پاکستان ان دنوں بحرانوں اور وباؤں کی زد میں ہے۔ ایک طرف کوروناوائرس قہر برسا رہا ہے‘ تو دوسری طرف معاشی صورتِ حال گمبھیر ہے۔اس سب کے دوران ٹڈی دل کاایک نیا عذاب پاکستان پر ٹوٹ پڑا ہے‘ جوہر طرح کی فصلوں کو تباہ کر کے پاکستانی کسان اور معیشت کی کمر توڑ رہا ہے۔ٹڈی دل لاکھوں روپے مالیت کی فصل منٹوں میں چٹ کرجاتے ہیں اور کسان دیکھتے رہ جاتے ہیں‘ لہٰذا اگریہی صورت ِ حال رہی تو ملک میں معاشی بدحالی کے ساتھ ‘خوارک کی قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔یہ ٹڈی دل افریقاسے یمن‘ سعودی عرب اور پھر عمان سے ایران میں داخل ہوا اور وہاں سے اس نے پاکستان آ کر تباہی مچانا شروع کر رکھی ہے ۔
ٹڈی دل ایک ہجرت کرنے والا کیڑا ہے ‘ نیز یہ کیڑے غول کی صورت میں اڑتے ہیں‘ زمین کے اندر انڈے دیتے ہیں اور بعد میں اس زمین پر ٹڈیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ٹڈی دل کو انڈے دینے کیلئے بنجر اور سخت زمین پسند ہے اور ٹڈیاں ریتلے علاقوں میں انڈے دیتی ہیں اور پھرجب انڈوں سے کیڑے نکل آتے ہیں‘ تو غول کی شکل میں سفر شروع کردیتے ہیں اور کئی سو کلومیٹر کا سفر ایک دن میں مکمل کرلیتے ہیں۔ٹڈی دل اپنی خوارک کیلئے تازہ فصل کو کھانا پسند کرتے ہیں‘ نا صرف یہ فصل کو کھاتے ہیں‘ بلکہ اکثرپودے کو بھی کھا جاتے ہیں۔ صحرائی ٹڈی کا یہ حملہ بدترین ہے ‘ جبکہ اس کا دوسرا غول افزائش کے مرحلے میں ہے اور بارش کے بعد یہ تعداد میں بڑھ جائیں گے اوراگلا حملہ مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔ٹڈی دل یا صحرائی ٹڈیاں ‘اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں‘ جس کو ہم ٹڈا یا گراس ہوپر کہتے ہیں۔یہ ٹڈیاں بنجر اور گرم مرطوب علاقوں میں زمین کے اندر انڈے دیتی ہیں‘ اس لئے سپرے کے باوجود یہ دوبارہ افزائش کرجاتی ہیں‘ کیونکہ سپرے تو زمین کے اوپر کیا جاتا ہے‘ جبکہ ان کے انڈے زمین کے اندر ہوتے ہیں۔جیسے ہی یہ ٹڈیاں انڈوں سے نکلتی ہیں‘ یہ جھنڈ بناکر اڑنا شروع ہوجاتی ہیں اور فصلوں پر حملہ کرکے اپنا پیٹ بھرتی ہیں۔
ٹڈی دل کا ایک غول کہیں لاکھ ٹڈیوں پر مشتمل ہوسکتا ہے اور ان کا ایک غول35 ہزار انسانوں کی خوراک ایک دن میں کھا سکتا ہے۔یہ دہشت گرد ٹڈیاں ایک دن میں120 کلومیڑ سفر کرسکتی ہیں اور ہزاروں ایکٹر پر موجود فصلوں کو نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ایک ٹڈی ایک وقت میں1200 انڈے دیتی ہے ۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک کے مطابق‘ اگر ان کو قابو نہیں کیا گیا تو ان کی تعداد میں20 سے 25 گنا مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ یہ ٹڈیاں جہاں فصلوں پر حملہ کرتی ہیں‘ وہیں انڈے دے جاتی ہیں‘ اس لئے جب اگلی فصل تیار ہوگی‘ اس سے پہلے ٹڈی دل کی بھی افزائش ہوجائے گی۔ٹڈیوں کی افزائش کا موسم جنوری سے جون ہے۔ اس کے بعد میدانی علاقوں میں ان کی افزائش برسات کے موسم میں ہو گی‘اگر اس کاخاتمہ ابھی نہیں کیا گیا تو مون سون کے بعد ان کی تعداد دُگنی ہوجائے گی۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہی ہے‘ لیکن یہ زمینی حقیقت ہے کہ پاکستانی کسان اور زراعت کسی بھی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں رہے۔ ٹڈل دل نے پہلے ٹماٹر کی فصل پر حملہ کیا اور یوں ٹماٹر کی فصلیں تباہ ہونے کے باعث شدید قلت پیدا ہونے سے قیمت چار سو فی کلو تک جا پہنچی۔چند ماہ قبل ٹڈیاں سندھ کے علاقوں گھوٹکی اور کشمور میں داخل ہوئی تھیں۔اب‘ تازہ ترین صورت ِ حال کے مطابق‘ تمام صوبوں کی انتظامیہ کی جانب سے ناکافی اقدامات کے سبب کسان شدید گرمی کے باوجود ہاتھوں میں تھال اور پلاسٹک کی بوتلیں لیے اپنی مدد آپ کے تحت ٹڈیاں بھگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں‘یہ صورت ِ حال انتہائی پریشان کن ہے۔
محکمہ زراعت اس خطرے سے بہت پہلے سے واقف تھا‘ تاہم وسائل کی کمی کے باعث وہ اس خطرے کا مقابلہ نہیں کرسکا۔12 جنوری کو پلانٹ پروٹیکشن یونٹ کا سپرے والا جہاز ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے رحیم یار خان پر سپرے کرتے وقت حادثے کا شکار ہو گیا تھا‘ لہٰذا اس حادثے کے بعد ٹڈی دل کے خلاف کام مزید سست روی کا شکار ہوگیا۔بلوچستان میں ٹڈی دل نے گندم کی فصلوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔بلوچستان میں اس دہشت گرد ٹڈی نے چاغی ‘خصدار‘ کیچ ‘گوادر‘پنجگور‘ نوشکی اور دیگر اضلاع کو متاثر کیا۔بلوچستان کے بعد ٹڈی دل نے سندھ اور پنجاب کا رخ کیا۔ یہاں پر بھی گندم ‘سرسوں‘ مکئی‘ کپاس کی فصلوں کو تباہ کیا۔فصلیں کھانے والا ٹڈی دل اس وقت ملک کے 52اضلاع میں موجود ہے۔ پنجاب میں لیہ‘ بھکر ‘خوشاب‘ صادق آباد‘ رحیم یار خان‘ راجن پور‘ لودھراں ‘بہاول نگر‘ چشتیاں‘ جھنگ اور سندھ میں سانگھڑ‘ خیرپور ‘دادو‘ خیرپور نارا‘ سکھر تھر‘ عمر کوٹ‘ جبکہ کے پی کے میں جنوبی وزیرستان ‘بنوں‘ ٹانک‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹڈی دل کے وار جاری ہیں۔اب‘ سوال یہ ہے کہ اس پر قابو کیسے پایا جائے؟ اس کیلئے فضائی سپرے ہی موثر ہے‘ نیز اس کے ساتھ گاڑی اور پیدل چل کر بھی سپرے کیا جاسکتا ہے۔اس کے بعد زمین کی اوپری سطح کو بھی صاف کیا جائے‘ کیونکہ وہاں پر ٹڈی دل کے انڈوں کو تلف کرنا بہت ضروری ہے۔اس کے ساتھ ‘اگر ٹڈی دل کو پکڑ کر پولٹری فیڈ بنادی جائے تو یہ بہت موزوں ہوگی۔
برادر اسلامی ملک ترکی نے بھی ہمیں ٹڈی دل سے لڑنے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔ پاکستان ائیرفورس کا سی ون تھرٹی طیارہ پائپر بریو طیارہ لیز پر لے کر پاکستان آیا ہے‘ جس سے ٹڈی دل متاثرہ علاقوں میں سپرے کیا جائے گا۔ذہن نشین رہے کہ مارچ سے ٹڈی دل سے نمٹنے کی ذمہ داری این ڈی ایم اے کوسونپ دی گی ہے‘ وہ محکمہ زراعت ‘پلانٹ پروٹیکشن فوڈ سکیورٹی کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ٹڈی دل پاکستان کی ربیع اور خریف کی فصلوں کو نقصان پہنچائے گا۔پاکستانی کسانوں کے مطابق‘ ٹڈی دل آندھی کی طرح آتے ہیں اور یہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ سورج کی روشنی کم پڑجاتی ہے اور یہ غذائی دہشت گرد منٹوں میں فصلوں کو چٹ کرجاتے ہیں۔ ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے تھا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ‘ لیکن ٹڈی دل کے حالیہ حملے سے اس کی زراعت تباہ ہو گئی ہے۔ ٹڈی دل نے سندھ اور شمالی پنجاب میں کپاس کی فصل کا صفایا کر دیا ہے۔ بلوچستان پر بھی حملہ ہوا ہے۔ گزشتہ چند برس سے کپاس کی پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس بار تو نقصان اور بھی شدید ہے۔ ٹڈی دل چاول کی پنیری بھی صاف کر گیا ہے۔ آم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے ۔ کھڑی فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے سے سب سے زیادہ کسان متاثر ہوئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ان کے گھروں میں فاقے پڑ جائیں گے‘ لیکن صرف وہ ہی نہیں ‘پورا ملک متاثر ہوگا۔
ستم یہ ہے کہ عالمی ادارۂ خوراک ہر بار رپورٹ جاری کرتا ہے کہ ٹڈی دل دنیا میں کہاں سے اٹھ رہا ہے اور کدھر کا رخ کرے گا۔ اس بار بھی عالمی ادارے کی طرف سے پاکستان کو رپورٹ بھجوائی گئی تھی‘ جس کو شاید خاطر میں نہیں لایا گیا۔اب‘ کہا جا رہا ہے کہ جون میں ٹڈی دل کے ایک اور خطر ناک حملہ ہو سکتاہے‘ لہٰذا محکمہ زراعت‘ این ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ ادارے بر وقت اقدامات کریں‘ تاکہ پاکستانی کسان اور معیشت کو ٹڈی دل کے عفریت سے ہر صورت بچایا جا سکے۔