تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-06-2020

انڈین سروسز چیفس کا فیصلہ

'' تم ہمیں ہمالیہ میں تنگ نہ کرو‘ہم تمہیں کسی دوسری جگہ تنگ نہیں کریں گے‘‘ ۔ سینہ اور گردن اکڑا کر چلنے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے والا‘ لداخ میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے ہٹ جانے والا انڈین آرمی چیف اب خوف کو مصلحت کا نام دیتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کو کوئی خفیہ پیغام دینے کیلئے ڈرافٹ تیار کرتا ہے‘ پھر کچھ لائنیں کاٹ کر چند نئے الفاظ شامل کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ ڈرافٹ مکمل کرتے ہوئے مودی سرکار یہ سوچ سوچ کر کہ اگر یہ پیغام میڈیا پر آ گیا‘ تو مزید خجالت کا شکار ہو نا پڑے گا اور لوگ کیا کہیں گے کہ ابھینندن اور دو مگ طیاروں کی سبکی دور نہیں ہوئی تھی کہ اب چین کے ہاتھوں پھر سے پٹنا پڑرہا ہے‘ ہم جو بھی کر لیں‘ ہمالیہ کے اس میدان ِجنگ میں کسی بھی صورت چین کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ہو سکتا ہے کہ اس دفعہ1962ء سے بھی بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑے‘ جس کی عرصہ تک تلافی نہیں ہو سکے گی ‘ مبینہ بالا کوٹ ڈراما کی جو جھاگ ہم نے اڑائی تھی‘ وہ اگلے ہی دن ہمارے دو مگ طیاروں کے ملبے تلے دب گئی تھی اور اب نئی کالک لئے چین کئی کلو میٹر تک اس طرح ہماری حدود کے اندر گھستا چلا آ رہا ہے کہ بار بار کے ترلے منتوں کے با وجود واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ امریکہ کی دھمکیاں بھی اس پر کوئی اثر نہیں کر رہی ہیں۔ 
لداخ میں متوقع شکست اور درگت کا یقین ہونے کے بعد نریندر مودی اور اجیت ڈوول سمیت بھارت کے تمام سروسز چیفس کے ہونے والے ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ چین کو ہمالیہ کی بجائے کسی ایسے مقام سے انگیج کیا جائے ‘جہاں بھارت کی پوزیشن مضبوط اور چین کی کمزور ہو سکتی ہو۔ بھارت کی نظروں میں یہ کمزور محاذ بلا شبہ چین کا جنوبی سمندر ہو سکتا ہے ‘جس کیلئے گزشتہ پندرہ برس سے بھارت کےStrategic Analysts کی تیار کی جانے والی قیاس آرائیوں کو سامنے رکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کیلئے بھارت نے دو محاذ منتخب کر رکھے ہیں‘ جس پر بھارت کے تینوں سروسز چیفس اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے اس سلسلے میں مختلف گاہے بگاہے مشقیں بھی کی ہوئی ہیں‘ جنہیں انہوں نے اپنی کتابوں میںDiametrically Opposite Approaches کا نام دے رکھا ہے۔ اس رپورٹ کے مطا بق‘ اگر بھارت دیکھے کہ وہ اس قابل ہے کہ چین کو لداخ میں روک سکتا ہے تو حالات کے مطا بق‘ ہمالیہ میں اس کو دبانے کیلئے اپنی مرضی کے مقام سے لڑائی شروع کردے ‘کیونکہ گزشتہ دس برسوں میں بھارت کی فوجی طاقت کا موازنہ کریں تو اس کی فوج میں مائونٹین فورسز کی تعداد بہت بڑھا دی گئی ہے اور ان کو ان مقامات میں رہنے اور لڑنے کیلئے سب سے زیا دہ تربیت بھی دی جا چکی ہے اور ہمالیہ میں چند ایک پوزیشنز اس قدر بھارت کے حق میں ہیں کہ وہاں سے اپنے جدید اور بھاری انفراسٹرکچر کااستعمال کرتے ہوئے ‘ چین کو بھاری نقصان پہنچایا جا سکتا ہے‘ اگر بھارت اپنا یہ محاذ استعمال کرے‘ تو اس طرح وہ چین کو باور کروا سکتا ہے کہ وہ اسے یہاں مات نہیں دے سکتا ہے۔
انڈین تھنک ٹینکس نے اپنی ان کاغذی رپورٹس سے نتائج اخذ کرتے ہوئے بھارتی حملہ تو کرا دیا ہے‘ لیکن زمینی حالات کو سامنے رکھیں تو دو دن میں ہی چین کے ہاتھوں انڈین آرمی کی ایک کمپنی کی اچھی خاصی مرمت ہو چکی ہے اور بھارتی فوجیوں کے ایک سیکشن کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی بھارتی جوانوں کی چینی فوجیوں کے ہاتھوں دیکھی جانے والی تضحیک آمیزکی ویڈیوز نے پورے بھارت کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے‘ جس پر بھارت کی فوجی اور سیا سی قیا دت سوائے تلملانے کے کچھ نہیں کر سکی۔ انڈین آرمی چیف جنرل منوج جیسے شیخیاں بگھارنے والوں کی معنی خیز خاموشی نے جنتا کیلئے اور بھی پریشان کن صورت ِحال پیدا کر دی ہے ‘جس کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ بھارت کے سفارت کاروں‘ دانشوروں اور معاشیات کے ماہرین کی جانب سے مودی سرکار کو بتایا جا رہا ہے کہ چین کی خواہش ہے کہ بھارت اس سے ٹکرا جائے ‘کیونکہ وہ بھارت کی بطورِ معاشی حب پہچان کو کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ان کا کہنا ہے کہ چین ا س وقت سارک ممالک کو اپنے دام میں لانے کیلئے اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبے ان کی نظر کررہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بھارت کو فوجی‘ سیا سی اور معاشی طور پر اس قدر کمزور اور بے بس کر دیا جائے کہ نیپال‘ مالدیپ‘ بھوٹان‘ سکم‘ بنگلہ دیش‘ میانمار اور سری لنکا بھارتی اکانومی اور فوجی طاقت کے خوف سے بالکل آزاد ہو جائیں‘ اس لئے پردھان منتری جی ‘ہماری آپ سے بنتی(درخواست) ہے کہ اگر اس وقت چین سے براہ ِراست ٹکرائو ہو گیا تو یاد رکھئے گاکہ پاکستان1962 ء والی غلطی کبھی بھی نہیں دھرائے گا‘ جس سے کشمیر اور سیاچن ہمارے ہاتھوں سے نکل جانے کی صورت میں بھارت کا تمام غرور خاک میں مل سکتا ہے۔
چین اور بھارت کے متعدد فلیگ سٹاف اجلاسوں کے با وجود ہمالیہ میں صورت ِحال انتہائی گرم اور تشویش ناک ہونے کی وجہ سے بھارت کے تھنک ٹینکس کی جانب سے سیا سی اور فوجی قیا دت کے سامنے ایک دوسرا راستہ رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہمالیہ کے محاذ جنگ کو بھارت کے سینے پر لانے کی بجائے کیوں نہ چین کے جنوبی سمندروں اور بحیرۂ ہندکا محاذ منتخب کیا جائے ‘ جہاں صرف بھارت ہی نہیں ‘بلکہ امریکہ کے اتحادیوں کے طور پر جاپان‘ آسٹریلیا‘ ویت نام‘ اندونیشیا اور کسی بھی وقت فلپائن اور ملائیشیا بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے شامل ہو جائیں گے ۔ امریکہ کے سابق نیول چیف جیمز سٹیو نے اپنی حکومت کو تجویز دی تھی کہ چین کے خلاف ہماری سرد جنگ کے دوران انٹرنیشنل تعلقات کو خراب کئے بغیر اس کے سمندروں کے ارد گرد ممالک کو اپنے قریبی اور قابل اعتماد اتحادیوں میں شامل کرلینا چاہیے۔ خطے کے بہت سے ممالک بھارت جیسے بڑے ملک کے کردار کوMaritime Balance کیلئے پسند کریں گے۔ انڈین ٹھنک ٹینک کہتے ہیں کہ بھارت کو چاہیے تھا کہ چین کے سمندری گھیرائو کیلئے 10 برس پہلے متحرک ہو جاتا ‘بہر حال ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی بھارت کو فوری طور پر ملاکہ Straits کے مشرق اور بحیرۂ ہند میں اپنی تینوں فورسزکے مشترکہ آپریشن کیلئے مشقیں تیز کر دینی چاہئیں اور اب ‘بھارت کو چین کے چینی صدر شی پنگ سے مذاکرات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے نریندر مودی کو چاہیے کہ ویت نام‘ انڈونیشیا‘ سنگا پور اور ایسٹ تیمور کی قیا دت سے مضبوط دوستی کیلئے رابطے بڑھائے اور یہ سلسلہ صرف مذاکرات تک محدودنہ رکھا جائے‘ بلکہ انہیں چین کے خلاف ایک مستقل پیش بندی کیلئے اپنے ساتھ ملانے پر آمادہ کرے‘ کیونکہ کسی بھی زمینی محاذ کے کھلنے کی صورت میں پاکستان موقع سے بھر پور فائدہ ضرور اٹھائے گا اورہمارے پاس چین کے میدان ِجنگ ہمالیہ میں اپنی طاقت اور عزت جھونکنے کی بجائے سائوتھ چائنہ والے سمندر کومستقبل کی کسی بھی جنگ کیلئے اپنا محاذ بنانا ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved