تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-05-2020

بھارت میں دو ہندوستان ہیں

کورونا کے ان دنوں میں مجھے دو ہندوستان صاف صاف دِکھ رہے ہیں۔ ایک ہندوستان وہ ہے‘ جو حقیقت میں کورونا کی سزا جھیل رہا ہے اور دوسرا ہندوستان وہ ہے‘ جو کورونا کو گھر میں چھپ کر ٹی وی کے پردوں پر دیکھ رہا ہے۔ یہاں آپ نے کبھی سنا کہ آپ کے کسی رشتے دار یا کسی نزدیکی دوست کی کورونا سے موت ہو گئی ہو؟ میں نے تو ابھی تک نہیں سنا۔ کیا آپ نے سنا کہ برٹش وزیر اعظم کی طرح ہمارا کوئی لیڈر‘ کوئی وزیر‘ کوئی ایم پی یا کوئی ایم ایل اے کورونا کا شکار ہوا ہے؟ ہمارے سارے لیڈر اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے ہیں۔ ملک کے لگ بھگ ہر صوبے میں میرے سینکڑوں ہزاروں دوست اور پہچان والے ہیں‘ لیکن صرف ایک امیر خاندان کے ممبر نے بتایا کہ ان کے یہاں تین لوگ کورونا میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا؟ ان کا اندازہ تھا کہ یہ ان کے گھریلو نوکر‘ ڈرائیور یا چوکیدار سے ان تک پہنچا ہو گا یعنی کورونا کا اصلی شکار کون ہے؟ وہی دوسرا والا ہندوستان! اس دوسرے ہندوستان میں کون رہتا ہے؟ کسان‘ مزدور‘ غریب‘ دیہاتی کمزور اور ننگے بھوکے لوگ! وہ چین یا برطانیہ یا امریکہ جا کر کورونا کیسے لا سکتے تھے‘ ان کے پاس دلی یا ممبئی سے اپنے گائوں تک واپس جانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ یہ کورونا بھارت میں جو لوگ جانے انجانے لائے ہیں‘ وہ اس پہلے والے ہندوستان میں رہنے والے ہیں۔ وہ ہے انڈیا! وہ ہیں‘ ملک کے دس فیصد کھاتے پیتے لوگ اور جو ہزاروں کی تعداد میں بیمار پڑ رہے ہیں‘ سینکڑوں کی تعداد میں مر رہے ہیں‘ وہ لوگ کون ہیں؟ وہ دوسرے ہندوستان کے مقیم ہیں۔ وہ انڈیا کے نہیں بھارت کے مقیم ہیں۔ ان بھارت میں رہنے والوں میں سے ستر اسی کروڑ ایسے ہیں جو روز کنواں کھودتے ہیں اور روز پانی پیتے ہیں۔ ان کے پاس مہینے بھر کے دال روٹی کا بندوبست نہیں ہوتا۔ انہیں لوگوں کو ہم ٹرکوں میں ڈھیروں کی طرح لدے ہوئے‘ خطرناک گرمی میں ننگے پائوں سینکڑوں میل سفر کرتے ہوئے‘ تھک کر ریل کی پٹڑی پر سدا کے لیے سوتے اور سڑکوں پر دم توڑتے ہوئے روز دیکھ رہے ہیں۔ سرکاریں ان کے لیے مدد کی کوشش کر رہی ہیں‘ لیکن ان سے بھی زیادہ بھارت کے عظیم عوام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ایک بھی آدمی کے بھوک سے مرنے کی خبر نہیں آئی۔ اگر سرکاریں‘ جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا‘ مزدوروں کو گھر واپسی کی سہولت دے دیتیں تو ہمیں آج پتھروں کو پگھلانے والے یہ منظر نہیں دیکھنے پڑتے۔ آج بھی بھارت کے ہر باسی کے لیے سرکار اپنے اناج کے گودام کھول دے اور قرض دینے کی بجائے دو تین ماہ کے لیے دو سو یا ڈھائی سو روپے روز کی کمائی دے دے تو ہمارے انڈیا کی خدمت لیے یہ بھارت پھر اٹھ کھڑا ہو گا۔ 
سرکار کی سوچ صحیح سمت میں
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنی دوسری پریس کانفرنس میں ایسے کئی اعلان کیے ہیں‘ جن سے امید بندھی ہے کہ کورونا سے پیدا شدہ اقتصادی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک بیس لاکھ کروڑ روپے کی راحت دینے کی بات تھی‘ وہ بحث کا موضوع ہے۔ اسے ایک طرف رکھ دیں تو بھی ماننا پڑے گا کہ وفاقی سرکار اب درست راستے میں سوچنے لگی ہے۔ اس نے مزدوروں پر دھیان دینا شروع کر دیا ہے۔ اس نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ آپ صنعت و تجارت پر کروڑوں اربوں روپے لگا دو اور کارخانوں میں مزدور نہ ہوں تو آپ کیا کر لیں گے؟ صرف دولت اور مشینوں سے صنعت کو زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ ہمارے مزدور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اپنے گھر لوٹ رہے ہیں۔ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اگر وہ نہیں لوٹے تو کیا ہو گا؟ وہ اپنا پیٹ کیسے بھریں گے؟ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ منریگا میں ان کی مزدوری 180 روپے سے بڑھا کر 202 روپے کر دی گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اسے 250 روپے کیوں نہیں کر دیا جاتا‘ 100 دن کی بجائے اسے 200 دن کا کام کیوں نہیں دیا جاتا؟ انہیں شہروں میں لوٹانا ہے تو یہاں بھی ان کی مزدوری بڑھائیے۔ انہیں دو ماہ تک مفت راشن دینے کا فیصلہ اچھا ہے‘ لیکن انہیں بیروزگاری بھتہ بھی کیوں نہیں دیا جاتا؟ امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ میں دیا جا رہا ہے۔ یہ اچھا ہے کہ اب سرکار ان کے لیے سستے کرایے کے مکان شہروں میں بنائے گی اور ان کا علاج مفت ہو گا۔ ان کا وہی ایک راشن کارڈ سارے بھارت میں چلے گا۔ جن کے پاس راشن کارڈ نہیں‘ انہیں بھی مفت راشن اور بیکاری بھتہ دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ مزدور دیر سویر لوٹیں گے ضرور لیکن ان کے کسان رشتہ داروں کو خود پر بھروسہ رکھنا بہت ضرور ہے۔ انہیں قرض دینے میں سرکار نے بڑا دل ضرور دکھایا ہے لیکن ان کی فصلوں کے مناسب دام ان کو آج بھی نہیں ملتے۔ سرکار اگر کاشت اور کاشت کار پر دھیان دے تو وہ ہمارے خزانے کو لبریز کر سکتے ہیں۔
بھارت نیپال نیا تنازع
بھارت اور نیپال کے بیچ سرحد کی ایک سڑک کو لے کر نیا تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ یہ سڑک لپو لیکھ کے کالا پانی علاقہ سے گزرتی ہے۔ اگر اس راستے سے جائیں تو کیلاش مان سروور جلدی پہنچا جا سکتا ہے۔ اس نئی سڑک کا افتتاح وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ ہفتہ جونہی کیا کٹھمنڈو میں ہلچل مچ گئی۔ وہاں بھارت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے۔ نیپالی وزارت خارجہ نے بھارتی ہائی کمشنر کو بلا کر ایک سفارتی خط دے کر پوچھا ہے کہ اس نیپالی زمین پر بھارت نے اپنی سڑک بنا لی ہے؟ کیوں؟ نیپال کی سرکار کمیونسٹ پارٹی کے صدر پشپ کمل دہل پرچنڈ نے اپنے وزیر اعظم کے پی شرما اولی سے کہا ہے کہ بھارت سفارتی تعلقات سے نہیں ماننے والا‘ اس کے لیے نیپال کو کچھ جارحانہ طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اصلیت تو یہ ہے کہ کالا پانی علاقہ کو لے کر بھارت اور نیپال کے درمیان مسئلہ کافی لمبے وقت سے بنا ہوا ہے۔ یہ علاقہ بھارت کے اترا کھنڈ‘ نیپال اور تبت کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ تبت کے تکلا کوٹ نام کے شہر کے پاس ہے۔ اس کے ساتھ بنے کچے راستے سے دونوں تینوں ملکوں کے لوگ تجارت اور سفر وغیرہ بھی سینکڑوں برسوں سے کرتے رہے ہیں‘ لیکن 1816ء میں بھارت کی ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپالی سرکار کے بیچ جو معاہدہ ہوا‘ اس کے مطابق بھارت نے اپنی حد کالاپانی کے جھرنوں تک مانی اور نیپال نے اسے کالا پانی ندی کے صرف کنارے تک مانی ہے۔ بھارت میں نیپال کے سابق سفیر اور میرے کالج کے کلاس فیلو پروفیسر لوک راج برال کا کہنا ہے کہ یہ وہم اس لیے پھیلا ہے کہ اس علاقہ میں کالی ندی نام کی دو ندیاں ہیں اور200 برس پہلے نیپال کے پاس نقشے بنانے کے وسائل نہیں تھے۔ اسی لیے برٹش نقشے کی من مانی تشریح ہوتی رہی ہے۔ لگ بھگ 35 کلومیٹر کی اس کچی سڑک پر نیپال نے 1962ء میں اپنا دعویٰ ٹھوکا تھا‘ لیکن اس پر اصلی صورت میں بھارت کا ہی حق رہا ہے۔ 2015ء میں جب بھارت اور چین نے لپو لیکھ کے ذریعے باہمی تجارت کا معاہدہ کیا تو نیپال نے اس پر اعتراض جتایا تھا۔ اس مسئلے پر نیپال نے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی بیٹھک کی پیشکش پانچ چھ برس پہلے رکھی تھی۔ کوئی تعجب نہیں کہ نیپال کے کچھ بھارت مخالف عناصر معاملہ کو ویسا طول دینے کی کوشش کریں‘ جیسا 2015ء میں بھارت نیپال گھیرا بندی کے وقت دیکھا گیا تھا۔ ضروری یہ ہے کہ اس معاملہ کو باہم بیٹھ کر حل کیا جائے اور اس حوالے سے دونوں جانب سے فراخ دلی دکھائی جائے۔ 
یہ کورونا بھارت میں جو لوگ جانے انجانے لائے ہیں‘ وہ اس پہلے والے ہندوستان میں رہنے والے ہیں۔ وہ ہے انڈیا! وہ ہیں‘ ملک کے دس فیصد کھاتے پیتے لوگ اور جو ہزاروں کی تعداد میں بیمار پڑ رہے ہیں‘ سینکڑوں کی تعداد میں مر رہے ہیں‘ وہ لوگ کون ہیں؟ وہ دوسرے ہندوستان کے مقیم ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved