بیس سال بعد، اس موقف کے حامیوں کی اکثریت نے بھی مان لیا ہے کہ ایک عدالتی قتل تھا۔
یہ کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس فیصلے کے بعد، نواب محمد احمد خان کے قتل کے بارے میں کوئی نئی واقعاتی شہادت سامنے آئی۔ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب کا اعتراف بہت اہم ہے لیکن یہ کوئی واقعاتی گواہی نہیں۔ جو جج اپنے اعتراف کے مطابق، اقتدار کے زیرِاثر لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتا رہا ہو، اس کی اپنی گواہی غیر معتبر ہوتی ہے۔ میرا مقدمہ دوسرا ہے۔ یہ رائے کہ بھٹوصاحب عدالتی قتل کا شکار ہوئے، اس تاریخی شعور کے زیرِ اثر پیدا ہوئی، جسے بعض دیگر واقعات بھی تقویت پہنچا رہے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کے اقدام نے اس تاریخی شعور کو آگے بڑھانے میں ایک کردار ادا کیا۔ لوگوں نے جنرل ضیاالحق عہد کے واقعات کو جنرل مشرف صاحب کے عہدِ اقتدار کی روشنی میں سمجھانا شروع کیا۔ یوں تاریخی واقعات کی تعبیر کے بارے میں، ان کی رائے تبدیل ہونے لگی۔ ان میں بھٹو صاحب کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ نوازشریف صاحب کے بارے میں جہاز کے اغوا کے مقدمے نے قدیم عدالتی فیصلوں کے ایک نئی تفہیم کو مستحکم کیا۔
اس تجزیے کی روشنی میں، اس سوال پر اٹھنے والی بحث پر غور کیجیے کہ موٹر وے پر قانون کو سرِ عام للکارنے والی خاتون کس کی بیوی تھی؟ اس واقعے پر عوامی ردِ عمل نے اس سوال کی اہمیت ختم کر دی ہے۔ وہ جس کی بیوی بھی تھی، عوام نے بتا دیا کہ وہ واقعے کی کس تعبیر کو درست سمجھتے ہیں۔ اس ردِ عمل نے حقیقتِ واقعہ کو غیر اہم بنا دیا ہے۔ یہ اس تاریخی شعور کا نتیجہ ہے جو واقعات کی ایک اجتماعی تعبیر سے سامنے آیا۔ کوئی ہے جو اس پر غور کرے؟ اس میں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو آنکھیں رکھتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved