تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-06-2020

Step Back

لائن آف کنٹرول (ایل اوسی)کے دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر کے گائوں پنجگام کے نوجوان جب اپنی مدد آپ کے تحت تیار کی گئی گرائونڈ میں کھیلنے کیلئے دن چڑھے گھروں سے نکلے‘ تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں انڈین آرمی کے افسروں اور سپاہیوں سے لدی پھندی بھاری توپیں اور گاڑیاں کھڑی ہیں ‘جن کا رخ آزاد کشمیر کی جانب تھا ۔ لڑکے گرائونڈ کے اندر جانے لگے تو بھارتی فوجیوں نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا گیا‘ جس پر گائوں کے نوجوان لڑکے ان فوجیوں کی اپنی جانب تنی ہوئی گنوں کی پروا‘ نہ کرتے ہوئے بھاگ کر 155mm کی بوفورز توپوں کی لمبی لمبی بیرلز پر چڑھ گئے‘ جس پر فوجیوں نے انہیں خوف زدہ کرنے کیلئے فائرنگ شروع کر دی‘لہٰذا فائرنگ کی آواز سن کر گائوں کے لوگ گھبرا کر اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلے تو دیکھا کہ گرائونڈ میں کھڑی توپوں سے کچھ دور ان کے بچے اور فوجی گتھم گتھا ہو رہے ہیں‘ جبکہ کچھ لڑکے دور کھڑے انڈین آرمی کے افسروں اور سپاہیوں کا گھیرائو کیے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کے دوسرے گروہ نے بندوقیں اٹھائے فوجیوں کو اپنی جانب لپکتا دیکھ کر بھاگنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے Step Back‘ Step Back کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ کہنے کا مطب ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ایل او سی کے ملحقہ دیہات میں انڈین آرمی اور ان کی بوفورز توپوں کی بھاری بھر کم نالیوں کے اوپر چڑھ کر قابض بھارتی فوجی افسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر Step Back جیسا نعرہ پہلی دفعہ دیکھنے اور سننے میں آ رہا تھا ۔ اس واقعہ کی چند گھنٹوںبعد وائرل ہونے والی ویڈیو نے پنجگام کے لڑکوں اور ان کے والدین کے ہمت و حوصلے کی دھاک پوری دنیا پر بٹھا دی ۔ 
انسانی حقوق کے نام سے نا آشنا بھارتی سرکار اور افواج‘ جو دن دہاڑے مقبوضہ کشمیرکے باسیوں کو زبردستی اٹھا لے جاتے ہیں‘ جہاں قدم قدم پر ٹارچر سیل ہوں‘ جہاں کسی بھی قانون اور عدالت کا وجود نہ ہو‘ وہاں ان لڑکوں کی جرأت و بہادری کے مناظر دیکھتے ہوئے اس تصور میں کھو گیا کہ وہ دن دور نہیں کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی تکلیفیں پریشانیاں اور مصائب کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں آزادی جیسی نعمت سے نوازے گا‘ وہ دن انسانیت کی آزادی کا روشن دن ہو گا‘ وہی دن انصاف اور انسانی حقوق کے حقیقی احترام کا دن سمجھا جائے گا۔ اس ویڈیو میں ان لڑکوں کے ساتھ بھارتی فوجیوں سے الجھتی اور جھگڑتی ہوئی مرد اور خواتین کا حوصلہ بھی دیدنی تھااور وہ منظر اس شمع آزادی کی جلتی ہوئی لو میں اس نا قابل ِیقین فلم کے منا ظر کی طرح صاف دیکھے جا رہے تھے‘ جس میں محکوم کشمیری بچے بوڑھے مرد اور عورتیں ایک ساتھ مل کر بھارتی فوجیوں کی پلے گرائونڈ میں کھڑی بوفورزتوپوں کو الٹانے کی کوششیں کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔ خرم پرویز کشمیری نوجوان جو جموں کشمیر کولیشن سوسائٹی کے پروگرام کوارڈی نیٹر ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ انڈین آرمی کی جانب سے بھاری توپ خانے کو ضلع کپواڑہ کے مسلم اکثریتی گائوں پنجگام کے اندرنصب کیا جانا‘ جنگی جرائم میں آتا ہے اور اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی ہیومن رائٹس تنظیموں سمیت یورپی یونین اور دولت مشترکہ کو انڈین آرمی کے اس جرم کا فوری نوٹس لینا ہو گا۔ 155mm کی بوفورز توپوں کو گائوں کے اندر نصب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس گائوں میں بسنے والے کشمیری مسلمانوں کو جن کے رشتہ دار دوسری جانب رہتے ہیں‘ انہیں انسانی شیلڈ کے طو رپر استعمال کیا جائے ‘جوسراسر جنگی جرم ہے ۔
مڈل ایسٹ آئی کے نمائندے نے پنجگام میں اس ویڈیو کے حقائق جاننے کے بعد نئی دہلی میں شریمی گھوش ایڈووکیٹ سے ان کی رائے پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر جان بوجھ کر بھارتی فوج کسی گائوں یا اس کی آبادی کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کرنے کیلئے وہاں توپیں نصب کر تی ہے تو یہ جنگی جرائم کی اصطلاح میں آئے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے جرائم پر اقوام عالم کی خاموشی ایک مکروہ نشان چھوڑ رہی ہے ۔ کوئی چھ ماہ ہوئے کپواڑہ میں فاروق ڈار نامی ایک کشمیری نوجوان کو جس بھارتی میجر نے اپنی جیپ کے ہڈ پر باندھ کر اسے دوردراز علاقے کی گلیوں بازاروں اور سڑکوں پر گھماتے ہوئے انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کیا اس میجر کو سزا دینے کی بجائے اس وقت کے انڈین آرمی چیف نے تعریفی سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے کہ کشمیری مسلمانوں کو سبق سکھانے کیلئے آئندہ بھی اس طرح کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ بھارتی فوج شاید نہیں جانتی کہ کشمیری مائیں اب وہ بیٹے بیٹیاں جنم دینا چھوڑ چکی ہیں‘ جن کے ہیرو شاہ رخ ‘امیتابھ بچن یا سلمان خان ہوا کرتے تھے۔ اب‘ ان کے بیٹوں کے ہیرو برہان وانی‘ ریاض نائیکو اور جمشید جیسے سرفروش اور مجاہد بن چکے ہیں۔ 
ضلع کپواڑہ کے مسلم اکثریتی گائوں پنجگام کی گرائونڈ میں کھڑی بو فورز توپوں میں سے ایک کو جب گائوں والوں کی جانب سے الٹا یا جانے لگا توبھارتی فوج کے افسران کیلئے یہ ایک نیا درد سر تھا‘کیونکہ انہیں تو حکم تھا کہ اس گائوں کے لوگوں کو انسانی شیلڈ بناتے ہوئے دو مقاصدحاصل کئے جائیں گے ‘ہماری توپوں کی گولہ باری سے آزاد کشمیر میں جو بھی تباہی ہو گی‘ وہ پاکستانیوں کی ہو گی‘ اگر کسی طرح پاکستانی فوجی ان بوفورز توپوں کی لوکیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو نے کی صورت میں جوابی گولہ باری کریں گے تو ان کے راکٹوں اور گولہ باری سے پنجگام کے مسلمانوں کے گھر اور کاروباری املاک تباہ اور انسانی جانیں ضائع ہوں گی ‘یعنی دونوں طرف کے مسلمان ہی نشانہ بنیں گے۔ پنجگام گائوں کی خواتین اور مردوں سمیت بچوں کی ہمت اور بے خوفی کی داد دینی ہو گی کہ بھارتی فوج کی سنگینوں اور کلاشنکوفوں کی تڑ تڑاہت بھی ان کے پائے استقلال میں جنبش نہ لا سکی اور وہ سینہ تان کر ان بوفورز توپوں کے آگے کھڑے رہے۔ان کو بندوقوں کے دستوں سے مارا گیا‘ لیکن زخمی ہونے کے با وجود بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر بھاگنے کی بجائے پہلے سے زیا دہ شدت سےStep Back کے نعرے لگاتا ہوئے بھارتی فوجیوں کے سامنے ڈٹے رہے۔ یہ کوئی ہالی وڈ کا فلمی منظر نہیں تھا‘ نہ ہی بالی وڈ کی بنائی جانے والی جعلی فلموں یا ان کے کسی ڈرامے کا کوئی منظر نامہ تھا‘ بلکہ نہتے اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور سکیورٹی فورسز کے حصار میں قید گوشت پوست کے انسانوں کی جرأت عزم کے نا قابل ِفراموش منا ظر اور 80 لاکھ کشمیریوں کے ماتھے پر جلد ہی سجنے والے آزادی کا جھومر ہے ‘جو72 برس سے محکوم و مظلوم انسانوں کی درد ناک داستان بن کر زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں ۔سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں ڈیڑھ لاکھ پولیس اور بارڈر سکیورٹی فورس اور جگہ جگہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں ان کے مخبروں کے حصار میں مقید کشمیری مسلمان سوپور‘ پہلگام‘ پنجگام‘ گلمرگ‘ سونمرگ ‘ شوپیاں‘ کپواڑہ ‘ ہندواڑہ اور سری نگر کے طول و عرض میں سات دہائیوں سے اپنے خون سے جو تاریخ لکھ رہے ہیں‘ اس کا ایک باب پنجگام کی اس گرائونڈ میں بھارتی فوجیوں کی سنگینوں اور توپوں کے سامنے کھڑے Step Back جیسے نعرے لگا رہا تھا‘ جس کی ابتدائی تفصیلات نے کورونا وائرس کے با وجود سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved