تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     28-05-2020

عید، کشمیری مسلمان اور عرب دنیا

اس بار عید قدرے خوشگوار، کچھ اداس اور بہت سوگوار گزری، خوشگوار بات یہ تھی کہ اللہ نے روزے مکمل کرنے کی توفیق دی اور روزِ عید عطا کیا۔ 29 روزوں والی میٹھی عید کی خوشی دوچند ہوتی ہے۔ اخباری صفحات سے طویل تعطیلات کے بعد جب واپسی ہوتی ہے تو کئی موضوعات آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ جناب فواد چودھری، شیخ رشید سے وزارت اطلاعات کا قلمدان نہ ہونے کے باوجود خبروں میں ''اِن‘‘ رہنے کا فن سیکھ رہے ہیں۔ چاند کی رویت کا کیلنڈر کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ اس کیلنڈر کو کوئی پہلی مرتبہ چودھری صاحب نے دریافت نہیں کیا۔ سعودی عرب میں اسی کیلنڈر کے مطابق معمولات زندگی چلتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ او آئی سی کو اجماع کے ساتھ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ کیا اس کیلنڈر کی موجودگی کے باوجود رمضان اور عیدین وغیرہ کے لیے بشری آنکھ سے رویت ہلال لازمی شرعی تقاضا ہے یا نہیں۔
عید اداس اس لیے تھی کہ کورونا کی نحوست کی بنا پر پیاروں کی دید کم کم ہی نصیب ہوئی اور کہیں کہیں دور دور سے دید کا موقعہ ملا بھی تو اس طرح کہ ان کی آنکھوں میں اپنائیت کی بجائے اجنبیت کا رنگ نمایاں تھا۔ ایک کالم نگار دوست کو ٹیلی فون پر عید کی مبارکباد پیش کی۔ یہ دوست اپنے کالموں میں شدّتِ احساس اور قلمی جذبات کی شہرت رکھتے ہیں۔ میری آواز سن کر خوش ہوئے اور انہوں نے ارتجالاً کہا کہ اب تو اپنے پیاروں کی شکلیں بھی بھول گئے ہیں، لہٰذا یا خود چلے آئو یا تصویر بنا بھیجو۔
عید سوگوار اس لئے تھی کہ عید سے صرف دو روز پہلے پی آئی اے کا مسافر طیارہ کراچی میں لینڈنگ سے ایک منٹ پہلے، ایئرپورٹ سے متصل جناح گارڈن میں آبادی کے اوپر گر گیا۔ عملے سمیت حادثے میں 97 مسافر جاں بحق ہوئے جبکہ دو مسافر معجزاتی طور پر نہ صرف بچ گئے بلکہ انہیں شدید نوعیت کے زخم بھی نہ آئے۔ ایک بینک آف پنجاب کے ظفر مسعود اور دوسرے محمد زبیر۔
عید کے موقع پر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے بالکل بجا کہا کہ کشمیری مسلمان ان دنوں ڈبل لاک ڈائون کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی کمیونٹی سے اپیل کی کہ وہ مداخلت کرے۔ عید کے موقع پر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے نہایت ہی جرأت مندانہ اور دانشمندانہ بیان دیا۔ اس بیان کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کتنا حوصلہ بوڑھے قائد میں ہے۔ یہ بیان ایک اور تاریخی حقیقت کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ تحریکوں کی قیادت کے لیے جوانی سے زیادہ جوانمردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سید علی گیلانی بلاشبہ جوانمرد ہیں۔ سید علی گیلانی نے اپنے بیان میں کشمیری عوام اور نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا‘ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر مفرور آمر اور حاکم کو بالآخر ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کشمیری مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی زمین کا ایک انچ بھی بھارت کو فروخت نہ کریں‘ حتیٰ کہ تجارت، تعلیم، ٹورازم یا ترقیاتی منصوبوں کے کسی جال میں بھی گرفتار نہ ہوں اور زمین بیچنے سے اجتناب کریں۔ بھارت اسرائیل کی ہدایات کی روشنی میں فلسطین والا ماڈل یہاں دہرانا چاہتا ہے مگر کشمیری مسلمان کسی طرح بھی اس دامِ ہم رنگِ زمیں کا شکار نہ ہوں گے۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ 9 لاکھ بھارتی فوج جدید ترین اسلحے سے لیس ہو کر کشمیر کے چپے چپے پر موجود ہے، مگر پھر بھی بھارت کشمیری مجاہدوں سے ہی نہیں کشمیری میّتوں سے بھی خوفزدہ ہے۔ یہ سید علی گیلانی اور دیگر کشمیری قائدین کی قربانیوں کا اعجاز ہے کہ آج کشمیر کے پیروجواں، سکولوں کے بچے اور بچیاں اور کالجوں کے لڑکے اور لڑکیاں غرض کہ تمام کشمیری مرد و زن آزادیٔ کشمیر کے لیے سر پر کفن باندھے ہوئے ہیں۔ دیکھیے فراق کا یہ شعر سید علی گیلانی کی قیادت و سیادت پر کتنا صادق آتا ہے؎
تو ایک تھا مرے اشعار میں ہزار ہوا
اس اک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے
اپنے عید کے پیغام میں سید علی گیلانی نے عرب قائدین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ وہ چپ کا روزہ توڑیں، بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور اپنے مسلمان کشمیری مسلمانوں کی بھرپور مدد کریں۔
ہمیں یہ تو اندازہ نہیں کہ سعودی عرب اور خلیجی حکمرانوں کے کانوں پر جوں رینگے گی یا نہیں مگر جہاں تک عرب دنیا کی سول سوسائٹی کا تعلق ہے تو وہ اب کشمیری و بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور بھارت کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اہانت آمیز سلوک فی الفور بند کرے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں کویت کی وزارتی کونسل نے بھارت کو انتباہ کیا ہے کہ وہ کورونا کے پھیلائو کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہ ڈالے۔ متحدہ عرب امارات کی ایک شہزادی ہندالقاسمی نے کہا ہے کہ بھارت کورونا وائرس کے نام پر مسلمانوں پر مظالم نہ ڈھائے‘ نیز اپنے ریگولر اور سوشل میڈیا پر اسلام مخالف پروپیگنڈا بند کرے وگرنہ انہیں دوبئی میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں 25 برس تک سعودی عرب کے سب سے بڑے انگریزی روزنامے عرب نیوز کے ایڈیٹر رہنے والے جناب خالدالمعینا نے ایک بھارتی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کھری کھری سنائی ہیں۔ جناب خالدالمعینا میرے دوست ہیں۔ میرے سعودی عرب میں طویل قیام کے دوران ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ خالدالمعینا کو 1990ء کی دہائی میں ہم نے طائف کے ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں مدعو کیا تھا‘ جہاں انہوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کیا۔ وہ بہت اچھی اردو بولتے ہیں۔ عربی ان کی مادری زبان اور انگریزی وہ انگریزوں سے بڑھ کر جانتے ہیں اور برطانوی اور امریکی دونوں لہجوں پر قدرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھارتی خاتون اینکر کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت سے سعودی عرب اور خلیج کے تقسیم ہند سے پہلے کے تعلقات ہیں۔ بمبئی، دلی اور کراچی میں عرب سٹریٹس تھیں۔ بھارت کا ایک سیکولر ملک کا امیج تھا مگر جو اسلاموفوبیا کی کریہہ المنظر صورتیں ان دنوں ہمیں بھارتی میڈیا اور بھارتی حکمرانوں کی طرف سے دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں وہ ''ان لائک انڈیا‘‘ ہیں۔ یہ کیسا انڈیا ہے جس میں سڑکوں پر مسلمانوں کو ٹارچر کیا جاتا ہے اور انہیں ہلاک کیا جاتا ہے۔ ان پڑھ اور غنڈوں کی تو بات چھوڑئیے پڑھے لکھے پروفیسر اور ''دانشور‘‘ جب ہمارے دین اور ہمارے رسول کے بارے میں نعوذ باللہ غلط بات کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسا بھارت ہے۔ جناب خالدالمعینا کی ہر لمحہ عالمی منظر نامے پر نظر ہوتی ہے۔ انہوں نے بھارتی اینکر کو بتایا کہ بھارت کے بعض وزرا فخریہ کہتے ہیں کہ ہمیں پروا نہیں‘ شیخ لوگ ہمارے ساتھ ہیں‘ کوئی شک نہیں کہ ہمارے ممالک میں بادشاہت ہے مگر یہ مطلق العنان بادشاہت نہیں۔ یہ ایسی بادشاہت ہے جو ہر وقت عوام کے جذبات و تاثرات سے با خبر رہتی ہے۔ جناب المعینا نے کہا کہ میں ان ہندوئوں کو جانتا ہوں جو پچیس تیس برس پہلے صرف جیب میں 8 ڈالر لے کر دوبئی آئے تھے اور پھر انہوں نے ان گنت ڈالر بھارت بھیجے اور اس پارٹی کو کروڑوں ڈالر کا فنڈ دیا جو برملا بھارتی مسلمانوں کے خاتمے کی باتیں کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں بھارتی کماتے دوبئی سے ہیں اور بی جے پی کو بھارتی مسلمانوں کو ٹارچر کرنے کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ جناب خالدالمعینا نے کہا کہ اسی طرح انڈین، امریکی ٹویٹ کے ذریعے دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ مل کر عربوں کو سبق سکھائیں گے اور اگر ہم چاہیں تو ہم پانچ منٹوں میں دوبئی پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ جناب خالدالمعینا نے بھارتی اینکر کو کہا کہ میں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ جواہر لال نہرو والا سیکولر انڈیا نہیں یہ تو کوئی فاشسٹ انڈیا ہے۔ جناب خالدالمعینا نے امید ظاہر کی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مائیکرو فون ہاتھ میں لیں گے اور اعلان کریں گے کہ جو ہو گیا وہ ہوگیا آئندہ ہم بھارت کی روایات اور اس کے سیکولر دستور کی مکمل پاسداری کریں گے‘ بھارت کے ہر شہری کی جان و مال کی مکمل حفاظت کریں گے اور اسلاموفوبیا کا خاتمہ کر کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کو دفن کر دیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی جناب خالدالمعینا جیسے مدبر اور دانشور کی نصیحت پر کان دھرتے ہیں یا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved