تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-05-2020

TING TING اور ایمرجنسی

Ting‘ Ting‘Ting، ائیر بس320 سے مخصوص قسم کی یہ ٹیون اس وقت بجنے لگتی ہے جب رن وے پر اترنے سے پہلے طیارے کے پہیے کام نہ کر رہے ہوں۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے اکثر گاڑیوں میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا شخص سیٹ بیلٹ باندھے بغیر گاڑی سٹارٹ کر ے تو گاڑی ایک مخصوص ٹیون اس وقت تک دیتی رہتی ہے جب تک کہ سیٹ بیلٹ باندھ نہ لی جائے۔ جہاز میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ لینڈنگ سے تھوڑی دیر پہلے جیسے ہی پہیے کھلتے ہیں تو جہاز میں سوار سب مسافروں کو ان پہیوں کے کھلنے کی آوازیں آتی ہیں‘ اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ جب پائلٹ نے پہلی لینڈنگ کی تو کیا اس کے پہیے کھل چکے تھے؟ اس کا جواب زندہ بچ جانے والے دو مسافر ہی دے سکتے ہیں ۔اگر پہیے نہیں کھلے تھے تو کیا پائلٹ نے پہلی لینڈنگ سے پہلے'' مے ڈے مے ڈے‘‘ کی کال دے دی تھی؟اگریہ کال نہیں دی گئی تو پھر اس کا مطلب یہی لیا جائے گاکہ طیارہ فٹ تھا اور پہیے کھل چکے تھے ‘لیکن پھر کیا وجہ بنی کہ پائلٹ نے رن وے پر ربڑ( پہیے) کی بجائے میٹل کا استعمال کیا؟کیا یہاں پر پائلٹ سے غلطی ہوئی؟ 
دوسرا سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ جب پہیے نہیں کھل رہے تھے تو کسی بھی قسم کی لینڈنگ سے پہلے جہاز کوبلندی پر لے جا کر اس کوا رد گرد گھماتے ہوئے اس کے اندر تیل کی مقدار کو زیا دہ سے زیا دہ ضائع کرنا چاہیے تھا تاکہ کریش لینڈنگ کے وقت جہازکی آگ کم ازکم پھیل سکے‘ لیکن بظاہر ہوا یہ کہ پہلی لینڈنگ کی کوشش میں رن وے سے بجائے پہیوں کے میٹل کے زور دار طریقے سے ٹکرانے کے بعد انجن آخری سانسوں تک پہنچ گئے تھے جس سے جہاز کنٹرول ٹاور کی ہدایات کے مطابق مقررہ بلندی تک جانے کی طاقت کھو بیٹھا۔ جہاز کو کھلی جگہ لے جا کر کریش لینڈنگ جیسے عمل کیلئے یہ ممکن ہی نہیں رہا تھا کیونکہ دونوں انجنوں کی تمام صلاحیتیں ختم ہو چکی تھیں۔
لاہور سے کراچی آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے8303 کے پائلٹ کی ائیر ٹریفک کنٹرول سے گفتگو کی ریکارڈنگ جو محفوظ ہے ‘اس میں '' ٹنگ‘ ٹنگ‘‘ کی مخصوص آوازیں صاف سنائی دیتی ہیں اور ائیر ٹریفک کنٹرول جب جہاز کی یہ مخصوص آوازیں سن چکا تھا تو پھر ائیر پورٹ پر ایمر جنسی نافذ کیوں نہ کی گئی؟ جہاز کو پہلی لینڈنگ کی اجا زت کیوں اور کس نے دی ؟ PK8303کی تباہی اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع نے جہا ں پورے ملک کو سوگوار اورمتاثرہ خاندانوں کو اذیت ناک دکھ اور رنج دینے کے علا وہ اپنے قرضوں کو کم کرتے ہوئے ایک نئے جذبے سے اپنی کھوئی ہوئی'' لاجواب پرواز‘‘کی جانب سر اٹھانے کی کوششوں میں مصروف پی آئی اے کی ساکھ کو بھی زبردست دھچکالگا ہے۔اس بد قسمت ائیر بس کو پیش آنے والے حادثے کیلئے حکومت کی جانب سے تجربہ کار اور ذہین افراد پر مشتمل تشکیل دی جانے والی ٹیکنیکل کمیٹی کی انکوائری رپورٹ آنے میں ممکن ہے کہ تین ماہ سے بھی زیا دہ کا عرصہ لگ جائے کیونکہ ابھی اگلے روز وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کراچی میں پریس کانفرنس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ چترال سے آنے والا جو طیارہ حادثے کا شکار ہوا تھا اس کی رپورٹ بھی ابھی تک فائنل نہیں ہو سکی( نہ جانے اس رپورٹ کے فائنل ہونے میں ابھی کتنی دیر اور لگے گی )۔
کراچی میں حادثے کا شکار ہونے والی بد قسمت ائیر بس کو تیار کرنے والے ادارے کی دس رکنی ٹیم فرانس سے کراچی پہنچ چکی ہے اور تحقیقات میں مصروف ہے۔اس لیے ابھی اس پر کوئی رائے دینا کسی طور منا سب نہیں‘ چونکہ یہ تمام معلومات ٹیکنیکل ہوتی ہیں اس لئے اس وقت تک ہم سب کو انتظار کرنا پڑے گا جب تک کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی اور وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے توقع کی جا سکتی ہے کہ جب چینی مافیا اور آٹا مافیا کی رپورٹس ان کے حکم سے چند ہفتوں میں سامنے آ سکتی ہیں تو اس ائیر بس کے حادثے کی رپورٹ بھی وقت مقررہ تک عوام کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ جو بھی ہو‘ لیکن ایک عام اور سادہ سا سوال ہے کہ جب پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرول کو بتا دیا تھا کہ جہاز کے پہیے نہیں کھل رہے تو ائیر پورٹ پر ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے رن وے پر فوم کیوں نہ بچھائے گئے؟ رن وے کے مقررہ مقام کے قریب فائر فائٹنگ اور ایمبولینس کے انتظامات کیوں نہ کئے گئے؟کراچی کے ہسپتالوں کو ہائی الرٹ کیوں نہ کیا گیا ؟
