تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-06-2013

فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم

کیا ہم نے قسم کھا لی ہے کہ دانش سے کبھی کام نہ لیں گے او رجذبات کی لہروں پہ بھٹکتے رہیں گے ؟ احمد مشتاق کا لکھا نغمہ گاتے رہیں گے ؟ کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو یہ جماعتِ اسلامی کے امیر سیّد منوّر حسن کا بیان ہے : عوام ہار گئے ، جب کہ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ جیت گئی۔ من مانے نتائج حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہی ۔ اس نشہ آور ماحول میں ، جب پاکستان سے شائع ہونے والے ایک غیر ملکی جریدے نے بتایا ہے کہ نواز شریف قائد اعظم کے ہم پلّہ لیڈر ہیں ، یہ صدا کون سنے گا؟ 11مئی کے نتائج سامنے آنے کے بعد، تحریکِ انصاف کے کارکن تین تلوار چوک کراچی میں جمع ہونے لگے ۔ رینجرز ہیڈکوارٹر اور کور کمانڈر کے دفتر میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں۔ رینجرز کے افسر صبح سے پریشان تھے ۔ ایک شکایت کا ازالہ کرتے تو دوسری اگ آتی ، کشتی کا ایک سوراخ بندہوتا تو دوسرا پھوٹ بہتا۔ بعض پولنگ سٹیشنوں پر عملہ ہی غائب تھا، کہیں ووٹوں کی پرچیاں نہ پہنچی تھیں او رایسے مقامات بھی تھے، جہاں ریٹرننگ افسر گدھے کا روایتی سینگ ہو گیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ کمشنر صاحب لمبی تانے سو رہے تھے ۔ اور بھی زیادہ تشویش میں مبتلا کر دینے والی اطلاع یہ تھی کہ تین تلوار والے جن کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں، موٹر سائیکلوں پر سوا ران کے نوجوان شہر بھر کے محلّوں اور گلیوں سے کلفٹن کی طرف روانہ ہیں ۔ کور کمانڈر اور رینجرز کے اعلیٰ افسروں کا راولپنڈی سے رابطہ تھا ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا حکم یہ تھا کہ ہر قیمت پر امن کی ضمانت مہیا کی جائے ۔ تین تلوار چوک کے گرد گھیرا ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ سختی سے ہدایت کی گئی کہ کوئی مشکوک آدمی ہجوم میں شامل نہ ہونے پائے۔ انتظامات ہو چکے اور اطمینان کا اظہار کیا جانے لگا۔چوک سے اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ دو آدمی تھے ، مشکوک اور مسلّح ، چند منٹ کے اندر جو گرفتار کر لیے گئے ۔تفتیش ہوئی تو انکشاف یہ ہوا کہ ملزم تحریکِ انصاف کے کارکن ہیں ۔ ثبوت موجود تھا ۔ کیا خود ان کی پارٹی نے انہیں بھیجا تھا کہ اپنے ہی مظاہرے کو تتّر بتّر کر دیں؟ یہ ناچیز ان لوگوں میں شامل ہے ، جو تمام تلخیاں بھلا کر ایک نئے جمہوری دور کا آغاز کرنے کے حامی ہیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ ا مریکہ بہادر اور اس کے حواریوں کا فیصلہ کیا ہے ۔ انگریز ان میں سب سے زیادہ سرگرم تھے اور بعض چھوٹی عرب ریاستیں بھی ۔ اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں جن کے بزر جمہر اب بڑ ہانکتے پھرتے ہیں ۔الیکشن سے پہلے ہی لکھ دیا تھا : با خبر لوگوں سے برطانوی سفارت کار پوچھ رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف انتخاب کے بعد کیا1977ء ایسی احتجاجی تحریک برپا کر سکتی ہے ؟ الیکشن کے خیرہ کن ہنگاموں کے دوران اس اطلاع پر کسی نے توجہ نہ دی اور شاید اب بھی نہ دی جائے ۔ یہ سوال بہرحال موجود رہے گا کہ آخر انہیں یہ فکر کیوں لاحق تھی ؟آزادانہ اور منصفانہ الیکشن برپا ہونا تھا ،پھر یہ تربیت یافتہ اور سلیقہ مند لوگ ایک غیر متعلق موضوع پر پیہم کرید میں کیوں مبتلا تھے ؟ دوسرا سوال اس سے بھی زیادہ اہم ہے ۔ الیکشن کمیشن نے جب یہ واضح کردیا کہ پولنگ سٹیشنوں کے اندر فوجی جوان تعینات کیے گئے تو دھاندلی پر مداخلت کرنے کی انہیں ہرگز اجازت نہ دی جائے گی تو فوجی قیادت نے اس پر خاموش رہنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا آئی ایس پی آر کی یہ ذمہ داری نہ تھی کہ نہایت شائستہ انداز میں قوم کو بتا دیتا کہ انہیں فقط امن وامان کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ؟ اگر دھاندلی کے وہ کم یا زیادہ واقعات نہ ہوتے تو نتیجہ کیا کچھ زیادہ مختلف ہوتا؟ اندازہ یہی ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم اور پنجاب میں نون لیگ یقینی طور پر اکثریت حاصل کر لیتی ۔ قاف لیگ نے پیپلز پارٹی سے انتخابی مفاہمت کر کے پہاڑ سی غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔ لیگی ووٹر کو اس نے پیـغام دیا کہ وہ خوں آشام عہدِ رفتہ کو جاری رکھنے کی آرزومند ہے ۔ اس سے بھی بڑے کارنامے تحریکِ انصاف نے انجام دئیے ۔ لاہور، کراچی اور صوبہ سرحد میں تعاون کے لیے بڑھا ہوا جماعتِ اسلامی کا ہاتھ جھٹک دیا ۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلے شاہ محمودوں اور صداقت عباسیوں پر چھوڑ دئیے گئے ۔ ایسے لوگ بھی تھے ، جن کے بارے میں وثوق سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس کے ایما پر وہ اس جماعت سے وابستہ ہیں ۔ ان میں سے ایک صاحب عمران خان کے ترجمان کہلاتے ہیں ۔ ہفتہ کے اخبار میں ان کا ایک طویل انٹرویو شائع ہوا ہے ، جس میں صوبہ سرحد اور ملک بھر کے لیے پارٹی کی ترجیحات واضح فرمانے کی انہوںنے کوشش کی ہے ۔ تین برس پہلے پارٹی قیادت کو میں بتا چکا اور شواہد مہیا کر چکا کہ دس فیصد ماہانہ سود پر راولپنڈی کے کاروباریوں کو وہ رقم مہیا کرتے اور غنڈوں کے ذریعے وصولی فرماتے ہیں ۔ بتایا گیا تھا کہ آئندہ انہیں پارٹی کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی ۔ صدر دفتر میں مگر ان کی پذیرائی ہوتی ہے ۔ کس کے حکم سے ؟ الیکشن کا ہنگامہ ختم ہوتے ہی پراسرار ہاتھ آگے بڑھے ہیں۔ نون لیگ کے تین ممتاز رہنما ایک کھرب پتی کے طیارے میں گھومتے پھررہے ہیں ۔ پرلے درجے کا وہ مشکوک آدمی ہے اور بیرونِ ملک اس کے مراسم ہیں ۔ دو دن پہلے مردِ شریف ظفر اقبال جھگڑا کی موجودگی میں یہ اطلاع اس ناچیز نے عام کر دی تھی۔ سلسلہ اس کے باوجود جاری ہے اور تمام آثار یہ ہیں کہ جاری رہے گا۔ انتخابی کھیل کا ایک حصہ وہ تھا، جو جائز اور درست ہی نہیں ، شفاف یا کم از کم بنیادی طور پر قابلِ اعتماد تھا۔ کھیل کا ایک دوسرا حصہ متوازی طور پر زیرِ زمین جاری تھا۔ ایک عام ذہن بھی غور و فکر سے کام لے تو سمجھ سکتا ہے کہ مقصد کیا تھا۔ قوم کا حقیقی اعتمادرکھنے والی ایک منتخب حکومت ، میڈیا اور عدالتوں سمیت فعال طبقات جس پر بھروسہ کر سکیں ، سلامتی سے متعلق امور میں جو فوجی قیادت کو ساتھ لے کر چل سکے ۔ زیادہ سے زیادہ تین چار سال میں کم از کم دس ہزار ارب ڈالر کی معدنیات سے مالا مال پاکستان کو پائوں پر کھڑا کر سکے۔ انکل سام کو یہ بات گوارا ہے اور نہ برطانیہ کو ۔ مضبوط پاکستان ان کے لیے قابلِ قبول نہیں بلکہ محتاج اور منحصر ملک ، جسے وسطی ایشیا کے لیے وہ استعمال کر سکیں ۔ جب چاہیں ،خطے میں بھارتی بالادستی اور چین کے خلاف محاذ آرائی کے لیے بھی اور اسی سہولت کے ساتھ ، جو زرداری عہد میں میّسر تھی ۔ بے سبب نہیں کہ ہر سال دہشت گردی سے ہزاروں زندگیاں اور دس بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانے والے ملک میں، افغانستان اور قبائلی علاقوں میں قیامِ امن کی بجائے ، بھارت سے مذاکرات کو اولین ترجیح بتایا جا رہا ہے ۔ چڑ چڑی بڑھیا اور اس کے عزیز و اقارب معمول سے زیادہ سرگرم ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کے اس واضح اعلان کے باوجود کہ فوج کا آئندہ سربراہ اس کا سینئر ترین کمانڈر ہوگا، اسلام آباد اور لاہور کے ڈرائنگ رومز میں رات گئے تک اس موضوع پر کھسر پھسر ہے۔ دارالحکومت میں ہر سو پھیلی اس افواہ کا مفہوم کیا ہے کہ جنرل کیانی کو زیرِ دام لایا جائے گااور افغانستان سے امریکی واپسی تک اپنے منصب پرباندھ رکھنے کی کوشش کی جائے گی ؟ بار بار عرض کیا جاتا ہے کہ ہمارے مذہبی اداروں اور سیاست میں کچرا بہت ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ معاشرے کا کچرا ہی ۔ بار بار یاد دلایا جاتاہے کہ ملکوں اور معاشروں کی حفاظت بیدار اقوام کیا کرتی ہیں ، فقط فوج اور حکومت نہیں ۔ لکھتے لکھتے قلم گھس گیا کہ جمہوری معاشرے کا اہم ترین ادارہ فقط اسمبلیاں نہیں ، جمہوری سیاسی پارٹیاں ہوا کرتی ہیں ۔ کیا ہم نے قسم کھا لی ہے کہ دانش سے کبھی کام نہ لیں گے او رجذبات کی لہروں پہ بھٹکتے رہیں گے ؟ احمد مشتاق کا لکھا نغمہ گاتے رہیں گے ؟ کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved