’’یہ بدقسمت ملک بہت سے مسائل کا شکار ہے ۔ آپ اُن کو ماضی میں منظر ِ عام پر لاتی رہی ہیں، لیکن آج کل آپ کی توجہ کچھ دوسرے معاملات پر ہوگئی ہے۔کیا آپ کو کوئی دھمکی ملی ہے یا پھر آپ کو بھی دوسروں کی طرح خرید لیا گیا ہے۔‘‘یہ ای میل کچھ عرصہ پہلے ایک ڈاکٹر نے پاکستان سے بھیجی۔ میل بھیجنے والے کا کہنا ہے کہ وہ سخت الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن میرے لہجے کے نرم پڑنے سے اُن کو مایوسی ہوئی ہے۔ پاکستان میں قارئین کی ہمیشہ ایک سی رائے نہیںہوتی۔ خبروں کی رپورٹنگ معروضی انداز میں کی جائے تو بہت سے لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ اس میں زبان کا لطف نہیں رہتا۔ رپورٹنگ کو پر لطف بنایا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ہیجان خیزی کا سہارا لیا گیا ہے۔اسی طرح جب محتاط لہجہ اختیار کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’’ڈر گئے ہیں یا بک گئے ہیں۔‘‘ ان اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ ایک صحافی کا کام سیٹی بجانا، بلکہ ٹھہریں۔۔۔ فون ہیک کرنا ہوتا ہے۔ رائٹر کی رپورٹ کے مطابق پائیرس مورگن نے‘ جو اب سی این این کے میزبان ہیں، 2002ء میں بڑے فخر سے بتایا کہ فون ہیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ 0000 یا 1234 دبا کر فیکٹری سیٹنگ میں جائیں‘ وہاںسے پیغامات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جب مورگن مشہور انگریزی اخبار ’’مرر‘‘ کے مدیر تھے (1995-2004ء) تو اُن پر فون ہیک کرنے کا الزام بھی لگا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوںنے سیاست دانوں اور اہم شخصیات کے بارے میں بہت پر لطف معلومات حاصل کر لیں۔ اس اخبار کے مالک میڈیا کی دنیا کی مشہور شخصیت رپرٹ مڈورچ تھے۔ سائنسی ترقی کے ساتھ صحافی حضرات بھی جدید ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ اب معاملہ فون ہیک کرنے سے سائبر ہیکنگ تک پہنچ چکا ہے۔ اس پس ِ منظر میں وکی لیکس نت نئی باتیں سامنے لا کر لوگوں کی اشتہا بڑھاتی رہتی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا دھماکہ وہ تھا جب اُس نے گلوبل انٹیلی جنس ایجنسی Stratfor کے ٹیکساس میں واقع ہیڈکوارٹر سے پانچ ملین ای میلز چرائیں۔ حاصل کردہ معلومات کو وکی لیکس نے شائع کرنا شروع کر دیا۔ ان معلومات میں بعض حساس نوعیت کی بھی تھیں‘ جیسے Stratfor کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ کی جانے والی خط وکتابت، امریکی ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی، امریکی خفیہ اداروں اور کمانڈوز کی کارروائیاں وغیرہ۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پانچ ملین ای میلز کو پڑھنے کا کس کے پاس وقت ہے؟اگر کچھ لوگوں نے کچھ میلز پڑھ بھی لیں تو کون سا آسمان گر پڑا؟ عوامی توجہ حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ٹیلی ویژن ہے۔ ایک صاحب تھے ٹم روسوت (Tim Russert) اُن کا مسکراتا ہوا گول چہرہ اوربڑ ی بڑی برائون آنکھیں اُنہیںایک اچھا انسان ظاہر کر تی تھیں، وہ سیاسی میدان میں امریکہ کے سب سے بڑے صحافی تھے ، اس لیے لوگ اُن سے خائف رہتے تھے۔ اُن کا ٹی وی پروگرام ’’میٹ دی پریس ‘‘ انٹرویو دینے والوں کے پائوں تلے سے زمین نکال دیتا۔ وہ اُن کے جھوٹ، دوغلی گفتگو اور منافقانہ لہجے کو نہایت سفاکی سے طشت ازبام کر دیتا۔ ایک دن وہ خود ڈیسک پر گرگیا۔ دل کا دورہ پڑا اور وہ اٹھاون سال کی عمر میں اس دنیا کو چھوڑ گیا۔ آج کی دنیا میں صحافت کو چاہے وہ مطبوعہ ہو یابرقی، افرادکی بجائے ادارے چلا رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکہ میں صف ِ اول کے میڈیا کا بڑا حصہ صرف چار کارپوریشنز کے کنٹرول میںہے۔ جب میڈیا کو کاروباری ادارے چلارہے ہوں تو کیا جو کچھ شائع کیا جاتا ہے یا برقی لہروں کے دوش پر کہا جاتا ہے، اُس میں معروضیت کی کوئی رمق ہو سکتی ہے؟ کارپوریشنز کی طرف سے خبروں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ بہت سی ایسی کہانیاں اور رپورٹیں پھیلائی جاتی ہیں جن کے سرے وائٹ ہائوس، پینٹاگان اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے جا کر ملتے ہیں۔ ایسا صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ پاکستان، انڈیا، چین، روس بلکہ ہر جگہ ہوتا ہے۔ ’بڑا بھائی ‘‘ ہمیشہ نظر رکھتا ہے کہ عوام کو کیا کچھ بتایا جا رہا ہے۔ اگر ٹم روسوت آج زندہ ہوتے تو صدر آصف زرداری کا انٹرویوضرورکرتے جب وہ گزشتہ سال نیٹو کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ گئے۔ وہ صدر موصوف سے دوٹوک الفاظ میں پوچھتے: ’’جب آپ مسٹر اُباما سے شکاگومیں ملے تھے تو کیا باتیں ہوئیں ؟‘‘اُسوقت زیادہ تر امریکی میڈیا نے پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکی صدر کی طرف سے حامد کرزئی کی تعریف کو اجاگر کیا۔ ’’نیویارک ٹائمز ‘‘ نے پہلے صفحے پر خبر شائع کی: ’’پاکستان نے نیٹو کانفرنس کے مقاصد کو دھندلا دیا۔ صدر اُباما نے صدر زرداری کو نظر انداز کر دیا، بلکہ اُن سے ملنے سے بھی انکار کر دیا۔‘‘آگے چل کر اخبار لکھتا ہے: ’’صدر زرداری اس امید پر شکاگو آئے تھے کہ وہ مسٹر اُباما کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوکر اپنا قد کاٹھ بڑھائیںگے لیکن اُنہیں خالی ہاتھ واپس جانا پڑا۔ ‘‘ تاہم یہ گزشتہ سال کی بات ہے ، آج نواز شریف اور اُباما کے درمیان تعلقات درست سمت میں آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابات میں کامیابی پر امریکی صدر نے میاں نواز شریف کو مبارک باد کا پیغام بھیجا ہے۔ اُنھوںنے مشکل حالات میں انتخابی مہم چلانے پر پاکستان کے آئندہ وزیر ِ اعظم کی دلیری کی تعریف کی اور اُن سے جلد ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔ اس سے پہلے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ زرداری اور اُباما کے درمیان کوئی ذاتی رابطہ نہ تھا۔ اُباماا نتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ’’اندر ‘‘ کی معلومات نیویارک ٹائمز کو فراہم کیں۔ ٹائمز کی سٹوری کے مطابق پاکستان نے اپنی سرزمین سے گزرنے والے ہر نیٹو ٹرک کے عوض پانچ ہزار امریکی ڈالر ز کا مطالبہ کیا جبکہ اس سے پہلے امریکہ دوسو پچاس ڈالر فی ٹرک ادا کرتا تھا۔ صدر زرداری کے دورے سے پہلے دس مئی 2012 کو اُس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کا ’’ٹائمز ‘‘ کے ایڈیٹوریل کے صفحے پر مضمون شائع ہوا ’’How Pakistan Lets Terrorism Fester‘‘۔ یہاں حسین حقانی کے ساتھ اتفاق کرنا پڑتا ہے جب وہ لکھتے ہیں: ’’جہادی نظریات اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے گروہوں کے ساتھ لڑنے کی بجائے ہماری قومی ترجیحات کا رخ ایسی چیزوں کی طرف موڑ دیا گیا جنھوںنے ہماری توجہ تقسیم کر دی۔‘‘یہاں مسٹر حقانی پاکستانی میڈیا کو مورد ِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکومت کو عوامی حمایت سے محروم کردیا۔ میڈیا کے علاو ہ سابق سفیر نے تنقید کی کہ حکومت کو یکسوئی سے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کاموقع نہ دیا گیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت جو پاکستان کو اسلامی انتہا پسندی سے دور لیے جارہی تھی کی کاوش کو میڈیا اور اہم قومی اداروں نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات لگا کر اپنے مقصد میں ناکام بنا دیا۔ حقانی صاحب پاکستان کے خفیہ اداروں پر کھلم کھلا الزام عائد کرتے ہیں کہ دفاعی اداروں کی توجہ دہشت گرد گروہوں کی بجائے سویلین حکومت پر مرکوز ہے اور ہمارے دفاعی ادارے ماضی میں ایسے غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ کیا حقانی صاحب کی شستہ انگریزی میں لکھا ہوا مضمون جو ایک اہم اخبار کے اہم ترین صفحے پر شائع ہوا، باس (زرداری صاحب) کے شکاگو کے دورے میں فائدہ مند ثابت ہوا یا نقصان دہ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد ، بلکہ دوران ِ سروس، ایسی باتیں کھلم کھلا کہہ جاتے ہیںجو اُ ن کے عہدے کے منافی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد میڈیا کو مورد ِ الزام ٹھہرانا کہاں تک درست ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved