تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     02-06-2020

چینی رپورٹ : وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر بڑے دلچسپ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ وہ بات جو انہیں بہت ناگوار گزر رہی ہے اس کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہیں۔ بقول فیض احمد فیضؔ: ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
شاہد خاقان عباسی کا کہنا یہ ہے کہ جناب وزیراعظم عمران خان نے چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے وفاق کی اجازت سے چینی پر سبسڈی دی‘ مگر حیرت ہے کہ ان دونوں ذمہ داران کا کمیشن کی رپورٹ میں کہیں تذکرہ نہیں۔ عباسی صاحب کی یہ بات منطقی لگتی ہے کہ میں نے 2017-18ء میں چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت اور اس پر سبسڈی دی تھی۔ یہی کام موجودہ وزیراعظم عمران خان نے 2018-19 ء میں کیا۔ اس لیے کمیشن کو سابق اور موجودہ دونوں وزرائے اعظم کو بلانا چاہئے اور عباسی صاحب کی خواہش کے مطابق یہ ٹرائل یا انکوائری لائیو ٹی وی چینلز پر ہونی چاہئے۔
جناب عباسی کے مدمقابل حکومتی مشیر شہزاد اکبر کے اعتراضات کو کھنگالنے کی میں نے بہت کوشش کی ہے مگر اُن میں کسی ٹھوس بات تک میری رسائی نہیں ہو سکی۔ وہ دلائل سے جواب دینے کی بجائے کہ جناب عمران خان کی کابینہ نے چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی یا بزدار صاحب نے سبسڈی کیوں دی وہ میاں نواز شریف کے ملک سے ''فرار‘‘ اور مریم نواز کی ڈیل یا ڈھیل کا قصہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ شہزاد اکبر صاحب کا یہ کہنا کہ قیمتوں کے تعین میں مارکیٹ اور شوگر ملز کا باہمی گٹھ جوڑ ہے‘ یہ بات بنیادی معاشیات اور مارکیٹ اکانومی سے ناواقفیت کا بیّن ثبوت ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے بھی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ چینی کا شعبہ مختلف ریگولیٹری نظام کا حامل ہے جبکہ پیداوار کے نرخ حکومت متعین کرتی ہے جس میں گنے کی کم سے کم قیمت مقرر کی جاتی ہے‘ لیکن شوگر مصنوعات کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ قوتیں کرتی ہیں۔ شوگر سیزن میں حکومت اضافی سٹاک برآمد کرنے اور شوگر پر سبسڈی کی اجازت دیتی ہے۔ یہ کوئی انوکھا کام نہیں‘ تمام حکومتیں ہی ایسا کرتی ہیں پھر نہ جانے کیوں حشر اٹھا دیا گیا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دسمبر 2018ء میں ایکس ملز ریٹ 51.64 روپے فی کلو تھا جو کہ فی کلو اخراجات سے بھی بہت کم تھا۔ ایسا طلب و رسد کی باہمی کشاکش سے ہوا کیونکہ سٹاک وافر تھا۔ کمیشن کے زیر غور مدت میں کبھی بھی شکر کا بحران یا کمی نہیں ہوئی۔
یہ بات ایک دل چسپ انکشاف سے کم نہ ہو گی کہ کمیشن حقائق بیان کر رہا ہے نہ ہی حکومت کے ترجمان معروضی سچ بول رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے ترجمان بشمول شاہد خاقان عباسی بھی ادھورا سچ بول رہے ہیں۔ میں نے حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لیے دو تین شوگر ملز مالکان سے رابطہ کیا ہے۔ اُن کے انکشافات اور بھی ہوش رُبا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شوگر انڈسٹری پاکستان کی معزز انڈسٹری ہے جو ہر سال حکومت کو اربوں کا ٹیکس اور زرمبادلہ فراہم کرتی ہے۔ اس انڈسٹری کے کسی معاملے کی چھان بین کارپوریٹ سیکٹر کے ماہرین کے ذریعہ ہونی چاہئے تھی نہ کہ ایف آئی اے یا پولیس کے ذریعے۔ ان میں سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ملز مالک نے مجھے بتایا کہ انکوائری کمیشن حقائق چھپا رہا ہے۔ کمیشن کی اتنی استعداد ہی نہیں کہ وہ معاملات سمجھ سکے۔ کمیشن کے ارکان شوگر کے معاملات‘ گنے کی حکومتی نرخوں پر خریداری‘ صرف پانچ ماہ کے لیے ملیں چلانے کا عرصہ۔ سرپلس شوگر کی صورت میں بھی حکومت باصرار ہر شوگر ملز کو چینی پیدا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اضافی شوگر کے سٹاک کو ایکسپورٹ نہ کرنا اربوں کی چینی سمندر میں پھینکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ان ملز مالکان کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن نے ہم پر تین بڑے الزامات لگائے ہیں:1:فارورڈ سیل۔2 :بے نامی سیل، 3 :ذخیرہ اندوزی۔جس طرح سے پٹرول‘ ڈیزل اور خام تیل وغیرہ کی فارورڈ سیل ہوتی ہے اسی طرح چینی کی فارورڈ سیل ہرگز کوئی جرم نہیں۔ کراچی مرکنٹائل کمیونٹی ایکس چینج کی فارورڈ سیل لسٹ میں چینی انڈسٹری شامل ہے۔ کمیشن کو معلوم ہونا چاہئے کہ فارورڈ سیل سو فیصد قانونی ہے۔ جہاں تک بے نامی سیل کے الزام کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ 2019-20 ء کے بجٹ سے پہلے فائلرز کو حکومتی اجازت کے مطابق 8 فیصد ٹیکس پر ملز کی طرف سے چینی فروخت کی جاتی تھی۔ ان فائلرز میں ہمدرد دواخانہ جیسے مشہور و معروف نام آتے ہیں۔ جبکہ حکومت نے نان فائلرز کو 3 فیصد اضافی ٹیکس یعنی 11 فیصد ٹیکس کے ساتھ فروخت کرنے کا اِذن دے رکھا تھا۔ اس اضافی ٹیکس کی ایک پائی بھی ملز مالکان کو نہیں جاتی تھی بلکہ اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ہوتے تھے۔ یہ چینی لینے کے لیے معروف شخصیات و ادارے اپنے افراد بھیج دیتے تھے جنہیں کمیشن نے ڈرائیور کنڈیکٹر کہا ہے اور اسے بے نامی سیل کہا گیا ہے۔ اس سیل کی اجازت تھی‘ اب نہیں ہے۔ ملز مالکان پر تیسرا اعتراض ذخیرہ اندوزی کا ہے۔ یہ الزام بھی شوگر انڈسٹری کے معاملات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ شوگر ملیں گنے کے سیزن میں زیادہ سے زیادہ 90 اور 100 روز چلتی ہیں جبکہ چینی 365 دن فروخت ہوتی رہتی ہے۔ سویٹ شاپس‘ حلوائی اور دکاندار حسب ضرورت خریداری کرتے رہتے ہیں۔ ملز کو تین ماہ کے محدود عرصے میں شوگر بنانا ہوتی ہے اور سارا سال فروخت کرنا ہوتی ہے۔ اب چینی سٹاک میں نہ ہو گی تو کہاں ہو گی؟ 
کمیشن کی طرف سے ایک مضحکہ خیز اعتراض یہ کیا گیا کہ آسٹریلیا میں 100 من گنے سے 15 من چینی حاصل ہوتی ہے تو یہاں نو دس من چینی کیوں بنتی ہے۔ اس کا بڑا سیدھا جواب یہ ہے کہ آسٹریلیا کی گائے 40 لٹر دودھ یومیہ دیتی ہے جبکہ ہماری پاکستانی گائے بمشکل 15 لٹر دودھ دے پاتی ہے۔ اسی طرح مشرقی پنجاب میں 80 من گندم فی ایکڑ پیدا ہوتی ہے اور ہمارے پنجاب میں بمشکل 30 سے 40 من پیداوار ہوتی ہے۔ ملز مالکان کا کہنا تو یہ ہے کہ گزشتہ حکومت نے سات ماہ کی تاخیر سے چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت اور سبسڈی دی تھی۔ اس وقت تک انٹرنیشنل مارکیٹ میں چینی 550 ڈالر فی ٹن کے بجائے 340 ڈالر فی ٹن ہو چکی تھی۔ ملز مالکان نے یہ بھی بتایا کہ ایکسپورٹ کی اجازت اور سبسڈی دینا حکومتوں کی معاشی مجبوری ہوتی ہے۔ اگر حکومت اجازت نہ دے تو پھر سٹاک کی موجودگی میں ملیں چلیں گی نہ گنے کی خریداری ہو گی نہ اگلے سیزن کے لیے چینی کی ضروری مقدار فراہم ہو گی۔ سبسڈی یوں ریوڑیوں کی طرح نہیں بلکہ متعین قاعدے کلیے کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔ 2017ء میں ن لیگ حکومت کی طرف سے دیے جانے والے 20 ارب کوئی اکیلے سلمان شہباز شریف کو نہ ملے تھے۔ 20 ارب میں سے ساری شوگر انڈسٹری صرف ساڑھے پندرہ ارب روپے استعمال کر سکی۔ 
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے ایک معاشی ضرورت کے لیے ایکسپورٹ کی اجازت دی اور اگلے سال گنے کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے پنجاب کے ذریعے 3 ارب کی سبسڈی دی۔ پھر نہ جانے کن غیرواضح مقاصد کی خاطر اپنی حکومت کے جہانگیر ترین‘ خسرو بختیار اور مونس الٰہی وغیرہ کو لا کر کیوں کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ عام آدمی یہ پوچھتا ہے کہ جب کمیشن بنا اس وقت چینی کی قیمت فروخت 75 روپے فی کلو تھی اب 90 روپے فی کلو کیوں ہے؟ اگر شوگر ایکسپورٹ کی اجازت اور سبسڈی ایک معاشی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی انعام و اکرام ہے تو پھر جناب شاہد خاقان عباسی اور جناب عمران خان دونوں کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ یہ مساوات تو یقینا عباسی صاحب کو ناگوار نہیں گزرے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved