''یہاں جتنے بھی ملازم ہیں‘ آپ انتظامیہ کو ان کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ ان لوگوں کو رکھنے میں یونینیں (Unionsاہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ملازمین کی چھ ایسوسی ایشنز اور یونینز ہیں۔ ائیر لائن کیسے چل رہی ہے؟ اس میں ان کا بڑا حصہ ہے! کیبن کریو کی اپنی ایسوسی ایشن ہے‘ پائلٹوں کی اپنی‘ انجینئرز کی اپنی۔ اسی طرح باقی کی بھی! ان سب کے علاوہ ایک طاقتور CBA بھی ہے۔یعنی اجتماعی سودا بازی کرنے والی ایجنسی! ان کا بھی بہت اثر ہے۔ ان انجمنوں نے عملاً ائیر لائن کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پی آئی اے اس وقت 33 جہاز اڑا رہی ہے۔ ضرورت صرف چار ہزار ملازمین کی ہے مگر وہ اٹھارہ ہزار ہیں! ایسوسی ایشن کا اثر و رسوخ احتساب کے عمل میں بھی رکاوٹ ڈالتا ہے! اگر ہم احتساب کرتے ہوئے درست نتیجے پر پہنچ بھی جائیں تو بد قسمتی سے اگلا اقدام اٹھانا ان یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کے اثر و رسوخ اور مداخلت کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے۔ کسی سٹاف کو خراب کارکردگی کی بنا پر نوکری سے نکالنا کمپنی کے لیے ممکن نہیں!‘‘
یہ چشم کشا حقائق کسی عام مسافر کے ہیں نہ کسی صحافی کے۔یہ سب کچھ پی آئی اے کے اس وقت کے چیئر مین اعظم سہگل نے اگست 2016ء میں بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے وقت بتایا تھا۔ آج چار سال بعد بھی صورت حال مختلف نہیں۔ جہاز تیس ہیں اور حاصل شدہ معلومات کے مطابق ملازمین پندرہ ہزار سے کم نہیں‘ یعنی کم از کم گیارہ ہزار ملازمین جو تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں‘ زائد ہیں۔ ان کی ضرورت ہے نہ ان کے لیے کام ہے!!
پی آئی اے میں فی جہاز پانچ سو ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ذرا دوسرے ملکوں کی حالت دیکھیے اور پھر ملاحظہ فرمائیے کہ اگر حادثات میں ہماری ائیر لائن ''ممتاز‘‘ مقام رکھتی ہے تو تعجب ہی کیا ہے۔ ائیر انڈیا : ملازمین فی جہاز: 108۔ ٹرکش ائیر لائن : 81۔ الاطالیہ:128۔لفتھانسا(جرمن):194۔سنگاپورائیر لائن:220۔ برٹش ائیر لائن:178۔ایمیریٹس:220۔آئر لینڈ ائیر لائن:30۔گرودا (انڈونیشیا): 57۔ائیر چائنا:71۔ائیر نیوزی لینڈ: 102۔تائیوان ائیر لائن:125۔ جاپان ائیر لائن : 142۔مصر ائیر لائن: 143۔اتحاد: 149۔سعودی ائیر لائن: 153۔ ائیر فرانس:167۔ قطر ائیر ویز:180۔ ملائیشین ائیر لائن:182۔ سری لنکا ائیر لا ئن: 284۔ تھائی ائیر لائن:309۔
پوری دنیا میں صرف شام کی ائیر لائن ہے جہاں فی جہاز ملازمین کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ پاکستان کے پاس 30 یا 33 جہاز ہیں جب کہ انڈونیشیا کی ائیر لائن کے پاس 140 جہاز ہیں۔ ٹرکش ائیر لائن کا بیڑہ 298 جہازوں پر مشتمل ہے۔ الاطالیہ کے پاس 110‘ مصر کے پاس 63‘ اتحاد کے پاس 119‘ سعودی ائیر لائنز کے پاس 163‘ملائیشیا کے پاس 77‘ ایمیریٹس کے پاس 245 اور تھائی ائیر کے پاس 82 جہاز ہیں۔
سی اے پی اے (CAPA) ایک معروف بین الاقوامی تنظیم ہے جو ہوا بازی کے شعبے میں تحقیق کرتی ہے اور تجزیہ پیش کرتی ہے۔ یہ روزنامہ ''بلیو سوان‘‘ شائع کرتی ہے‘ جس میں مصدقہ اطلاعات مہیا کی جاتی ہیں۔یہ اخبار اپنی 2 اکتوبر 2018ء کی اشاعت میں لکھتا ہے ''پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات مسٹر فواد چوہدری نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ میں 28 اکتوبر 2018ء کو بتایا کہ پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد فی جہاز 500 سے اوپر ہے‘‘۔ آگے چل کر اخبار لکھتا ہے کہ وزیر اطلاعات نے مندرجہ ذیل اعداد و شمار ٹوئٹ کیے ہیں: مستقل ملازمین کی تعداد 14,800۔ روزانہ کی بنیاد پر ملازمین 3700۔ تعداد فی جہاز 500 سے زیادہ۔ مالی نقصان 2017ء: 45 ارب روپے(36 کروڑ ڈالر)۔ مجموعی (اوور آل ) نقصان356 ارب روپے (2.8 ارب ڈالر)۔
یہ ہے صورتحال پاکستان کی قومی ائیر لائن کی۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ دنیا میں کوئی کاروبار ‘ کوئی ادارہ اس طرح چل سکتا ہے کہ ضرورت چار یا زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار ملازمین کی ہو اور پرورش آپ پندرہ ہزار کی کر رہے ہوں؟ ادارہ مستقل نقصان میں ہو؟؟ یہ نقصان کون پورا کر رہا ہے؟ میں اور آپ ! ہمارے ٹیکسوں سے حکومت 45 ارب سالانہ کا نقصان اس سفید ہاتھی کا پورا کر رہی ہے اور دادا گیری کرنے والی نصف درجن یونینوں اور ایسوسی ایشنوں کی کفالت کر رہی ہے!
یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ واحد علاج اس مفت خوری کا نجکاری ہے۔یونین اور ایسوسی ایشنیں تو نجکاری کی مخالف ہیں ہی‘ سیاسی جماعتیں بھی‘ بالخصوص آج کی حزب اختلاف کی جماعتیں‘ نجکاری کی مخالف ہیں! کیوں؟ اس لیے کہ اپنے اپنے عہدِ اقتدار میں ان سیاسی جماعتوں نے ائیر لائنز کو اپنے اپنے جیالوں اور متوالوں کے لیے دسترخوان کے طور پر استعمال کیا۔ عشروں پر عشرے گزرتے گئے اور بھرتیاں بغیر کسی اشتہار کے‘ بغیر کسی مقابلے کے ہوتی رہیں۔ اپنے اپنے پسندیدہ‘ سفارشی‘ نا اہل افراد پچھلے دروازے سے داخل کیے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ مذہبی جماعتوں نے بھی جو سیاست میں تھیں‘ اس کارِ خیر میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔ قومی ائیر لائن وہ کیک تھا جسے چھری کانٹے سے کاٹ کاٹ کر اپنے اپنے ''مہمانوں‘‘ کوپیش کیا جاتا رہا۔ میرٹ کے قتل کی‘ اقربا پروری کی اور دوست نوازی کی اگر بدترین مثال اس ملک میں ہے تو وہ یہ ائیر لائن ہی ہے! ایسے میں اس ائیر لائن کا مستعد ہونا‘ وقت کا پابند ہونا اور حادثات سے پاک ہونا ممکن ہی نہیں! یہ دنیا دارالعمل ہے۔یہاں جو بویا جاتا ہے‘وہی کاٹا جاتا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پانچ سو افراد فی جہاز والی ائیر لائن‘ اُن ائیر لائنوں کی طرح چاق و چوبند ہو جن میں فی جہاز ملازمین کی تعداد دو سو یا زیادہ سے زیادہ تین سو ہو!!
نتیجہ سامنے ہے۔ یہ ائیر لائن ہمیشہ بڑے اور با اثر طبقات کی رکھیل بنی رہی۔ غالباً آخری بار ائیر مارشل نور خان تھے جنہوں نے وقت کے وزیراعظم کی ''فرمائش‘‘ کے باوجود پرواز لیٹ نہیں کی اور جہاز وقت پر اڑا۔ اس کے بعد شخصیات کو نوازنے کیلئے پروازوں کی تاخیر معمول بن گیا۔ یہ کالم نگار درجنوں ایسے مواقع کا گواہ ہے۔ ملتان کے ایک سیاست دان اُس وقت سپیکر تھے۔ جہاز لاہور کیلئے تیار تھا مگر اڑ نہیں رہا تھا۔ کسی کا انتظار ہو رہا تھا۔ کشور ناہید بھی اس جہاز میں بیٹھی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے احتجاج کیا اور پھر باقی مسافرں کو حوصلہ ہوا۔ ایک دوست کی بیٹی نیوزی لینڈ جا رہی تھی۔ اسلام آباد سے بنکاک تک پی آئی اے سے اور وہاں سے نیوزی لینڈ کا جہاز لینا تھا۔ پرواز غیر معمولی طور پر اسلام آباد سے تاخیر کے ساتھ چلی۔ کیوں؟ ایک اعلیٰ شخصیت کا انتظار کرتی رہی! جہاز بنکاک پہنچا تو لڑکی کا نیوزی لینڈ والا جہاز نکل چکا تھا۔ پھر ایسے مواقع پر ائیر لائن پہچاننے سے ہی انکار کر دیتی ہے! یہ کالم نگار پی آئی اے سے ایک بار نیویارک پہنچا۔ رات ہو گئی تھی۔ وہی غیر معمولی تاخیر! اگلا جہاز نکل چکا تھا۔ نیو یارک ہوائی اڈے پر جو خاتون اس ائیر لائن کے ڈیسک پر بیٹھی تھی وہ امریکہ ہی کی جم پل تھی۔ اس سے پوچھا کہ میرا کیا ہوگا؟ ایک مکروہ انگریزی لہجے میں اس نے کہا کہ یہ اس کا مسئلہ نہیں! یہی کچھ لندن میں ہوا۔ ہوٹل میں اگر ٹھہرائیں بھی تو بدترین ہوٹل میں!! ایک جنازے پر بھکر پہنچنا تھا۔ ایک ہی صورت تھی کہ ڈیرہ اسماعیل خان تک جہاز پر جائیں اور آگے سے بھکر تک گاڑی کا بندوبست ہو۔ (معلوم نہیں آج کل اسلام آباد سے ڈی آئی خان جہاز جاتا بھی ہے یا نہیں)۔ ٹکٹ لینے گئے تو بتایا گیا:بکنگ فل ہے! سر توڑ کوشش کر کے‘ کئی سفارشوں کے بعد نشست یعنی ٹکٹ ملا۔ اس پروردگار کی قسم! جس نے یومِ حشر جھوٹوں اور دغا بازوں کو جہنم میں ڈالنا ہے! جہاز چلا تو آدھے سے زیادہ خالی تھا!!
اس ائیر لائن کا اصل چہرہ دیکھنا ہو تو چترال‘ گلگت اور سکردو کے لوگوں سے پوچھیے! اس کالم نگار نے کچھ عرصہ پہلے تین اقساط میں اس ظلم کی تفصیل لکھی تھی۔ کتنے ہی مواقع پر‘ موسم کی خرابی کا یا ٹیکنیکل مسئلے کا بہانہ بنا کر جہازوں کو کسی دوسری سمت بھیج دیا جاتا ہے۔ شمالی علاقہ جات کے لوگ ایک ایک پرواز کے لیے کئی کئی دن انتظار کرتے ہیں اور بے پناہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
یہ تو مجموعی صورتِ احوال تھی اس ادارے کی! اب آتے ہیں تازہ ترین حادثے پر۔ اور اس انکوائری پر جو اس ضمن میں کی جا رہی ہے۔ اس کے متعلق ہم آپ کو کل کی نشست میں بتائیں گے۔