نہ جانے کتنے برس بیت گئے‘ جب ہر دو سال بعد 300 سے500 ملین روپے کے گردشی قرضے ملک و قوم کی گردنیں اس بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑلیتے کہ بس ہلکی سی سانس کا سلسلہ بمشکل چلتا۔ یہ شکنجہ بجلی سپلائی کرنے والے ان پرائیویٹ پاور پراجیکٹس کا ہوتا‘ جو امریکہ نے1989 ء سے پاکستان کی گردن میں پھنسا رکھا ہے‘ کیونکہ پاکستان میں آئی پی پیز کا آئیڈیا ‘ایک امریکی ادارے نے1989ء میں وائٹ ہائوس کے ذریعے‘ یہ کہتے ہوئے متعارف کروایاتھا کہ پاکستان کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے اورمستقبل میں اسے اپنی ضروریات پوری کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا ‘اگر وہ ہائیڈل پاور سٹیشن کیلئے کسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کیلئے اسے آٹھ سے دس سال لگ جائیں گے اور اس کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ اس پر کام شروع کروا سکے‘ اس لئے اس کیلئے یہ انتہائی اہم ہو چکا کہ وہ ایسے پاور پراجیکٹس قائم کرے‘ جو جگہ بھی کم لیں اور ان کی تکمیل بھی کم سے کم مدت میں ہو جائے ۔
فرض کیجئے کہ وہ ایک ایسا نیک ایماندار سرکاری افسر تھا‘ جوہمیشہ یہی سوچ کر گھر سے نکلتا کہ آج اس نے اپنے ملک و قوم کی بہتری کیلئے کون کون سے کام نمٹانے ہیں؟ پاکستان اس کا عشق اور اس کی سالمیت اس کا ایمان تھا۔ان دنوں یہ نیک صفت افسر20 ویں گریڈ میں ان پاور پراجیکٹس کے معاون کے طور پر پاکستان کی وزارت میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو ‘ ملک کی وزیر اعظم تھیں‘ جن کے اقتدار سنبھالتے ہی امریکی ادارے نے اپنی پیشکش محترمہ کے سامنے رکھ دی تھی ‘ جو کچھ عرصہ ان کے پاس رہی اور پھر ایک دن ان کی یہ پیشکش ایک وزارت کے سیکرٹری کے پاس پہنچا دی گئی‘ جنہوں نے اس کا جائزہ لینے کی ذمہ داری اسی افسر کے سپرد کر دی‘ جن کا اپنے اس مضمون میں ذکر کر رہا ہوں اور جو اس تمام کارروائی کے چشم دید گواہ ہیں‘ جو آئی پی پیز نے پاکستان کے حکمرانوں اور کرپٹ افسروں کی معاونت سے کی ۔ اس کرپشن نے ہمارے اقتصادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔سوائے چند لاکھ لوگوں کے باقی پورا ملک بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے ہر ماہ ایک ایسے امتحان سے گزرنے لگا ‘جس نے ہمارے ملک کو گزشتہ25 برسوں سے اس طرح اپنی لپیٹ میں لیاہوا ہے کہ عوام الناس کا ٹھیک طرح سانس لینا بھی محال ہوتا جا رہا ہے‘ جس کا اندازہ آپ کو درج ذیل نکات سے ہو جائے گا:۔
٭اس مبینہ کرپشن کی پلاننگ کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں معروف امریکی ادارے کی پیشکش کا جائزہ لینے کیلئے اس وقت کی سیا سی حکومت کے حکم سے دو سیل تشکیل دیئے گئے‘ جن میں ایک سیل کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا تھا ‘جس پر وزارت ِپٹرولیم اور قدرتی وسائل کام کرنے لگی‘ جبکہ دوسرا سیل وزارت ِپانی و بجلی کے تحت قائم کیا گیا۔ یہ دونوں سیل قائم تو ہو گئے‘ لیکن ان کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں ایسے پاکستانی انجینئرز کوشامل کیا گیا‘جو کچھ عرصہ قبل امریکہ میں آباد ہو چکے تھے ۔
٭امریکی ادارے کے اہلکار ان دونوں سیل میں ہر دس دن بعد آ کر ا صرار کرتے کہ رپورٹ جلد از جلد تیار کی جائے‘ انہیں شکایت تھی کہ ان کی رپورٹ پر سست رفتاری سے کام ہورہا ہے ۔بیسویں گریڈ کے اس افسر نے جو ایک سیل کے سربراہ تھے‘ وہ امریکی ادارے کی تجویز پر اس لئے تیزی سے کام کر رہے تھے‘ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا ملک لوڈ شیڈنگ جیسے عذاب سے بچ جائے۔ امریکیوں کو ملنے والی اطلاعات کے مطا بق؛ یہ افسر ان کی پیشکش پر سب سے زیا دہ توجہ دیتے ہوئے کام کر رہا ہے اور ابھی اس افسر کی تیار کی گئی جائزہ رپورٹ فائنل بھی نہیں ہوئی تھی کہ گریڈ بیس کے اس افسر کو اطلاع دی گئی کہ ان کا نام پنسلوینیا یونیورسٹی‘ امریکہ میں ایک کورس کیلئے شامل کر لیا گیاہے‘ یعنی امریکیوں نے اس افسر کو مزید احسان مند کرنے کیلئے کہا کہ جیسے ہی یہ سیل کام کا آغاز کرے گا تو آپ کو ایک بڑی طاقت ور قسم کی گاڑی فراہم کرنے کے علا وہ خصوصی الائونسز بھی دیئے جائیں گے۔ اس افسر کی وزارت میں قائم سیل نے اپنا کام مکمل کرنے کے بعد رپورٹ امریکی ادارے کے حوالے کر دی‘ تاکہ وہ اس کا جائزہ لے کر آگے بڑھیں۔ اس افسر کی رپورٹ اور تجاویز پڑھنے کے بعد جب حکومت ِپاکستان کے ساتھ آئی پی پیز کی جان سے قانونی معاہدے تیار کئے جانے لگے تو اس سے پہلے امریکی حکام اس افسر کے دفتر آئے اور اس کا بڑی گرم جوشی سے شکریہ ادا کرتے ہوئے تعریفیں شروع کر دیں اور پھر چند کاغذات ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اس پر دستخط کر دیں‘ تاکہ اس اشتہار کو امریکہ کے چند بڑے بڑے اخبارات میں شائع کرایا جا سکے۔
امریکیوں کے تیار کئے گئے اس بین الاقوامی اشتہار کی آخری شق میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ انٹر نیشنل پاورپراجیکٹس میں کام کیلئے اپنی اپنی درخواستیں بھیجیں۔یہ افسر اپنے سامنے رکھے اشتہار کی عبارت پڑھتے پڑھتے ایک شق پر نظر ڈالتے ہی ششدرہو کر رہ گیا‘ جس میں لکھا تھاکہ ان پراجیکٹس پر کام کرنے والے امریکی شہریت رکھنے والے پاکستانی انجینئرز اور دوسرے افسران کو تنخواہیں امریکی ڈالروں میں دی جائیں گی اور دو سال تک ان کی تنخواہوں کی ادائیگیاں امریکہ ادا کرے گا اور دو سال بعد جب یہ سیل ‘حکومتِ پاکستان کو منتقل ہو جائے گا تو اس کے بعد ان کی تنخواہوںکا ذمہ دار پاکستان ہو گا۔ یہ شق دو تین بار پڑھنے کے بعد اس افسر نے اپنے سامنے بیٹھے امریکی حکام کو بتایا کہ وہ اس اشتہار کو ریلیز کرنے کی منظوری نہیں دے سکتے ‘کیونکہ ایک تو ان کی تنخواہیں ہمارے محکمے کے سیکرٹری صاحب سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں‘دوسر ے آپ کہتے ہیں کہ دو سال بعد یہ سیل پاکستان کو منتقل ہو جائے گا‘ اس لئے ان تمام افسران اور ماہرین کی تنخواہیں پاکستان ادا کرے گا ‘جو ڈالروں میں ہو گی‘ جبکہ حکومت ِپاکستان کے رولز اور ریگولیشن اس قدر بھاری مشاہروں الائونسوں اور مراعات کی اجازت ہی نہیں دیتے‘ اگر ایسا ہوا‘ تو پاکستان میںدوسرے افسران احتجاج کریں گے‘ جس سے ایک طویل قانونی جنگ شروع ہو جائے گی۔بالآخر امریکی حکام کو اس افسر کی حب الوطنی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اورا س شق کواپنے اشتہار سے ختم کرنا پڑا۔
چند ہفتوں بعد اس افسر نے معروف امریکی کے افسران سے جب پاورپراجیکٹس کے حوالے سے اس کے سیل کی رپورٹ کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے انتہائی تضحیک آمیزقہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آج ہی انہوں نے وزیر اعظم ہائوس کو قائل کر لیا ہے کہ ہمارے اس پراجیکٹ کیلئے قائم کئے گئے دونوں سیل الگ الگ وزارتوں میں نہیں‘ بلکہ ایک ہی دفتر کی چھت تلے ہونے چاہیے اور آج سے یہ سیل اس افسر کے دفتر سے منتقل کرکے دوسری وزارت میں قائم سیل میں ضم کر دیا گیا ہے۔ کوئی بیس دن بعد اس افسر کو پنسلوینیا یونیورسٹی‘ امریکہ سے خط موصول ہوتا ہے کہ ان کا نام کورس میں شامل کرنے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ نے معذرت کر تی ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکی ادارے کی مرضی کے ا شتہار اور دوسرے معاہدوں پر دستخط کس نے کئے؟نیز کن کن افسروں نے ان پاو رکمپنیز کے ساتھ ایسے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کئے‘ جس نے اس ملک اور اس کی عوام کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ کیا کوئی ایسے تمام افسران اور وزراء کو چاہے‘ وہ ریٹائر ہو چکے ہوں‘ اس قوم کے سامنے بے نقاب کرے گا ‘جن کی وجہ سے ہم لٹے‘تم لٹے اور پھر ملک و قوم لٹ گئے۔