تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     31-05-2020

اپنے آپ کا انکار

رمضان المبارک کے دوران اور عیدالفطر کی خریداری کے نام پر جو اودھم مچایا گیا، اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ کورونا کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 66,457 افراد پر یہ حملہ آور ہو چکا، ان میں سے 24131 اسے پسپا کرنے میں کامیاب ہوئے، 1395 جان کی بازی ہار گئے، 707 کی حالت نازک ہے۔ مریضوں کی بڑی تعداد گھروں میں خلوت نشین ہے، جبکہ ملک بھر کے 727 ہسپتالوں میں 4175 افراد زیر علاج ہیں۔ ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد بھی اس کے نشانے پر ہیں، ان میں سے اور ان کے اعزا و اقربا میں سے کئی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹروں کے اوقاتِ کار اور ان کو ملنے والی سہولتوں کے حوالے سے اب بھی شکایات کے انبار لگے ہوئے ہیں‘ جس بھی ہسپتال کا رخ کر لیں، طبی عملہ افسردہ و پریشان نظر آئے گا۔ کئی جگہ تو مریضوں کو سپردِ خدا کر کے اطمینان کا سانس لے لیا جاتا ہے، نگہداشت میں کوتاہیوں کی شکایات (یا الزامات) بھی عام ہیں۔ جوں جوں ٹیسٹوں کی تعداد بڑھ رہی ہے متاثرین بھی بڑھ رہے ہیں، اربابِ اختیار لاک ڈائون کا نام سننے کو تیار نہیں، اور کسی قسم کا ڈسپلن نافذ کرنے سے بھی معذوری ظاہر کرنے میں بے حجاب ہیں۔ بعض اوقات انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سارا ملبہ غیر ذمہ دار افراد کے سر ڈال کر منہ پھیر لیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی مقامات اور کئی اداروں میں قواعد و ضوابط نافذ کئے جا رہے ہیں، پاکستان ریلوے نے تو اس حوالے سے مثال قائم کر دی ہے۔ لیکن بازاروں اور مارکیٹوں میں بے ہنگم ہجوم کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ بزرگوں اور بچوں کو غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ایک ایک موٹر سائیکل پر تین تین، چار چار افراد سوار نظر آتے ہیں، گویا خصوصی احتیاط تو ایک طرف، معمول کے ٹریفک قوانین کی پابندی بھی نہیں کرائی جا رہی۔ ٹریفک پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ تاجر حضرات کا سارا زور کاروباری اوقات میں اضافے پر ہے۔ ان کے رہنما اس حوالے سے حکومت پر دبائو ڈالنے ہی کو کارنامہ سمجھتے ہیں۔ اور تو اور، پرائیویٹ سکولوں کے ذمہ داران تعلیمی ادارے کھولنے کے مطالبات کر رہے ہیں، گویا بچوں کی صحت اور زندگی خطرے میں ڈالنے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، حالانکہ ان کا مطالبہ فیسوں کی وصولی تک محدود رہنا چاہئے۔ والدین کو باقاعدگی سے فیس کی ادائیگی کا پابند بنانا یوں ضروری ہے کہ ادارے اپنا وجود برقرار رکھ سکیں، اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن ہو پائے۔ پُرزور کوشش کی جانی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے ورچوئل پروگرام شروع کر سکیں۔
حکومتی ذمہ داران بار بار یہ بات دہراتے نظر آتے ہیں کہ وہ ڈنڈے کے زور پر ڈسپلن نافذ نہیں کر سکتے، کروڑوں افراد کو قید نہیں کر سکتے، لیکن یہ سب حیلہ سازی ہے۔ انتظامیہ میں آج بھی اتنی سکت موجود ہے کہ وہ اپنی رٹ نافذ کر سکے، اور لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کر سکے۔ انہیں ماسک پہننے، سینی ٹائزر استعمال کرنے یا ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھونے، اور ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھنے کا پابند بنایا جا سکے، اس مقصد کے لیے قانون سازی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ یاد رکھیے، اگر وبا کو اسی طرح ہلا شیری دی جاتی رہی تو اس کے انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، اور معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے، جو اقتدار اپنا حکم نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، وہ اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتا ہے۔
یہ اپنی جگہ شرم کا مقام ہے کہ کورونا کے شدید حملے کے باوجود بے لگام سیاست جاری ہے۔ اہلِ سیاست ایک دوسرے کے لتّے لینے میں پیش پیش ہیں۔ مقدموں اور گرفتاریوں میں تیزی کے سندیسے دیئے جا رہے ہیں۔ اہلِ اقتدار اور اختلاف حسبِ توفیق ایک دوسرے کو کالا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، بحرانی حالت میں اس طرح کی دیوانگی پاکستان کی تاریخ کے لیے بھی اجنبی ہے۔ ماضی میں بار بار سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما غیر معمولی حالات میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے دکھا چکے ہیں۔ دور نہ جائیے، دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوم نے ایک ہو کر لڑی اور ناقابلِ شکست ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں کے دانت کھٹے ہی نہیں کئے توڑے بھی ہیں۔ لیکن اِس وقت جو چھینا جھپٹی جو آپا دھاپی اور جو مارا ماری نظر آ رہی ہے وہ پوری قوم کے اعصاب پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ یہ رویے اس عالم میں ہیں کہ جب معیشت کا پہیہ چل نہیں پا رہا۔ معاشی مشکلات تو اس وائرس سے پہلے بھی بہت تھیں لیکن اس نے تو آ کر کایا ہی پلٹ دی ہے۔ اسحاق ڈار صاحب لندن سے دِل دہلا دینے والے اعدادوشمار جاری کرتے رہتے ہیں۔ شرح نمو کم ہونے کی وجہ سے 2017ء کے مقابلے میں 51 ارب ڈالر کا نقصان قومی خزانے کو پہنچ چکا ہے۔ ڈی ویلیوایشن سے قرضوں کے بوجھ میں 30 ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں 30 ارب ڈالر ڈوب چکے ہیں، گویا گزشتہ دو سال میں مجموعی طور پر 111 ارب ڈالر کا نقصان معیشت کو پہنچ گیا ہے، گویا اٹھارہ ہزار پانچ سو ارب روپے۔ مستقبل قریب میں شرح نمو میں اضافے کی بات کرنا محال ہے۔ اس کے منفی ہو جانے کے خدشات حقیقت بن کر سامنے ہیں۔
حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ معمول کی سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنے کا قومی پلان بنایا جائے، اور پوری قوم کمرِ ہمت کس لے... لیکن اس کے برعکس اس سال یوم تکبیر کے موقع پر (سابق) وزیراعظم نواز شریف سے ان کا یہ اعزاز چھیننے کی سرکاری کوششیں کی گئیں کہ انہوں نے تمام تر دبائو اور تحریص کے باوجود پاکستان کی ایٹمی طاقت کو واشگاف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان کی معاشی حالت اس وقت بھی دگرگوں تھی۔ بھارت کے پاس 24 ارب ڈالر کا زرمبادلہ تھا، جبکہ پاکستان کے پاس صرف 1.2 ارب ڈالر تھے۔ امریکی صدر کلنٹن نے دھماکہ نہ کرنے کی صورت میں پانچ ارب ڈالر کی امداد دینے کی پیشکش بھی کی تھی۔ پاکستانی معیشت کے حوالے سے مَیں خود بھی فکرمند تھا، اور وزیر اعظم نواز شریف کے طلب کردہ مدیرانِ اخبارات کے اجلاس میں اس کا اظہار بھی کیا تھا۔ انہوں نے اس طرف توجہ دی اور سعودی عرب کے حکمران عبداللہ ہماری پشت پر کھڑے ہو گئے۔ تیل اُدھار دینے کی (چپکے سے) پیشکش کر دی۔ نواز شریف نے بے خوف و خطر دھماکے کر ڈالے، اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن قائم کر دیا۔ یہ درست ہے کہ ایٹم بم انہوں نے نہیں بنایا‘ اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس کی بنیاد رکھی، جنرل ضیاء الحق نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اپنا انمٹ نقش ثبت کر دیا، نواز شریف نے اسے دُنیا کو دکھا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کردار بھی ناقابلِ فراموش تھا (اور ہے)۔ ایٹمی پروگرام کسی کا ذاتی یا جماعتی پروگرام نہیں تھا، اس حوالے سے سیاست بازی اور الزام تراشی کی کوئی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ قومی اتحاد و اتفاق کی برکت سے اگر ہم اس طرح انکاری ہوتے جائیں گے اور معاشرے کو تقسیم کرنے کو قومی فریضہ سمجھیں گے تو پھر جسدِ قومی نام کی شے برقرار کیونکر رہ پائے گی؟ اپنے آپ کا انکار کرنے ہی کا نام تو خود کشی ہے۔
مدثر حسن مرحوم
گزشتہ چند روز کے دوران مجھے شدید ذاتی صدمہ برداشت کرنا پڑا کہ میرے بہت عزیز دوست مدثر حسن کورونا کا شکار ہو گئے۔ وہ مرحوم مولانا جعفر قاسمی کے بڑے بیٹے تھے۔ اپنے والد کی طرح چنیوٹ کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ کچھ عرصہ پہلے اسلامیہ کالج لاہور میں تبادلہ کرا لیا۔ یہاں عربی کے استاد تھے، پھر دِل اچاٹ ہوا اور ریٹائرمنٹ لے لی۔ ایک زمانے میں اداکاری کا شوق بھی چرایا، اور پی ٹی وی کے ڈرامے اندھیرا اُجالا سے شہرت پائی۔ ڈرامے بنائے بھی لیکن راس نہیں آئے۔ زندگی سے بھرپور مدثر کو چنیوٹ سے لاہور لایا گیا، یہاں وہ بحریہ ٹائون کے ہسپتال میں زیر علاج رہے، کئی روز کی کشمکش کے بعد جان کی بازی ہار گئے۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن کی بیوہ، بچوں، بھائی مزمل قاسمی اور خود مجھے یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا کرے۔ (آمین)
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved