بھابھی صاحبہ بہت پریشان ہیں اور ہر سطح کی حکومت کو منہ اور پیٹ بھر کوسنے دے رہی ہیں۔ پریشان وہ کب نہیں تھیں ؟مگر اب کے معاملہ کچھ اور ہے‘ بہت زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن نے بھابھی صاحبہ کا جینا واقعی حرام کردیا ہے۔ حکومت نے بھی سوچا نہ سمجھا‘ لاک ڈاؤن نافذ کردیا۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ رونما ہوا ہے‘ وہ تو ہونا ہی تھا۔ع
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ہم مرزا تنقید بیگ کے گھر کی بات کر رہے ہیں۔ جب سے مرزا سے ہماری دوستی ہوئی ہے‘ ہم نے بھابھی صاحبہ کو غیر معمولی حد تک ''مستقل مزاج‘‘ پایا ہے‘ یعنی وہ پریشان ہی دکھائی دی ہیں! یہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز بات نہیں۔ مرزا کا معاملہ ہے ہی کچھ ایسا۔ غالبؔ نے خوب کہا ہے اور شاید مرزا ہی کے لیے کہا ہے : ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ہم یہ سوچتے ہیں کہ غالبؔ نے دوست کی بات کہی ہے‘ اگر معاملہ گھر کا ہو یا میاں بیوی کا تو سمجھ لیجیے کہ گئی بھینس پانی میں۔ ایسے میں ہر وقت اللہ سے پناہ مانگنے کے سوا آپشن نہیں بچتا۔ادھرلاک ڈاؤن کی خوبیوں کے گُن گانے والوں کی کمی نہیں۔ ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ لاک ڈاؤن میں بہت سی خوبیاں بھی ضرور ہوں گی ‘مگر ایک بڑی قباحت ہم نے ایسی دیکھی ہے کہ جسے وہ قباحت بھگتتے دیکھا ہے‘ اُس کے حق میں دعائے خیر کرنا نہیں بھولے ہیں۔
لاک ڈاؤن کا مطلب ہے کہیں بھی نہ جائیے‘ گھر میں رہیے۔ گھر میں رہنا ہر اُس انسان کے لیے ایک امتحان ہے‘ جسے نہ چاہتے ہوئے گھر میں رہنا پڑے اور اِس سے کہیں بڑھ کر دوسروں کی آزمائش ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کسی کیلئے زیادہ دیر تک گھر میں رہنا ممکن نہیں‘ اگر پابند کردیا جائے کہ گھر ہی میں رہنا ہے تو پابندی پر عمل تو خیر ہو ہی جائے گا‘ مگر اس کے نتیجے میں جو معاشرتی اور نفسی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی‘ اُنہیں دور کرنے کا خرچہ کون دے گا؟ حکومت؟ یقیناجو عذاب حکومتی فیصلے سے پیدا ہو‘ اُس کے تدارک کا خرچہ بھی اُسی کو برداشت کرنا چاہیے۔کورونا وائرس کی کوئی کارگر‘ کامیاب ویکسین تو بنے گی‘ تب بنے گی‘ فی الحال حکومت کیلئے پیدا ہونے والا ایک ممکنہ بڑا چیلنج ہے‘ نفسی امور اور ذہنی پیچیدگیوں سے معاشرے کو پاک کرنا۔ اس حوالے سے ایک اور رائے بھی پائی جاتی ہے‘ جسے ہم جملۂ معترضہ کے طور پر بیان کرنے میں کچھ قباحت محسوس نہیں کرتے۔ بعض دل جلوں کا خیال ہے کہ جو ذہنی پیچیدگیاں منصوبہ بندی کے تحت پیدا کی گئی ہیں‘ اُن کے تدارک کا حکومت بھلا کیوں سوچے گی؟ ہم نے عرض کیا ہے کہ یہ بات ہم تقریباً ''نکتۂ معترضہ‘‘ کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔ اس رائے سے ہمارا بھی متفق ہونا ضروری نہیں۔ خیر‘ بات ہو رہی تھی لاک ڈاؤن کے ہاتھوں بھابھی صاحبہ کیلئے پیدا ہونے والی مشکلات کی۔ ڈھائی تین ماہ سے بھابھی صاحبہ کی حالت عجیب سی ہے؛ اَدھ مُوئی سی ہوکر رہ گئی ہیں۔ کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔ ذہن ہے کہ ہمہ وقت الجھا رہتا ہے۔ کہنا کچھ چاہتی ہیں‘ منہ سے کچھ نکلتا ہے۔ کرنا کچھ چاہتی ہیں اور ہو کچھ جاتا ہے۔
یہ ایک آدھ گھر کی کہانی نہیں۔ لاک ڈاؤن نے مرزا جیسی بہت سی ''بلاؤں‘‘ کو گھر کی چار دیواری تک محدود کیا تو اہلِ خانہ پر قیامت سی گزر گئی۔ جب ہوٹل کھلے ہوتے تھے تو مرزا جیسوں کے اہلِ خانہ سکون کا سانس لیتے تھے کہ ہوٹلوں کی برکت سے خاصے وقت کیلئے بلا ٹل جایا کرتی تھی۔ لاک ڈاؤن نافذ ہوا تو ہوٹل سب بند ہوئے۔ اب ''ہوٹل باز‘‘ کہاں جائیں؟ لاچار ہوکر انہوں نے گھر کو ''اپنایا‘‘ اور یوں وقت نے پلٹا کھاکر اہلِ خانہ پر وہ ستم ڈھایا کہ اُف خدایا!
مرزا کے ساتھ ایک بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ گھر سے باہر ہوں اور اندر‘ اُنہیں ہر وقت کھانے اور پینے کو کچھ نہ کچھ چاہیے۔ کسی ہوٹل میں بیٹھے ہوں تب بھی ویٹر کو وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ لاکر دینا ہی پڑتا ہے۔ ویٹر تو یہ کام بخوشی کرتا ہے کہ بل تگڑا ہوتا جاتا ہے۔ اہلِ خانہ بھلا یہ سب کچھ خوشی کے ساتھ کس طور کرسکتے ہیں؟ اُنہیں اس خدمت کے عوض کتنی رکعت کا ثواب مل جانا ہے؟ کل ہم مرزا کے گھر گئے تو اندازہ ہوا کہ ڈھائی ماہ کے لاک ڈاؤن نے مرزا کے اہلِ خانہ اور بالخصوص بھابھی صاحبہ پر وہ قیامت ڈھائی ہے کہ اب اُن کیلئے: ع
مشکلیں اِتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
والی منزل آچکی ہے! لاک ڈاؤن کے زمانے میں مرزا نے اہلِ خانہ سے وہی برتاؤ کیا‘ جو وہ ہوٹل کے ویٹرز سے روا رکھتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں اُن کا پیٹ کچھ طلب کرتا ہے اور اہلِ خانہ کی شامت آجاتی ہے۔ فرمائشیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ اشیائے خور و نوش کے حوالے سے مرزا کی فرمائشیں اہلِ خانہ کیلئے زمیندار کی بیگاری والا معاملہ ہے کہ مرضی نا مرضی‘ کرنا ہی پڑے!کل جب ہم نے مرزا کے گھر میں انٹری دی تو بھابھی صاحبہ کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ ایک حکومتی فیصلے نے اُنہیں ناحق پریشان کیا۔ ہم نے خیریت دریافت کی تو وہ دُکھڑا سُنانے لگیں۔ باتوں سے اندازہ ہوا کہ بھابھی صاحبہ کو ایک بات کا پورا یقین ہے یہ کہ کورونا کی وبا رہے نہ رہے‘ اگر لاک ڈاؤن نافذ کیا جاتا رہا تو وہ نہیں رہیں گی! یا یہ کہ اگر وہ بچ بھی گئیں تو اُن کے کیلئے کوئی خصوصی ویکسین تیار کرنا پڑے گی!
کسی بھی وباکی روک تھام کیلئے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔ حکومتیں طرح طرح کے اقدامات کرتی ہیں‘ کرنے ہی پڑتے ہیں۔ ہر باہوش اور ذی احساس حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وبا کی روک تھام کیلئے کچھ نہ کچھ کرے ‘تاکہ شہری محفوظ رہیں۔ ہمارے ہاں بھی کورونا وبا کی روک تھام کیلئے نام پر ہر سطح کی حکومت کو بہت کچھ کرنا تھا‘ مگر صرف لاک ڈاؤن پر اکتفا کیا گیا۔ لوگوں سے کہا گیا کہ گھروں میں رہیں‘ تاکہ محفوط رہ سکیں۔ یہ نہیں سوچا گیا کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ایسے بہت سے لوگ بھی گھروں میں رہنے پر مجبور ہوجائیں گے ‘جن کا گھر میں رہنا متعلقہ اہلِ خانہ کو کچھ زیادہ پسند نہیں۔ کورونا وبا سے بچانے کیلئے نام پر لوگوں کی نقل و حرکت محدود کی گئی‘ انہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا تو کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی حد تک کورونا وائرس کی روک تھام تو ہوگئی۔ اب‘ مرزا جیسوں کے اہلِ خانہ کے ذہنی نقصان کی تلافی کیلئے کیا سوچا گیا ہے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