تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     02-06-2020

ایک نئی کتاب!

عرصہ ہوا کہ ان کالموں میں کسی کتاب کا تذکرہ نہیں ہوا۔ مناسب سمجھا کہ یہ نیک کام آج کیا جائے۔ وہ نئی کتاب جواس سال امریکہ اور برطانیہ کی کتابوں کی دکانوں کی زینت بنی اُس کا نام ہے Islamic Empires۔جونہی میں کسی دکان یا لائبریری میں اسلام یا اسلامی تاریخ ‘ اسلامی فلسفہ یا اسلامی تہذیب و تمدن پر لکھی ہوئی نئی کتاب دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ علم و دانش کا ایک نیا چراغ روشن ہوا۔ مگر خوشی بڑی عارضی ہوتی ہے۔ جونہی میں مصنف کا تعارف پڑھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈیڑھ ارب فرزندان توحید میں شمولیت کے اعزاز سے محروم ہے۔ صد افسوس کہ یہ سعادت بھی غیر مسلم دانشوروں کے حصے میں آئی کہ وہ ان موضوعات پر کمال کی کتابیں لکھیں جن کا تعلق مسلمانوں کے ماضی و حال یا مستقبل سے ہے۔ Islamic Empire کو Justin Marozzi نے لکھا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں اس کتاب کی تلخیص پیش کی جاتی ہے۔
قابل مصنف نے 15 اسلامی سلطنتوں کی تہذیبی عظمت اور شان و شوکت کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ ہر صدی میں ایک نئی سلطنت آتی رہی۔ کتاب شروع دمشق سے ہوتی ہے۔ جب یہ شہر اسلامی سلطنت کا دارالحکومت بنا تو آبادی کی اکثریت غیر مسلم (مسیحی) تھی۔ حضورﷺ کی وفات کے 40 سالوں کے اندر مملکت کے سربراہ حضرت امیر معاویہؓ تھے۔ اُنہوں نے مقامی آبادی کے بہت سے رسم و رواج اپنائے۔ بغداد کے شہر کی سن 762ء میں بنیاد رکھی گئی جو دنیا کا پہلا شہر تھا جو دائرے کی شکل میں تھا۔ اب چلتے چلتے ہم ایک نظر سلطنت عثمانیہ پر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دمشق ہو یا بغداد‘ وہ نہ صرف کثیر المذاہب بلکہ کثیر الثقافت تھے۔ کئی نسلوں اور مختلف زبانیں بولنے والوں کے مراکز تھے۔ فاضل مصنف نے خصوصی طور پر خلفائے راشدین میں سے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق ؓ کوہدیۂ تبریک پیش کیا ہے‘ جنہوں نے یروشلم فتح کرنے کے بعد اپنے مبارک ہاتھوں سے Temple Mount کی اُس عبادت گاہ کو صاف کیا۔عیسائیوں نے یہودیوں کو ذلیل کرنے کے لیے اس عبادت گاہ میں گوبر کے انبار لگا دیئے تھے۔حضرت عمر فاروق کے دور میں یروشلم کی فتح کے بعد مسلمان حکومت کی جانب سے یہودیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ یروشلم میں واپس آئیں اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں۔ مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کرنے کے بعد اس شہر کا نام بیت المقدس رکھا جس کا ماخذ یہودیوں کی عبرانی زبان کے الفاظ Hamikpachہیں۔ اس تہذیبی روایت کو Pluralismکہتے ہیں۔ جس کا مطلب یکسانیت کے برعکس انسانی تہذیب کے گلستان میں کئی رنگوں کے پھولدار پودوں کی نشوونما کرنا ہے۔ سپین‘ ہنگری او ریونان‘ جہاں جہاں بھی مسیحی قوتوں نے فتح حاصل کی انہوں نے مسلمانوں کو ملک بدر کر دیا اور اُن کی مساجد کو تالے لگا دیئے‘ جبکہ مسلمانوں نے جن ممالک کو فتح کیا اُنہوں نے مسیحی اور یہودی مذاہب کے پیرو کاروں کو خیر مقدم کیا‘ اُنہیں مکمل مذہبی آزادی دی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا پورا احترام کیا۔ سپین میں اسلامی سلطنت کا سورج نصف النہار پر پہنچا تو قرطبہ یورپ کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ وہی قرطبہ جس کی مسجد میں اقبال سجدہ ریز ہوئے تھے اور اپنی طویل شاہکار نظم لکھی تھی۔ کالم نگار برسوں قبل قرطبہ گیا تو مسجد میں داخل ہوتے ہی اُس کے منہ سے اس نظم کے چند اشعار اس طرح بے اختیار ادا ہونے لگے جس طرح آبشار سے گرتا ہوئی پانی۔ان اشعار کی ادائیگی اور اشکباری۔ مجھے ان دونوں پر اختیار نہ تھا۔
فاضل مصنف نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ سپین میں مسلمانوں نے نہ صرف الحمرا کا محل اور قرطبہ کی فقید المثال اور نہایت شاندار مسجد تعمیر کی بلکہ یوروپ کو Deodrant خوشبو اور ٹوتھ پیسٹ سے بھی متعارف کرایا۔ عثمانیوں نے 1453 ء میں استنبول فتح کیا تو وہ شہر مسیحی فرقے کے Orthodox Patriarchاور یہودیوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما اور مسلمانوں کے خلیفۃ الوقت‘ تینوں کا صدر مقام بن گیا۔ ایران میں شاہ عباسی نے اصفہان کو اپنا دارالحکومت بنایا تو 29 گرجا گھر اور ایکArmenian کیتھڈرل بھی اس کی زینت بنائے۔ 
فاضل مصنف کے 512 صفحات پر پھیلے ہوئے بیانیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام سلطنتوں کی وسیع المشربی‘ مذہبی رواداری‘ تہذیبی میل ملاپ‘ ثقافتی آمیزش‘ آزادیٔ عقیدہ اور انگریزی میں Opennessکی بدولت وہ نئے خیالات‘ نظریات اور رجحانات کی جنم بھومی اور نرسری بن گئیں۔ آٹھویں صدی میں کاغذ ایجاد ہوا تو اسلامی سلطنتوں نے درس گاہوں اور مدرسوں کا جال بچھا دیا اور ہر شہر میں بڑی بڑی لائبریریاں بنائیں۔ مراکش کے شہر فیض میں 859ء میں یونیورسٹی کی بنیادایک دانشور خاتون کے ہاتھوں رکھی گئی۔ جس کی وجہ سے آج اُسے دنیا کی سب سے قدیم درس گاہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بارہویں صدی میں Tudelaنامی سیاح بغداد گیا تو اُسے پتہ چلا کہ خلیفہ کی علمی صلاحیتوں میں عبرانی زبان کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ یقینا آپ یہ پڑھ کر حیران نہ ہوں گے کہ زیر نظر کتاب میں تیسرے مغل بادشاہ اکبر کے آئینِ اکبری کا بھی تعریفاً ذکر کیا گیا ہے۔ مسلمان بادشاہوں نے صحرائوں کے قرب و جوار میں جو محلات تعمیر کئے اُنہیں بڑے دلکش اور دلفریب باغات سے سجایا گیا ۔ مصر میں مسلمانوں کی حکومت کا دور شروع ہوا تو قاہرہ کے گھروں کی چھتوں پر سنگتروں کے پودے اُگائے گئے۔ مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر ہمہ وقت بادشاہ تھا تو جزوقتی باغبان اور مالی بھی۔ ہندوستان کو فتح کرنے سے پہلے وہ جتنے دن کابل رہا پھل دار اور پھول دار پودوں کے باغات لگانے کی طرف اتنی توجہ دی کہ سکور دس باغات تک جا پہنچا۔
یہ تو تھی عروج کی داستان‘ اب ہم زوال کی طرف چلتے ہیں۔ بقول مختار مسعود‘ جلال اور جمال لازم و ملزوم ہیں‘ ان دونوں کا آپس میں گہرا منطقی رشتہ ہے۔ مسلمان جلال سے محروم ہوئے تو جمال کے چمکتے ہوئے چاند کو بھی گہن لگ گیا۔ مغرب کی بڑھتی ہوئی طاقت دو صدیوں کے اندر مسلمانوں سے تخت چھین کر اُنہیں تختہ کے اُس مرحلے تک لے آئی جہاں اتنی بلندی سے اتنی پستی تک گِر جانے والی تہذیب اپنی سب خوبیوں کو کھو بیٹھتی ہے۔ عقل و دانش‘ فنون لطیفہ‘ ادب‘ موسیقی‘فکری آزادی‘ اعتماد اور پندار‘ سماجی استحکام‘ اقدار‘ مثبت روّیے‘ ترقی پسند رجحانات‘ یہاں تک کہ تیمور کے گھر سے حمیت بھی چلی جاتی ہے‘ محض فتوحات کے صدیوں جاری رہنے کا سلسلہ بند ہو جانے اور پے در پے شکستوں کی وجہ سے۔ شکست میدان جنگ میں ہو تو ساری سلطنت کی آب و ہوا بدل جاتی ہے۔ برداشت اور روا داری اور بقائے باہم کی جگہ عدم برداشت اور ہر قسم کے اختلاف کو باغیانہ سرگرمی سمجھنے کا مہلک روگ لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایران میں صفوی سلطنت کے ایک بادشاہ نے یہ حکم جاری کیا اور اس پر سختی سے عمل کروایا گیا کہ جب بارش ہو تو عیسائیوں اور یہودیوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ وہ مسلمانوں کی پاکیزگی کے لیے خطرہ نہ بن سکیں۔1722 ء میں اصفہان پر افغانوں کا قبضہ ہوا تو شاہ حسین کا سر قلم کرنے کے لیے اُس کے سب سے شاندار محل کا سب سے شاندار کمرہ استعمال کیا گیا۔
اس قابلِ مطالعہ اور قابلِ تعریف کتاب کا حاصل کلام یہ ہے کہ اب مسلمان دبئی اور دوحہ میں چاہے جتنی بلند و بالا عمارات تعمیر کر لیں۔ وہ اپنی گم شدہ عظمت اور تہذیبی میراث کے حصول کی منزل سے ہزاروں میل دور ہیں‘ بقول اقبال: ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved