تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-06-2020

’’غیر شخصی‘‘ زندگی

اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہمیں وہی کچھ عطا کیا جاتا ہے‘ جو ہم چاہتے ہیں۔ ہمارے تمام اعمال اور اُن کے اچھے یا بُرے نتائج کا مدار نیت پر ہے۔ ہماری خواہش یا تمنا سے بڑھ کر نیت ہے کیا؟ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان طرح طرح کی خواہشوں کے شکنجے میں جکڑا رہتا ہے؟ جو اس شکنجے کو توڑنے میں کسی حد تک کامیاب رہتے ہیں‘ وہی زندگی کا حق ادا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ یہ بات کم و بیش ہر انسان پورے وثوق سے کہتا ہے کہ آج کی دنیا خالص مادّہ پرست ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا ایسی کب نہیں تھی۔ کس دور کا انسان مادّہ پرست نہیں تھا؟ کب ایسا تھا کہ زندگی صرف خلوص‘ تہذیب اور شائستگی سے عبارت تھی؟ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہر دور کے انسان نے ذاتی مفادات کو باقی تمام امور پر ترجیح دی ہے؟ ایمان کی تو یہ ہے کہ انسان ہر دور میں ویسا ہی تھا جیسا آج ہے۔ فرق صرف معاملات کی نوعیت اور شدت کا ہے۔ دنیا پر مرنے والوں کی کمی کل تھی نہ آج ہے۔ 
کم و بیش چار برس سے دنیا کی امامت مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا کو چلانے والے بہت کچھ ایسا بھی کر گزرتے ہیں‘ جس میں کسی اور کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ کسی بھی بڑی قوت کے لیے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا کبھی زیادہ مشکل نہیں ہوتا ‘کیونکہ ہر صورتِ حال کا فائدہ اٹھانے کا انہیں بھرپور موقع ملتا ہے۔ مغرب نے بھی چار صدیوں کے دوران اپنی قابلیت‘ رجحان اور حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ کئی خطوں تک رسائی پانے کے بعد اُنہیں تاراج کرکے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ ''ایڈوانٹیج‘‘ یقینی بنانا مغرب کا مقصودِ حقیقی تھا اور ہے۔
آج کی دنیا میں ہمیں ایسی بہت سی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں‘ جن کا منبع یا مآخذ مغرب ہے۔ خالص مادّہ پرست سوچ مغرب نے دی ہے۔ اخلاقی اقدار کو خیرباد کہنے میں اہلِ مغرب نے زیادہ دیر نہیں لگائی۔ خاندانی نظام ترک کرنے میں اُس نے صرف پہل ہی نہیں کی ‘بلکہ باقی دنیا کو بھی اس راہ پر لگانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ مغربی میڈیا نے اپنی سوچ دوسرے خطوں پر مسلّط کرنے کے حوالے سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ خالص مادّہ پرست سوچ اپنانے کے معاملے میں پہل کرنے پر اہلِ مغرب نے ہمیشہ فخر کیا ہے۔ سو‘ سوا سو سال کے دوران مغرب نے غیر معمولی مادّی ترقی یقینی بنائی ہے۔ مختلف شعبوں میں پیش رفت کی انتہا ہوگئی ہے۔ میڈیا کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ ابلاغ کے ذرائع کی حیرت انگیز ترقی نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مغرب نے اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ باقی دنیا اُس کی سوچ اور طرزِ زندگی کے تابع ہو۔ اس سوچ کے اپنائے جانے کو یقینی بنانے کے لیے مغرب نے ہر وہ عمل کیا ہے‘ جو کیا جانا چاہیے تھا۔ یہ مغرب ہی تو ہے‘ جس نے کم و بیش تین صدیوں کے عمل میں دنیا کو بتایا ہے کہ زندگی کا ہر معاملہ خالص ''غیر شخصی‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ ہر قسم کے جذبات اور احساسات سے عاری کیفیت کے لیے انگریزی میں impersonal کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ مغرب نے اپنی طرزِ فکر و عمل سے دنیا کو صرف بتایا نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنے کی بھرپور شعوری کوشش بھی کی ہے کہ غیر شخصی زندگی ہی حقیقی معنوں میں زندگی ہے۔ خالص مادّہ پرست سوچ انسان کو یہ بتاتی ہے کہ یہی دنیا سب کچھ ہے۔ جب تک سانسیں تب تک ہی یہ تماشا ہے‘ اس کے بعد کچھ بھی نہیں ‘ یعنی ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست 
اس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لینے کی صورت میں اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی کچھ وقعت باقی نہیں رہتی‘ اگر چند ایک اخلاقی اقدار اپنائی بھی جاتی ہیں تو محض رسمی کارروائی کے طور پر اور وہ بھی خالص مادّی منفعت یقینی بنانے کی خاطر۔ مغرب میں سچ بولنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جھوٹ کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مغرب نے باقی تمام اچھائیوں کو بھی اپنالیا ہے۔ تصور یہ ہے کہ جی بھر کے غلط کام کرو ‘مگر چھپاؤ مت‘ جھوٹ مت بولو۔ مغرب غلط کام کرنے سے نہیں روکتا۔ سارا زور اس نکتے پر ہے کہ غلط کام کو چھپایا نہ جائے۔ سچ کا مفہوم اِتنا سا رہ گیا ہے کہ جو چاہو کرو‘ مگر کھل کر بیان بھی کرو‘ شرماؤ مت اور جھوٹ تو بالکل نہ بولو! 
مغرب نے تین چار صدیوں کے خالص مادّہ پرستانہ فکری ماحول میں ایسا بہت کچھ اپنایا ہے جو انسان کے فکری ورثے کے یکسر منافی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی کو خالص غیر شخصی انداز کی حامل بنانے پر غیر معمولی توجہ دی گئی ہے۔ اہلِ مغرب نے شعوری طور پر چاہا ہے کہ اِس دنیا میں بخشی جانے والی سانسوں ہی کو سب کچھ سمجھ کر جیا جائے اور اِس سے آگے کی کسی بھی منزل کے بارے میں سوچا بھی نہ جائے۔ زندگی بسر کرنے کا یہ خالص غیر شخصی انداز مغرب میں تمام اعلٰی اقدار کو ڈکار گیا ہے۔ غیر شخصی زندگی یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کا فائدہ دیکھے‘ دوسروں سے تعلق یا تفاعل خالص پیشہ ورانہ نوعیت کا ہو‘ ہر معاملے کو حقیقی مالی یا مادّی منفعت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے‘ زندگی کے روحانی پہلو کو زیادہ درخورِ اعتناء نہ سمجھا جائے اور ہاں‘ زندگی اِس طور بسر کی جائے کہ اُس پر خالص مالی منفعت کا پہلو نمایاں ترین اثر کا حامل ہو۔ مغرب نے خالص مادّہ پرست سوچ اپناکر اپنے لیے جس غیر شخصی یعنی جذبات و احساسات سے عاری زندگی کا اہتمام کیا ہے‘ اُسی کے ہاتھوں اُس پر قیامت سی گزر گئی ہے۔ 
اگر یہ کہا جائے کہ سبھی کچھ محض داؤ پر نہیں لگا ‘بلکہ ختم سا ہوکر رہ گیا ہے‘ تو مبالغہ نہ ہو گا‘ کیونکہ خاندانی نظام کی مٹی پلید ہوچکی ہے۔ شادی جیسا مقدس اور مطہّر ادارہ بھی غیر شخصی طرزِ فکر کی بھٹی میں جھونکا جاچکا ہے۔ جن یورپی ممالک کو فلاحی ریاستوں کا درجہ حاصل ہے‘ وہاں معاملہ یہ ہے کہ شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب 90 فیصد تک ہے۔ شادی کیے بغیر ساتھ رہنے اور بچے پیدا کرنے کو کسی بھی درجے میں قبیح فعل تصور نہیں کیا جاتا۔ مغرب نے عقل کو دنگ کردینے والے انداز کی مادّی ترقی کی ہے اور اس کے نتیجے میں طرزِ زندگی میں پیدا ہونے والی منفی تبدیلیوں کے ثمرات بھی بھگتے ہیں۔ اب ‘مغرب اپنی بربادی کو بھی ''ایکسپورٹ‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ باقی دنیا بھی خالص غیر شخصی طرزِ فکر و عمل کو اپنائے۔ لبرل ازم کے نام پر مغرب نے اپنے ہاں جن خرابیوں کو راہ دی وہی خرابیاں اب‘ وہ پوری دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے۔ باقی دنیا یہ سب کچھ لینے کو تیار نہیں۔ مغرب نے اس حوالے سے کوششیں تیز کردی ہیں۔ ہوسکتا ہے ‘مغرب کے اہلِ فکر و نظر یہ سوچ رہے ہوں کہ جب ہم برباد ہوئے ہیں تو باقی کیوں آباد رہیں! سیاسی اور معاشی معاملات میں نام نہاد برتری کا سہارا لے کر مغرب اب باقی دنیا میں شدید نوعیت کی معاشرتی خرابیاں پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اس حوالے سے باقی دنیا میں جو مزاحمت دکھائی دینی چاہیے ‘وہ دکھائی نہیں دے رہی!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved