تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     03-06-2020

نیا بجٹ

آپ کو یاد تو ہوگا کہ پچھلے دور حکومت میں پی آئی اے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی بات چلی تھی۔ اس وقت ائیرلائن کے ملازمین کراچی کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ان کی حمایت میں تحریک انصاف آ گئی اور اس پروں والے سفید ہاتھی کو ہمیں اپنے ہی دروازے پر باندھے رکھنا پڑا۔ جہاں تک مجھے علم ہے‘ انہی دنوں تحریک انصاف کے اندر بھی ایک بحث چھڑی تھی کہ پی آئی اے کی نجکاری کاگندا کام مسلم لیگ ن کو کرنے دیا جائے لیکن اسد عمر آڑے آگئے۔ اس وقت تک وہی تھے جو تحریک انصاف میں معاشی معاملات کی کچھ سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو قائل کرلیا کہ پی آئی اے ملک کا اہم ادارہ ہے جسے وہ اقتدار میں آکر چٹکی بجاتے ٹھیک کرلیں گے۔ پارٹی اقتدار میں آگئی‘ وہ چٹکیاں بجاتے وزارت خزانہ میں آگئے اور کسی نامعلوم چٹکی بجنے پر وزارت خزانہ سے باہر نکل گئے۔ جتنی دیر وہ وزیرخزانہ رہے پی آئی اے تو ٹھیک نہ ہو سکی یعنی ہر سال چون ارب روپے کا نقصان کرتی رہی۔ صرف پچھلے دو برسوں میں یہ ادارہ ایک سو دس ارب روپے کے قریب پھونک چکا ہے۔ تیار ہو جائیے آپ کو اور مجھے اس سال ایک بار پھر پچپن ارب روپے اس ائیرلائن کو دینے ہیں‘ جو ایک دھیلا نہیں کما سکتی۔ جسے بند کر دینا اس کو چلانے سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا‘ ہر پاکستانی کو اس کے سربراہ سے لے کر نائب قاصد تک کی تنخواہیں اپنی جیب سے دینا ہوں گی۔ اگر آپ ٹیکس دہندہ ہیں تو آپ کا شمار میری طرح ان اکیس لاکھ چوّن ہزار ٹیکس دہندگان میں ہوتا ہے جنہیں یہ تاوان بھرنا ہے‘ یعنی اوسطاً ہر ٹیکس دہندہ کو پچیس ہزار پانچ سو چونتیس روپے صرف پی آئی اے کو دینا ہوں گے تاکہ اس کے بڑے‘ اس کے پائلٹ‘ اس کا عملہ ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہے۔ ہماری جیبوں سے جو پیسہ نکل کر پی آئی اے کو جائے گا اس میں ان ٹکٹوں کی قیمت بھی شامل ہے جو حکومتی ارکان کو مفت ملیں گے۔ 
یہ دعوے آپ نے بہت سنے ہوں گے کہ 'ہم اقتدار میں آئیں گے تو پاکستان سٹیل ملز کو ٹھیک کردیں گے‘۔ درست سمجھے‘ یہ تحریک انصاف ہی تھی جو اقتدار میں آنے سے پہلے یہ کہا کرتی تھی۔ دو سال ہوگئے ایک کلو بھی لوہا پیدا کیے بغیر سٹیل مل وہیں ہے اور ہر سال چوبیس ارب روپے کھا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اس میں بلا وجہ بھرتیاں کرکے اس کی جو تباہی کی تھی اس کو درست کرنے کا ایک موقع ہمیں دوہزار چھ میں ملا تھا۔ اس وقت یہ کباڑ خانہ اچھا خاصا بک گیا تھا لیکن ہمارے چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب نے یہ موقع اپنے فیصلے کے بھینٹ چڑھا دیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی نے اس کی تباہی کی رہی سہی کسر نکال دی اور مسلم لیگ ن نے اس کو درست کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔ چلیے مان لیا پہلے والے تو سارے کرپٹ تھے‘ یہ والے تو ایماندار ہیں‘ لیکن ان کو اب تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ سٹیل مل نباتات میں سے ہے یا حیوانات میں سے۔ ان کے دور میں بھی یہ اڑتالیس ارب کھا چکی ہے۔ اس سال مزید پچیس ارب کھا جائے گی۔ اس کا حساب جوڑیں تو ہر ٹیکس دہندہ کو گیارہ ہزار چھ سو چھ روپے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی قانونی مہارت اور عمران خان کے اخلاص کے بھینٹ چڑھانا پڑیں گے۔ جو پیسے ہم سٹیل ملز کی نذر کریں گے دراصل وزارت صنعت و تجارت کو جائیں گے جس کے وزیر حماد اظہر صاحب ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ حماد اظہر خاندانی طور پر لوہے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ 
پاکستان پیپلزپارٹی اپنے آخری دورِ حکومت میں پاکستان ریلویز کے تابوت میں کیلیں ٹھونکتی رہی لیکن پھر بھی یہ سخت جان ادارہ بچ گیا۔ اب اسے پالنا بھی ضروری ہے۔ حالت اس ادارے کی یہ ہے کہ اس کے وزیر شیخ رشید احمد ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن ریلوے کے بارے میں ان سے کچھ پوچھیں تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ ٹی وی والے ان کی ناراضی سے ڈرتے ہیں کہ ان کے بے معنی سے فرمودات سے شام کے پروگراموں کی رونق جڑی ہے۔ جہا ں تک خود اس ادارے کا تعلق ہے تو اسے مسلم لیگ ن کے دور میں سعد رفیق نے چلانے کی کوشش کی لیکن ہر سال پینتیس ارب روپے ہماری جیبوں سے نکال کر اس کی بھٹیوں میں جھونکتے رہے۔ نئی حکومت کا دعویٰ تھا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ٹھیک یہ ہوا کہ پچھلے سال انتالیس ارب روپے دیے تھے اب شاید چالیس ارب روپے مجھے اور آپ کو دینا ہوں گے۔ یعنی اٹھارہ ہزار پانچ سو ستر روپے فی ٹیکس دہندہ ریلوے کو چلانے کے لیے دے گا۔ یاد رہے کہ ان روپوں میں وہ رقم بھی شامل ہے جو اس محکمے کے وزیر ہفتے میں دو بار لاہور آکر اپنی پریس کانفرنس پر لگاتے ہیں۔ 
بجلی کا نظام مکمل طورپر حکومت کے ہاتھ میں ہے۔پاکستان میں جو چیز حکومت کے ہاتھ آجائے اس کی تباہی یقینی ہے۔ بجلی کا نظام اس کی بہترین مثال ہے۔ اگر آپ بجلی کا بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں تو دل تھام کر سنیے کہ پاکستان میں ہر سال ساٹھ ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ جھوٹ موٹ کے پاور پلانٹس سے لے کر کنڈا لگانے تک کے اس سلسلے میں جو بھی نقصان ہوتا ہے وہ بل دینے والوں کو بھرنا پڑتا ہے۔ پھر اس کے بعد نظام کے اندر چہار سو چھائی جہالت کا جرمانہ الگ ہے۔ بجلی چوری کا نقصان دینے کے علاوہ اس سال ہمیں ایک سو ستر ارب روپے اپنی جیب سے بجلی اور واپڈا کو دینے پڑیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر ٹیکس دہندہ پر اگر یہ رقم اوسطاً تقسیم کر دی جائے تو اٹھہتر ہزار نو سو بائیس روپے فی کس بنیں گے۔ بجلی چوری روکنے کیلئے نواز شریف نے دوہزار تیرہ میں مہم شروع کی لیکن پھر روک دی۔ دوہزار اٹھارہ سے پہلے اور بعد میں تحریک انصاف بجلی چوری ختم کرنے کے نعرے لگاتی رہی‘ اب یہ بھی خاموش ہے۔ معلوم نہیں ‘ وجہ شرمندگی ہے یا نالائقی لیکن حقیقت یہ ہے کہ چوری ہو رہی ہے اور مسلسل ہورہی ہے۔ چوروں کو پکڑنے کی بجائے یہ بجلی کی قیمت بڑھاتے جارہے ہیں تاکہ وہ شریف آدمی بھی چوری پر اتر آئے جو پورا بل ادا کرتا ہے۔ یاد آیا اس نالائقی کا جو نقصان آپ اور میں بھریں گے اس میں وزیر برائے بجلی کی بے پناہ قومی خدمات کا معاوضہ بھی شامل ہے۔
ظاہر ہے ان اداروں کے ہوتے ہوئے خزانے کے اندھے کنویں کو بھرنا صرف ٹیکس دینے والوں کی اوقات سے باہر ہے‘ اس کے لیے ان لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو بے چارے ٹیکس دے ہی نہیں پاتے۔ غریب آدمی سے ٹیکس کی وصولی کو سیلز ٹیکس کہا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں بہت سے خوش نصیب ہیں جو کماتے تو اندھا دھند ہیں لیکن ایک دھیلے کا ٹیکس بھی نہیں دیتے‘ اس لیے ان کا بوجھ بھی مجھے آپ کو ہٹانا ہے جو ہماری بساط سے باہر ہو چکا ہے‘ اس لیے قرضوں پر قرضے لینے پڑیں گے جو ہماری نسلیں ادا کریں گی۔ اب اس بات پر رونے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان صاحب آٹھ ہزار روپے کے ٹیکس اکٹھے کرنے کا دعوٰی کیا کرتے تھے اور انجام یہ کہ لوگوں سے خیرات و صدقات اکٹھے کرنے پر تلے ہیں۔ اس پر ماتم کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ چینی رپورٹ جیسی لایعنی پروپیگنڈا دستاویزات تیار کرکے ملک میں کاروبار کرنا مشکل کر دیا گیا ہے۔ ہاں اس بات پر سینہ کوبی کرنے کو ضرور دل چاہتا ہے کہ قرض نہ لینے کے ارادے باندھنے والی حکومت تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لینے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ یعنی بربادی و تباہی کی ستر سالہ داستان کا ایک اور خون آشام باب لکھا جا رہا ہے۔ تبدیلی کے نام پر آنے والی حکومت نے ہر اس مکھی پر مکھی ماری جو اس سے پہلے کی حکومتیں گزشتہ ستر سال سے مار رہی ہیں۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب کی بار نالائقی اگر زیادہ ہے تو دریدہ دہنی بھی خوب ہے۔ یہ ہماری جیبوں سے نکالتے ہیں اور ہمیں ہی باتیں بھی سناتے ہیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved