تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     03-06-2020

کورونا سے ڈرونہ :تالابندی ہٹاؤ

کورونا کی وبا نے سرکاروں اور عوام ‘دونوں کو ایک مشکل صورت حال سے دوچار کر رکھا ہے۔ دونوں اس مشکل میں ہیں کہ تالا بندی مکمل ہٹا دی جائے یاابھی نہ ہٹائی جائے؟ اور یہ کہ لاک ڈائون کی میعاد اگر بڑھائی جائے تو کتنے دن کے لیے اور کہاں‘ کیسے بڑھائی جائے ؟ یہ سوال ایسے ہیں جن کا جواب ہاں یا نہ میں نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ان سوالات کا جواب کھوجنے سے پہلے ملک کے سبھی لوگوں کو سب سے پہلے دل سے کورونا کا خوف نکال دینا چاہیے۔ اس کے لیے میں ایک نیا نعرہ دے رہا ہوں ''کورونا سے ڈرو نہ‘‘۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک سے بھارت کی برابری کریں تو معلوم پڑے گا کہ ہمارے لیڈروں او ران کے نوکر شاہوں نے عوام کو ضرورت سے زیادہ ڈرا دیا ہے ۔ اس میں کچھ کردار سخت اور طویل لاک ڈائون کا بھی ہے۔ جو ملک بھارت کے مقابلے میں صحت کی خدمات اور سہولیات پر دو گنا‘ چار گنا‘ چھ گنا اور آٹھ گنا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور ان کی آدم شماری بھارت کے ایک یا دو صوبوں کے برابر بھی نہیں ہے‘ وہاں ذرا معلوم کیجئے‘ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ اگر یہ حساب بھارتی ٹھیک سے سمجھ لیں تو میرے خیال میں ان کادکھ اور ڈر کافی کم ہو جائے گا۔ اپنی زندگی‘ اپنے کھان پان‘ اپنے اینٹی باڈیز پر فخر ہونے لگے گا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کورونا میں مبتلا لوگ جتنی بڑی تعداد میں گھر میں تنہائی میں رہنے پربھارت میں ٹھیک ہو رہے ہیں‘ اتنے دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہو رہے ہیں‘ باقی جو لوگ بیمار ہیں لوگوں کا علاج جاری ہے‘ ان میں سے چند سو سنجیدہ حالت میں ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار کے آس پاس پہنچ گئی ہے لیکن بھارت میں بیس پچیس ہزار لوگوں کی موت دیگر کئی امراض سے روز ہوتی ہے۔ اسی لیے اب کورونا سے زیادہ ڈر تالا بندی پیدا کر رہی ہے۔ مزدوروں کی حالت دیکھ کر روح کانپنے لگتی ہے ۔ دکانوں ‘دفاتر اور کارخانوں کو جہاں بھی کھولا گیا ہے ‘ وہاں نہ تو ان کو چلانے والے لوگ آ رہے ہیں اور نہ ہی خریدار لوگ۔ بڑے پیمانے پر بیکاری ‘بھوک مری اور لوٹ پاٹ کا ڈرپھیل رہا ہے۔ تالا بندی کے سبب درجنوں اموات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ تالا بندی کے حوالے سے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے مالی معاملات متاثر ہو رہے ہیں اور کچھ گھرانوں کے پاس تو اب کھانے کو بھی کچھ نہیں بچا۔ جمع جتھا خرچ ہو چکا ہے اور آگے کمائی کا کوئی سلسلہ نہیں۔ ایسی حالت میں سرکاروں کو چاہیے کہ وہ تالا بندی کو وداع کریں‘ لیکن ملک کا ہر آدمی خود پر تالا بندی جم کر عائد کرے۔ جسمانی دوری‘ ماسک‘ ہاتھ دھونا‘ کاڑھے کو لینا یعنی قہوہ وغیرہ پیتے رہنا اور گھر میں رہنا‘ یہ سب لوگ کریں تو کورونا کو شکست دی جا سکتی ہے۔
مزدوروں کی مشکلات 
اتر پردیش سرکار نے مزدوروں کے لیے کچھ ایسے اعلانات کیے ہیں ‘جو اگر عائد ہو گئے اور ان پر عمل درآمد یقینی بنا لیا گیا تو اپنے گائوں واپس لوٹے مزدوروں کے لیے کافی بہتر ی ہو جائے گا لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اگر شہروں کی طرف واپس نہیں لوٹے تو بھارت کے کارخانے اور تجارت ٹھپ ہو سکتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ ملک میں دوسرے صوبوں میں کمانے والے مزدوروں کی تعدادلگ بھگ سات کروڑ ہے۔یہ تعداد ان کی ہے جو کارخانوں میں کام کرتے ہیں ‘جن کی ماہواری پگار اور جن کے ادھار کارڈ بنے ہوئے ہیں‘ لیکن گھریلو نوکروں ‘پٹریوں پر سامان بیچنے والوں ‘ٹھیلے والوں اور دکانوں کے چھوٹے ملازمین کی کوئی طے شدہ گنتی کسی بھی سرکار کے پاس نہیں ہے۔ تین برس پہلے 'نیشنل سیمپل سروے‘کی رپورٹ کے مطابق دلی اور ممبئی میں 43 فیصد عوام باہر کے ہیں یعنی وہ لوگ دوسرے صوبوں کے ہیں۔ تالابندی کے بعد مچی بھگدڑ میں زیادہ تر مزدور اپنے گائوں کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں ‘جو رجسٹرڈ ہیں ان کی تعداد اتر پردیش‘ مدھیہ پردیش ‘بہار اور چھتیس گڑھ وغیرہ میں لاکھوں تک جا رہی ہے ‘جو پیدل ہی لوٹ رہے ہیں ‘ان کی تعداد اور بھی زیادہ ہے۔ لیکن اس وقت اتر پردیش کی سرکار ایسی اکیلی سرکار ہے جو وعدہ کر رہی ہے کہ ہر لوٹنے والے مزدور کو وہ کام دے گی ۔اس کے لیے وہ باہر سے آئے مزدوروں کے لیے کمیشن قائم کر رہی ہے۔ یہی عمل بہار سرکار بھی اپنانے جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دیگر صوبے بھی اسی راہ پر چل پڑیں ۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ گائوں کے چھوٹے موٹے کارخانے کون لگائے گا ؟مالی قوت کہاں سے آئے گی ؟تیار مال کوبازاروں تک پہنچانا کتنے خرچے کا کام ہوگا؟ یہ ٹھیک ہے کہ منریگا کے تحت کچھ وقت کے لیے کروڑوں مزدوروں کو روزگار دیا جا سکتا ہے ‘ انہیں اپنے گزارے لائق پیسے تو مل جائیں گے لیکن یہ پیسے کتنے دنوں تک گھر بیٹھے بانٹے جا سکیں گے ؟اور پھر منریگا کے بھگتان میں بھی طرح طرح کی بدعنوانی کی خبریں آتی رہی ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ کروڑوں مزدوروں کے پرورش کو سب سے پہلے ترجیح ملنی چاہیے ‘لیکن شہروں میں چل رہی صنعت کو بھی کسی طرح چالو کیا جانا چاہیے۔ اس کا بھی کچھ پتا نہیں کہ جن مزدوروں کو ایک بار شہر کی ہوا لگ گئی ہے ‘وہ گائوں میں ٹکے رہنا پسند کریں گے یا نہیں ؟ 
ہانگ کانگ میں نیا چینی راگ 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور چین کے سرحدی تنازع میں ثالثی کرنے کے لیے اتاولے ہورہے تھے اور اب وہ ہانگ کانگ کو لے کر چین سے بھڑ ک گئے ہیں ۔کورونا کو لے کر چین اور اس کے چلتے عالمی ادارہ صحت سے ٹرمپ پہلے دو دوہاتھ کر چکے ہیں ‘اب انہوں نے ہانگ کانگ کو لے کر ایسی دھمکی دے دی ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ کی شروعات ہو ہی گئی ہے ‘اس سے بھارت کو بھی کافی نقصان ہونے کے امکان ہے۔ ہانگ کانگ کے ساتھ بھارت کی تجارت لگ بھگ اکتیس ارب ڈالر کی ہے اور لگ بھگ چالیس ہزار بھارتی وہاں برسوں سے رہتے ہیں۔ چین اور ہانگ کانگ کے بیچ کشیدگی کا خاص سبب چینی سرکار کا وہ نیا قانون ہے ‘جس کے انڈر ہانگ کانگ کے مجرموں کو چین کے حوالے کرنا پڑے گا۔ ایسا کیوں؟ اس لیے کہ چین سمجھتا ہے کہ ہانگ کانگ اس کا حصہ ہے جبکہ ہانگ کانگ مانتا ہے کہ اس میں چینی اکثریت میں ضرور ہیں لیکن وہ چین کے دیگر صوبوں کی طرح چین کا صوبہ نہیں ہے ‘کیوں کہ جب 1997 ء اسے برطانیہ کے ڈیڑھ سو سال کی حکومت سے نجات ہوئی تو اس شرط پر کہ ایک ملک اور دو انتظامیہ چلیں گے یعنی وہ چین کے ساتھ رہتے ہوئے بھی خود مختار رہے گا ۔یہ انتظام 2047 ء تک چلے گا‘لیکن اب چین ہانگ کانگ کو اپنے صوبہ کی طرح اپنے ضابطہ میں رکھنے پر تلا ہوا ہے۔ چین کی اس کارروائی کو لے کر ہانگ کانگ میں زبردست تحریک کھڑی ہو گئی ہے۔ لاکھوں لوگ ان پر تشدد مظاہروں کے ساتھ سڑک پر اتر گئے ہیں۔ اگر چینی سرکار نے ہانگ کانگ کو اپنے قبضہ میں لے لیا تو امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں نے اسے جو مخصوص درجہ دے رکھا ہے ‘اسے وہ رد کر دیں گے ۔اس سے ہانگ کانگ کی اکانومی ہی چوپٹ نہیں ہو جائے گی بلکہ وہاں رہنے والے ہزاروں غیر چینی لوگ بھاگ کھڑے ہوں گے۔ امریکہ کے ویزا کی خواہش رکھنے والوں کی لمبی قطاریں لگنی ابھی سے شروع ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مشکل میں بھارت کسی بھی ملک کے ساتھ الجھنا نہیں چاہے گا‘ لیکن یہ بھی ہے کہ ان دنوں کورونا کی عالمی صورتحال میں چین نے ہانگ کانگ اور بھارت‘ دونوں پر دباؤ بڑھا رکھا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved