گزشتہ شب ِ جمعہ علامہ غلام محمد سیالویؒ وصال فرماگئے ‘وہ کافی عرصے سے لاہور میں مقیم تھے۔ رمضان المبارک کے آخری دنوں میں وہ کراچی میں اپنے ادارے ''شمس العلوم جامعہ رضویہ ‘‘ میں تشریف لائے ‘ انہیں عارضۂ قلب بھی تھا اور دمے کے مستقل مریض تھے ‘انہیں تکلیف ہوئی ‘ ٹیسٹ کیا گیا تو اُن کا کورونا مثبت آیا ۔ انہوں نے ہسپتال کے بجائے ادارے میں قیام کو ترجیح دی اور چند دن گزرنے کے بعد ان کا انتقال ہوگیا ‘ فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی خطائوں سے درگزر فرمائے اور اُن کے درجات کو بلند فرمائے‘ اُن کی طویل دینی ‘ علمی اور ملی خدمات کواُن کے لیے تاقیامت صدقۂ جاریہ فرمائے ۔علامہ غلام محمد سیالوی ؒخاندانی اعتبار سے علمی پسِ منظر نہیں رکھتے تھے ‘ اُن کا آبائی تعلق واں بچھراں ضلع میانوالی سے تھا۔ انہوں نے حضرت علامہ اللہ بخش ؒ سے تعلیم پائی‘ ان کی عصری تعلیم میٹرک تھی ۔ فراغت کے بعد وہ چکوال کے ایک ادارے میں مدرس مقرر ہوئے ‘ وہیں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے ‘ کراچی میں علامہ محمد طفیلؒ نے شمس العلوم جامعہ رضویہ قائم کیا تھا۔ 8دسمبر1978ء کواپینڈکس کے آپریشن کے دوران اچانک ان کا انتقال ہوگیا ‘ان کے بچے چھوٹے تھے۔ اس اثناء میں علامہ غلام محمد سیالویؒ مدرّسی کی تلاش میں کراچی تشریف لائے ‘ علامہ محمد طفیل مرحوم اور کراچی کے چند دیگر علماء اُن کے استاذ بھائی تھے؛چنانچہ استاد بھائیوں نے باہمی مشورے سے شمس العلوم جامعہ رضویہ علامہ سیالویؒ کے حوالے کردیا۔اُن پر مُضطر خیر آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے: ؎
خدا کی دَین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں‘ پیمبری مل جائے
وہ منصبِ تدریس کی تلاش میں آئے تھے ‘اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر سے انہیں بنا بنایا مدرسہ عطا کردیا ‘ پھرانہوں نے اپنی صلاحیتوں سے کام آگے بڑھایا ۔1980ء کے عشرے میں انہیں ''تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان‘‘ کا ناظمِ امتحان مقرر کردیا گیا ۔ ہم بھی اُن کے ساتھ امتحانی بورڈاور پالیسی سازی میں شریک تھے ‘ لیکن عملاً فرائض وہ انجام دیتے تھے ۔2014ء میں تنظیم کی مجلس ِ عاملہ نے انہیں پالیسی سازی کے لیے چیئرمین امتحانی بورڈ بنادیا اور عملی کام کے لیے ایک مستقل کل وقتی ناظمِ امتحانات مقرر کردیا‘تاکہ اُن پر کام کا بوجھ نہ رہے‘ تنظیم نے ان کی طویل خدمات کے اعتراف کے طور پرانہیں عمرے کا ٹکٹ دیا اور اعزازی شیلڈ بھی پیش کی۔ وزارتِ تعلیم کے تحت متفقہ ترجمۂ قرآنِ کریم کے پروجیکٹ پر علامہ سید ارشد سعید کاظمی کے ساتھ علامہ سیالوی نے بھی اہلسنت کی مؤثر نمائندگی کی۔ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے جنابِ نواز شریف کووزارتِ عظمیٰ سے معزول کیا ‘ تو علامہ غلام محمد سیالوی نے اُن کی حمایت کی ٹھانی اور اُن کے اعزاز میں بالترتیب کراچی ‘لاہور اور راولپنڈی میں مجلسِ عمل علمائے اہلسنت کے پلیٹ فارم سے علما ومشایخ کنونشن منعقد کیے۔ مجاہدِ ملت علامہ عبدالستار خان نیازی مرحوم نے قائدِ اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ سے علیحدگی اختیار کر کے جمعیت علمائے پاکستان کا اپنا دھڑا بنایا تو علامہ غلام محمد سیالوی صاحبزادہ فضلِ کریم مرحوم کے ساتھ اُن کا حصہ بن گئے ‘ پھر 1997ء میں مسلم لیگ ن کو دوتہائی اکثریت ملی ‘ علامہ غلام محمد سیالوی کو میاں نواز شریف کی قربت حاصل تھی ‘ میاں صاحب نے انہیں پاکستان بیت المال کا چیئرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنادیا ۔سیاسی ذوق رکھتے تھے ‘وہ مسلم لیگ ن میں باقاعدہ شامل تو نہیں ہوئے‘ لیکن '' وفاداری بشرطِ اُستواری ‘‘پر عمل کرتے ہوئے شریف برادران سے وابستہ رہے ؛ چنانچہ جب 2008ء میں پنجاب میں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تو میاں شہباز شریف نے انہیں ''پنجاب قرآن بورڈ ‘‘کا چیئرمین بنادیا اور وہ تا حیات اس منصب پر فائز رہے ۔ صاحبزادہ فضلِ کریم مرحوم جومسلم لیگ (ن) کے ایم این اے تھے اور اس سے پہلے صوبائی وزیر بھی رہ چکے تھے ‘ شریف برادران سے بد دل ہوگئے اور اُن کیخلاف اسلام آباد تا لاہور ریلی نکالی ‘ اس کے نتیجے میں علامہ سیالوی کی راہیں صاحبزادہ فضلِ کریم سے سیاست کے میدان میں جدا ہوگئیں ۔ 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں وہ ایک بار پھر اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بنے ؛چنانچہ اپنے وصال کے وقت وہ تنظیم المدارس کے چیئرمین امتحانی بورڈ‘چیئرمین پنجاب قرآن بورڈ ‘ رُکن اسلامی نظریاتی کونسل اور شمس العلوم جامعہ رضویہ کراچی کے مہتمم تھے۔علامہ غلام محمد سیالوی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے ‘ انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اپنے لیے راہِ عمل منتخب کی اور کامیابی کی منزلیں طے کیں ۔ تنظیم المدارس میں وہ ہمارے انتہائی معتمد رفیق اور سینئر ساتھی تھے ‘ ہم نے طویل عرصے اس میدان میں اکٹھے کام کیا ہے‘ ہمارے درمیان محبت اور اعتماد کا رشتہ قائم رہا ؛ البتہ سیاست میں ہم اُن کے شریکِ سفر نہ بن سکے ‘ لیکن اُن کی سیاسی وابستگی ہمارے تنظیمی اور باہمی تعلقات میں کبھی حائل نہیں ہوئی ‘نہ انہوں نے اس حوالے سے ہمیں ہمنوا بنانے کی کوشش کی۔ میں نے روزنامہ '' دنیا‘‘ میں 2014ء میں کالم لکھنا شروع کیا‘ وہ میرے مستقل قاری تھے ‘ ہفتے اور پیر کو میرا کالم چھپتا ہے ‘ باقاعدگی سے ان کا ٹیلی فون آتا ‘ کالم کی تحسین کرتے اور کہتے کہ بعض پہلو تشنہ رہ گئے ہیں ‘ نقد ونظر اُن کا ذوق تھا اور اس پراُن کو ملکہ بھی تھا‘ میں اُن سے کہتا '' کالم کی جگہ محدود ہوتی ہے ‘ اس میں کسی بھی موضوع کے تمام پہلوئوں کا احاطہ ممکن نہیں ہوتا‘بس اتنا بتائیں کہ جو لکھا گیا ہے‘ اس میں کوئی جھول تونہیں ‘ وہ حوصلہ افزائی کرتے اور تحسین فرماتے ‘ فطری طور پر مجھے خوشی ہوتی ‘‘۔تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان میں اُن کا اور ہمارا سفر ساتھ ساتھ رہا ‘ جب تنظیم کی صدارت کی ذمے داری مجھے تفویض ہوئی ‘ تو مجھے قدم قدم پر اُن کی مکمل تائید وحمایت حاصل رہی ۔ وہ طبعاً نقاد تھے ‘ حاضر دماغ تھے ‘ مخالفین کو ساکت کرنے اور الزامی جواب دینے کا ملکہ قدرت نے انہیں عطاکیا تھا‘ وہ نقد ونظرمیں کافی حد تک بے لحاظ بھی تھے ‘ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی مجلسِ عاملہ میں وہ ہمارے ساتھ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے‘ ان کا خلا تادیر محسوس کیا جاتا رہے گا۔ انہوں نے جوہر ٹائون لاہور میں پانچ پانچ مرلے کے دو‘دو منزلہ مکانات بنالیے تھے ؛ چنانچہ جب وہ 1997ء میں پاکستان بیت المال کے چیئرمین بنے تو فیملی سمیت لاہور منتقل ہوگئے‘ پھرکچھ عرصے کے لیے واپس کراچی آئے ‘ مگر جب پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین بنے تو پھر فیملی سمیت مستقل طور پر لاہور شفٹ ہوگئے ‘وہیں سے اپنے مدرسے کی خبر گیری اور سرپرستی کرتے رہتے‘ لیکن ظاہر بات ہے : ''شنیدہ کے بود مانند دیدہ ‘‘ ‘ انسان کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو ‘ غیاب میں وہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا‘ جو حضوری میں ممکن ہے ۔ اس لیے اکثر کہتے ''میں تنظیمی اور سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اپنے ادارے پر توجہ نہ دے سکا ‘‘؛ حالانکہ دوسروں کے اداروں پروہ بڑی بے رحمی کے ساتھ تنقید کرتے تھے ۔وہ درسِ نظامی کے علوم وفنون کے ایک ماہر مدرس تھے ‘ لیکن تنظیم المدارس کے ناظم امتحانات کا منصب سنبھالنے کے سبب اور دیگر گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے وہ تدریس کا کام جاری نہ رکھ سکے ‘ لہٰذااُن سے جو فیض بعد والوں کو مل سکتا تھا‘ وہ نہ مل سکا اور وہ اچھے رجالِ کار تیار نہ کرسکے ۔علامہ صاحب کے پسماندگان میں دوصاحبزادگان ‘تین صاحبزادیاں اور ایک بیوہ ہیں ‘ بڑے صاحبزادے ‘ صاحبزادیاں اور بیوہ اُن کا آخری دیدار نہ کرسکے ‘ کیونکہ وہ لاہور میں مقیم تھے اور کورونا وائرس کی وبا کے اثرات کے باعث فوری سفر ممکن نہ تھااور سب نے باہمی مشورے سے یہی مناسب سمجھا کہ شریعت کے مطابق ‘ان کے جنازہ اور تدفین میں تاخیر نہ کی جائے؛ چنانچہ شب ِ جمعہ پچھلے پہر ان کا انتقال ہوااور قبل نمازِ جمعہ سواایک بجے اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور مجھے ان کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی‘ اُن کی تدفین شمس العلوم جامعہ رضویہ میں ہوئی اور وہیں ان کی آخری آرامگاہ ہے۔ ہر عالم کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولادمیں اُن کا کوئی جانشین پیدا ہو‘ لیکن بعض اوقات تقدیر کے معاملات تدبیر اور خواہشات پر غالب آجاتے ہیں ‘ کسی نے بجا کہا ہے : ''تدبیر کند بندہ ‘ تقدیر زند خندہ‘‘ ۔اُن کے صاحبزادگان میں سے کوئی عالم نہ بن سکا ‘جو اُن کے دینی مشن کو آگے بڑھاتا اور یہ ایسا خلا ہے ‘جو کئی خانوادوں میں نظر آتا ہے۔ یہ اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں ‘ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور اللہ اپنے فیصلے پر غالب ہے ‘لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ (یوسف:21)۔
علامہ غلام محمد سیالوی نے ایک فعال ‘ متحرک ‘ توانا اور بھرپور زندگی گزاری ‘ اگر عالمِ بالا کی جانب سفر سے پہلے انہیں پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کے شب وروز کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ‘توشاید انہیں کوئی تاسف نہ ہوتا کہ کاش میں یہ بھی کرلیتا ‘وہ بھی کرلیتا ؛ اگرچہ انسان کی خواہشیں اکثر ناتمام ہی رہتی ہیں ‘ غالب ؔنے کہا ہے:؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان‘ لیکن پھر بھی کم نکلے
مجھے اَسفار میں بڑی دشواری ہوتی ہے اور صرف ناگزیر ضرورتوں کے لیے ہی اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سفر کرتا ہوں ‘ مگر علامہ غلام محمد سیالوی ؒ بکثرت اَسفار کیا کرتے اور اس کا اُن کی طبیعت پر ہرگز کوئی ملال نہ ہوتا ‘ اُن کا حلقۂ احباب بھی کافی وسیع تھا ۔میں تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے سرپرستِ اعلیٰ شیخ الحدیث علامہ ابوالخیر سید حسین الدین شاہ صاحب ‘ سینئر نائب صدر شیخ الحدیث علامہ صاحبزادہ سید ارشد سعید کاظمی ‘ناظمِ اعلیٰ صاحبزادہ علامہ محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی اور مجلسِ عاملہ کے تمام اراکین ‘تمام مرکزی وصوبائی عہدیداران کی جانب سے ان کے پسماندگان اور جمیع خواص وعوامِ اہلسنت کو صبر کی تلقین کرتا ہوں ۔ میں نے ان کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے اپنے فیس بک پیج پر تمام علماء ومشایخِ اہلسنت سے اپیل کی تھی کہ اپنے اپنے مقام پراُن کے لیے ایصالِ ثواب اور تذکارِ خیر کی مجالس منعقد کریں ‘ ان شاء اللہ حالات بہتر ہونے پر ان کی خدمات کوخراجِ تحسین وعقیدت پیش کرنے کے لیے ایک وسیع تر نمائندہ مجلس کا انعقاد کیا جائے گا۔