رن وے کی جو تصاویر دنیا نیوز نے 24 مئی کو اپنے بلیٹن میں دکھائی ہیں وہ پائلٹ کی ائیر ٹریفک کنٹرول سے کی جانے والی اس گفتگو کی تصدیق کر رہی ہیں کہ پائلٹ نے جب پہلی مرتبہ لینڈنگ کی کوشش کی تو اس دوران طیارے کے دونوں انجن رن وے پر لگنے سے بری طرح متاثر ہو گئے تھے ۔رن وے کو چھونے کے بعد جہاز پھر اوپر کی جانب اٹھتے ہوئے پوری کوشش کرتا رہا کہ اس کو کم ازکم تین ہزار فٹ کی بلندی پر لے جائے کیونکہ اس بلندی تک طیارے کو لے جانے کی ہدایات ٹریفک کنٹرول جاری کر رہا تھا ۔پائلٹ سے پھردوہزار فٹ تک کی بلندی پر رہنے کا کہا گیا لیکن بد قسمت طیارے کے دونوں انجنوں کے ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے پائلٹ اس بلندی تک لے جانے سے معذور ہو چکا تھا اور اس پیغام کے بعد ہی اس نے'' مے ڈے ‘ مے ڈے‘‘ پکارنا شروع کر دیا۔ ایک لمحے کے لیے اگر یہ نقطہ تسلیم کر لیا جائے کہ ممکن ہے پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرول کو پہلی مرتبہ رن وے پر لینڈنگ کرتے ہوئے یہ نہ بتایا ہو کہ اس کے لینڈنگ گیئر کھل رہے ہیں یا نہیں یا ان میں کوئی پرابلم آ چکی ہے۔ تو جیسا کہ شروع میں واضح کیا جا چکا ہے کہ اس بد قسمت ائیر بس کے پائلٹ اور ائیر ٹریفک کنٹرول کے درمیان ہونے والی اس آخری گفتگو کی ریکارڈنگ موجود ہے جس میں لینڈنگ گیئر نہ کھلنے کی صورت میں اس طیارے سے خود بخودــTing‘ Ting کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور پائلٹ جب کنٹرول ٹاور سے بات کر رہا تھا تو یہ مخصوص ٹیون بجنے کی آوازیں صاف اور واضح طور پر سنائی دیتی ہیں جو پائلٹ کو وارننگ دیتی ہیں کہ اس طیارے کے لینڈنگ گیئر نہیں کھل رہے اور ائیر بس کا یہ مخصوص کوڈ ائیر ٹریفک کنٹرول میں بیٹھا کوئی اہلکار بھی اچھی طرح جانتا ہے۔
فرض کیجئے کہ ائیر بس320 کے پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول کو بتا دیا تھا یا اس مخصوص ٹیون سے کنٹرول کو بھی اس بد قسمت طیارے کی خرابی کا پتہ چل گیا تھا تو اس صورت میں ایس او پی کے مطا بق کنٹرول ٹاور پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ پائلٹ کو ہدایات جاری کر دے کہ اپنے طیارے کو کنٹرول ٹاور کے اوپر سے گزارے تاکہ دیکھا جا سکے کہ پہیے کھلے ہیں یا نہیں ا ور پھر اسے کہا جاتا ہے کہ بلندی پر لے جا کر اس وقت تک چکر لگاتا رہے جب تک ایک مخصوص حد تک تیل ختم ہونے کے قریب نہ آ جائے۔ اس کے بعد ایئر ٹریفک کنٹرول ایک مخصوص دور بین کی مدد سے خود مشاہدہ کرتا ہے کہ جہاز کے پہیے کھلے ہوئے ہیں یا نہیں اس عمل یا مخصوص پروسیجر کیلئے دنیا بھر میں رائج ہوا بازی کا اصول ہوتا ہے کہ ائیر ٹریفک کنٹرول دوربین کی مدد سے خود جہاز کا معائنہ کرتا ہے ‘ یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ جہاز کے پہیے کھلے ہیں یا نہیں۔ مگر پی کے8303 کے معاملے میں ہمیں نظر نہیں آتا کہ ان قواعد پر عمل کیا گیا‘ یہی وجہ ہے کہ جہاز تباہ ہونے کا معاملہ اس قدر گنجلک ہو چکا ہے کہ اس امر کا تعین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ جہاز کسی ایک ذمہ دار کی غفلت کی وجہ سے تباہ ہوا یا اس میں زیادہ لوگوں کی غفلت شامل تھی‘ یا کسی کی غفلت بھی نہیں تھی اور یہ سراسر ایک تکنیکی حادثہ تھا۔ تحقیقات سے توقع کی جانی چاہیے کہ ان سوالوں کے جواب جلد فراہم کئے جائیں گے۔ 
اس امر کا تعین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ جہاز کسی ایک ذمہ دار کی غفلت کی وجہ سے تباہ ہوا یا اس میں زیادہ لوگوں کی غفلت شامل تھی‘ یا کسی کی غفلت بھی نہیں تھی اور یہ سراسر ایک تکنیکی حادثہ تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved