قدرت کے کھیل نرالے ضرور ہیں‘ ناقابلِ فہم ہرگز نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتے ہیں؟ قدرت کا ہر معاملہ دانش اور حکمت کے تابع ہے۔ ہر معاملے کو اُس کی اصل کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ متعلقہ فرد یا افراد میں ادراک کی صلاحیت ہے یا نہیں؟
کورونا وائرس کی وبا نے بہت کچھ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا‘ اُس نے شدید منفی ہی نہیں‘ چند ایک مثبت اثرات بھی پیدا کیے ہیں۔ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد کم رکھنے کے نام پر جو کچھ کیا گیا ہے ‘اُس کے نتیجے میں معاشی اور معاشرتی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ متعلقہ بحث کے دوران یہ نقطۂ نظر انداز کردیا جاتا ہے‘ ہم میں بہت سی معاشی اور معاشرتی خرابیاں خاصی خطرناک حالت میں پہلے ہی سے موجود ہیں۔ ایسے میں کورونا کی پیدا کردہ پریشانیوں نے بہت سوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
دو ڈھائی ماہ کے دوران پاکستانیوں کو غیر معمولی الجھنوں کا سامنا رہا ہے۔ بیشتر الجھنیں کورونا وائرس کے بطن سے ہویدا ہوئی ہیں۔ لاک ڈاؤن نے معیشت کا پہیہ ایسا جام کیا کہ لینے کے دینے پڑگئے۔ لوگ اب تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔ وہ ڈھائی ماہ سے گھروں میں بند ہیں۔ ایسے میں بڑی عمر والوں کا کم اور نئی نسل کا حال زیادہ بُرا ہے۔ نفسی الجھنیں جنم لے رہی ہیں۔ محض فارغ بیٹھے رہنے سے ذہن الجھ کر رہ گئے ہیں۔
یہ تو ہوا معاشرتی پیچیدگی کا معاملہ۔ معاشی الجھنیں بھی کم نہیں۔ بہت سوں کا ذریعۂ معاش ختم سا ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں‘ جنہوں نے کوئی کاروبار شروع کیا ہی تھا کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں لاک ڈاؤن کے مرحلے سے گزرنا پڑا یعنی پوری سرمایہ کاری برباد ہوگئی۔ یہ سب کچھ بہت افسوس ناک ہے کیونکہ لاکھوں افراد کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں‘ جنہوں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اُن کے لیے تو معاملہ بہت سنگین ہے۔
یہی ہمارے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ ہمارے معاشی اور معاشرتی رویے شدید پیچیدگیوں سے دوچار ہیں۔ عام پاکستانی بعض معاملات میں بہت اچھا اور بعض معاملات میں بہت ہی بُرا رویہ اختیار کرتا ہے۔ مصیبت کی گھڑی میں پاکستانی ایک دوسرے کی مدد کرنے سے نہیں ہچکچاتے ‘مگر دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عام حالات میں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے ‘یعنی مالی منفعت کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ اتنا زبردست تضاد دنیا میں کہیں اور شاید ہی دیکھنے کو ملے۔
لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں رویے بہت پیچیدہ رہے۔ امداد کے حصول کے نام پر لوگوں نے غیر معمولی حرص کا مظاہرہ کیا۔ نادار افراد ضرورت سے کہیں بڑھ کر راشن بٹورتے دکھائی دیئے۔ ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں کہ کسی نے مختلف خیراتی اداروں سے رابطہ کرکے کئی کئی من اضافی اناج بٹور لیا۔ یہ سب کچھ شدید اضطراب کا نتیجہ تھا۔ کسی کو جیسے اس بات کا یقین ہی نہیں تھا کہ بات صرف آج کی نہیں‘ کل بھی کھانے کو ملے گا۔ سوال اپنے پر بے اعتباری سے کہیں بڑھ کر اللہ پر یقین کا ہے۔ ہر حال میں رزق عطا کرتے رہنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کا ہے ‘مگر ہمیں اس وعدے پر یقین نہیں رہا۔
یہ وقت اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہے۔ کورونا کی پیدا کردہ صورتِ حال نے ایک طرف بہت سی الجھنیں پیدا کی ہیں ‘مگر دوسری طرف ہمیں اصلاحِ احوال کا راستہ بھی تو دکھایا ہے۔ ہماری بہت سی معاشرتی سطح کی الجھنیں ہمارے معاشی رویوں کو بھی داغدار کر رہی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ایسے لوگوں کی کسی طور اعتبار سے کمی نہیں ‘جو دولت کی پوجا کرتے ہیں۔ دنیا کے حصول ہی کو سب کچھ گردانتے ہوئے آخرت کو بظاہر فراموش کردیا گیا ہے۔
تضاد ایسا ہے کہ جو دیکھے حیران رہ جائے۔ پاکستان میں جب بھی کوئی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے‘ تب لوگ دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران بھی یہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ کِھلانے پلانے کے معاملے میں پاکستانی واقعی بڑے دل کے واقع ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اتنی بڑی خوبی کے باوجود یہی پاکستانی عمومی معاشی معاملات میں قدرے غیر متوازن رویہ اختیار کرتے ہیں۔ تاجر منافع خوری سے گریز نہیں کرتے اور اجرتیں وصول کرنے والے متعلقین کی کھال اتارنے پر تُل جاتے ہیں۔ اوصافِ حمیدہ کے تمام خوش گوار اثرات اوصافِ خبیثہ دبوچ لیتے ہیں۔ فکر و عمل کے اس تضاد نے ہمیں ہر معاملے میں تماشا بنادیا ہے۔ یہ تماشا اب ختم ہونا چاہیے!
کورونا کی وبا نے جو حالات پیدا کیے اُن کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ سب سے پہلے تو اِس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یومیہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنا کسی بھی اعتبار سے کوئی پسندیدہ اور قابلِ ستائش عمل یا طریق نہیں۔ معاشرتی معاملات کی طرح معاشی امور میں بھی ہمیں مستحکم اور متوازن رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ کورونا کی وبا ہمیں تحریک دیتی ہے کہ زندگی کے بارے میں مجموعی طرزِ فکر و عمل پر غور کریں‘ جہاں کوئی بڑی خامی دکھائی دے وہاں معاملے کو درست کریں اور زندگی کو مجموعی طور پر زیادہ سے زیادہ متوازن بنانے پر متوجہ ہوں۔
ایڈہاک ازم کی بنیاد پر زندگی بسر کرنے والوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمیں آج کل انہی مشکلات کا سامنا ہے۔ اجتماعی سوچ یہ ہے کہ یوں جیا جائے گویا سب کچھ آج ہی آج ہے‘ کل کچھ بھی نہیں۔ ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
سوچ کا بدلا جانا لازم ہے۔ ایڈہاک ازم کی بنیاد پر کچھ مدت تک تو معاملات نمٹائے جاسکتے ہیں‘ زندگی ڈھنگ سے نہیں گزاری جاسکتی۔ زندگی بہت بڑا معاملہ ہے‘ بلکہ انسان کے لیے زندگی ہی تو سب سے بڑا معاملہ ہے۔ اِس کے ہر پہلو کو توجہ بھی درکار ہے اور توازن بھی۔ بھرپور توجہ کے ساتھ پیدا کیے جانے والے توازن کے بغیر ہم زندگی کا معیار بلند کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اہلِ پاکستان کو زندگی کے تمام بنیادی تقاضے نبھانے کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ سنجیدگی زندگی کے ہر معاملے سے جھلکنی چاہیے۔ جن کے ہاتھ میں طاقت ہے وہ ہمارے مقدر سے‘ ہماری زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ ہماری بقاء کا مدار دوسروں کی مرضی اور طاقت پر ہے۔ کوئی ہم سے غیر ضروری فائدہ اسی وقت اٹھا سکتا ہے جب ہم اسے ایسا کرنے دیں ‘یعنی اِتنے کمزور اور مجبور ہوں کہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔
وقت کے تقاضوں کو نبھانے کے حوالے سے غیر معمولی‘ بلکہ قابلِ رشک حد تک سنجیدہ ہونے کا وقت آچکا ہے۔ کورونا کی پیدا کردہ صورتِ حال نے ہمیں بہت سے معاملات میں انتہائی ہدف پذیر ثابت کیا ہے یعنی صورتِ حال ہم پر تیزی سے اور خطرناک حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے جو بج چکی ہے۔ لازم ہے کہ ہم اِس موڑ پر خود کو بدلنے کا محض فیصلہ نہ کریں ‘بلکہ اُس فیصلے پر عمل بھی کر گزریں۔ زندگی کے کوئز میں اب غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔ اب ‘ہر سوال کا بالکل درست جواب دینا ہے۔