تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     02-06-2020

کورونا سے ٹڈی دَل‘ معیشت کی تباہی

کورونا بے قابو ہوتا جارہا ہے‘ متاثرین کی تعداد تہترہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اموات ساڑھے پندرہ سو سے بڑھ چکی ہیں۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کورونا کے متاثرین اور اس سے مرنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے۔ عوام و خاص احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے معاملے میں لاپروا نظر آتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر سے ملنے والی اطلاعات کْچھ اچھی نہیں ہیں۔ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز حفاظتی سامان کی عدم دستیابی پر احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں‘ اُدھر سندھ اور وفاقی حکومت باہم دست وگریبان ہیں اورالزام تراشی میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اور اٹھارہویں ترمیم کے پیچھے چھپ کر اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نظر آتے۔اس دوران گزشتہ روز نیشنل کمانڈاینڈ آپریشن سنٹر میں ایک بریفنگ اٹینڈ کرنے کا موقع ملا ۔یہ ادارہ کورونا کے بعد کرائسس مینجمنٹ سیل کی طرزپر فوری طور پر تشکیل دیاگیاہے اور یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ ادارہ تشکیل نہ دیا جاتا تو وفاقی سطح پر اٹھارہویں ترمیم کے بعد ایسا کوئی فورم نہیں تھا جہاں بیٹھ کر وفاق اور صوبے مل بیٹھ کر قومی حکمت عملی وضع کرسکیں ۔
این سی او سی کے لیے کمیونی کیشن سٹریٹجی کے روح ِرواں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخارہیں جو خاموشی سے اپنا کام کرتے نظرآتے ہیں اور میڈیا سے بھی کْچھ دور رہنے کے متمنی ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر میں سول اورعسکری قیادت موجود تھی‘ این سی او سی کے سربراہ وفاقی وزیر اسد عمر وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ‘ لیفٹیننٹ جنرل حمودالزماں‘ وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ ‘ ڈاکٹر ظفر مرزا ‘ڈاکٹر فیصل اور دیگر حکام نے سینئر صحافیوں کو کورونا کے تدارک کے لیے ملک بھر میں اٹھائے جانے والے اقدامات‘ صوبوں اور ہسپتالوں کو فراہم کیے جانے والے سامان اور آلات کی تفصیلات بارے آگاہ کیا اور دو گھنٹے سے زائد کی نشست میں تمام سوالوں کے جوابات دیے۔ بریفنگ میں بتائے جانے والے اعدادوشمار نہ صرف حوصلہ افزا تھے بلکہ کورونا کے پھیلاؤ کے بارے میں لگائے جانے والے اندازوں سے ابھی تک ہم بہت بہتر پوزیشن میں نظر آئے‘ مثال کے طور پر ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کو فراہم کیا جانے والا سامان ان ہسپتالوں کی ڈیمانڈ سے زیادہ بھیجا گیا اور این سی او سی کے ریکارڈ کے مطابق ابھی بھی ہسپتالوں میں سامان سر پلس ہے‘ جبکہ وینٹی لیٹرز کی بھی وافر تعداد موجود ہے اور اب بھی ملک بھر میں مریض کم اور وینٹی لیٹرز زیادہ ہیں‘ جبکہ این ڈی ایم اے کے پاس بہت بڑی مقدار میں مزید سامان بھی موجود ہے۔
مگر کم و بیش تمام شریک صحافی اس بات پر متفق تھے کہ انہیں ملک بھر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق زمینی حقائق مختلف ہیں اور ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹرز حفاظتی سامان کی عدم دستیابی اور کمی کا رونا رو رہے ہیں۔ آخر اس بدنظمی اور عدم موافقت کی وجہ کیا ہے؟ یہ بات بھی حکام کے علم میں لائی گئی کہ یہ سامان ہیلتھ ورکرز کو ملنے کے بجائے بازاروں میں فروخت ہورہا ہے ‘ اس کام میں کون کون ملوث ہوسکتا ہے‘ اس کا پتا لگانا چاہیے۔ اس مشاہدے کو حکام نے خارج از امکان قرار نہیں دیا۔حکام کی گفتگو سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں تھا کہ اب لاک ڈاؤن کا آپشن استعمال کرنے کا امکان کم ہی ہے اور اب قوم کو کورونا کے ساتھ زندگی گزارنے کے گْر سکھانا ہیں‘ کیونکہ لاک ڈاؤن کرنے اور نہ کرنے والے ممالک میں نتائج کْچھ مختلف نہیں ہیں۔ اس لیے معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنا اشد ضروری ہے تاکہ ہم بھوک ‘افلاس اور بیروزگاری کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ دوسری جانب سندھ اور بلوچستان اب بھی لاک ڈاؤن کی طرف جانا چاہتے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ارسال کی گئی تازہ سمری میں خبردار کیاگیا ہے کہ صرف لاہور میں ایک محتاط جائزے کے مطابق سات لاکھ کورونا کے مشتبہ مریض ہوسکتے ہیں۔
کورونا کی آفت پر ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں بادلِ نخواستہ متحرک نظر آتی ہیں‘ لیکن کورونا سے بھی بڑا عذاب ٹڈی دَل کی صورت میں ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت پر حملہ آور ہوچکا ہے۔ چونکہ ٹڈی دَل صرف کھیتوں کھلیانوں اور دیہاتوں میں تباہی مچا رہا ہے ‘ شاید اس لیے یہ مسئلہ ہمیں قومی ذرائع ابلاغ پر بھی اس طرح نظر نہیں آرہا جیسا کہ اسے آنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہروں میں بسنے والے اکثر بابو اس کی سنگینی سے آگا ہ نہیں ہیں۔ میرا پس منظر چونکہ کاشتکاری کا ہے اور سندھ اور جنوبی پنجاب کے کم وبیش تمام اضلاع سے جو اطلاعات آرہی ہیں وہ کافی خوفناک ہیں۔ اب تک لاکھوں ایکڑ کھڑی فصلیں اور باغات کو ٹڈی دَل کھا پی کر ڈکار مارچکی ہیں۔ اس وقت ٹڈی دَل کے حملے کسی حاکم وقت اور فیصلہ کن قوتوں کو شاید نظر نہیں آرہے اور بے زبان کسانوں کی رسائی بھی بڑے ایوانوں تک نہیں ہے اور نہ ہی قومی ذرائع ابلاغ کے اعلیٰ حکام اس کی تباہی کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ ٹڈی دَل کی تباہی کے نتائج چار چھ ماہ بعد سامنے آئیں گے جب غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا اور زرعی خام مال سے چلنے والی صنعتیں بند ہوں گی یا انہیں اپنا پہیہ چلانے کے لیے خام مال مہنگے داموں امپورٹ کرنا پڑے گا۔ جس پر بھاری زرمبادلہ بھی خرچ کرنا پڑے گا۔ ابھی تک ٹڈی دَل پر قابو پانے کے لیے جو سپرے کیا گیا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے اور صرف چندبڑے بڑے بااثرجاگیرداروں اور زمینداروں کی فصلوں پر کیاگیا ہے۔ غریب اور چھوٹا کاشتکار اپنی مدد آپ کے تحت راتوں کو جاگ کر ٹڈی دل سے نمٹ رہا ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔کورونا کی سنگین ترین صورتحال میں بھی وطنِ عزیز کے ستر فیصد دیہی علاقے میں زندگی معمول پر رہی اور کھیت لہلہاتے رہے۔پاکستان اپنی غذائی ضروریات میں نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ اجناس ایکسپورٹ بھی کی جاتی ہیں‘ اس وقت کپاس‘ گنا اور چاول جیسی بڑی اور نقد آور فصلوں کی کاشت کا عمل جاری ہے ‘بلکہ کپاس کی کھڑی فصلوں کو ایک بار ٹڈی دل کھا چکی ہے اور دوبارہ کاشت کے لیے کپاس کا بیج دستیاب نہیں ہے۔ ذرا سوچئے آئندہ چھ ماہ بعد غذائی ضروریات کیسے پورا ہوں گی اور کسانوں اور کاشتکاروں کو جو نقصان ہوچکا ہے اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟
یہ محض غذائی قلت ہی کا نہیں‘ کروڑوں خاندانوں کی روزی روٹی کا مسئلہ بھی ہے اور دیہی آبادی اور زرعی شعبہ کبھی بھی قومی معیشت پر بوجھ نہیں بنا بلکہ ہمیشہ زراعت نے قومی معیشت میں اپنا حصہ ڈالا ہے ‘لیکن افسوس کہ شوکت عزیز اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے بعد زرعی شعبہ مسلسل عدم توجہی کا شکار رہا ہے۔اعلیٰ حکام شاید اس جانب کوئی توجہ دے سکیں۔بد قسمتی کی بات ہے کہ ٹڈی دَل کے معاملے میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اٹھارہویں ترمیم کے پیچھے چھپ رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خوراک و زراعت کے محکمے صوبوں کے پاس ہیں اور یہ انہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان آفات کا مقابلہ کریں۔ صوبوں کے پاس بھاری بھرکم فنڈزاور بیوروکریسی کی فوج موجود ہے لیکن انتہائی ڈھٹائی سے صوبائی حکومتیں اس پر بھی سیاسی سکورنگ کرنے میں مصروف ہیں اور ریاستِ پاکستان اور اس میں بسنے والے عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ‘ جن کے ووٹوں سے یہ سیاسی اشرافیہ اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ یعنی عوام کے سروں پر عوام ہی کے جوتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved