تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     03-06-2020

رِستے ہوئے زخم اورفخریہ بیانیے

شاہ سے لے کر اس کے وفاداروں تک‘ مشیروں سے لے کر وزیروں تک‘ دربانوں سے لے کر ترجمانوں تک‘ سبھی شوگر کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے پر اس طرح نازاں اور اترائے پھر رہے ہیں کہ نجانے کونسا تاریخ ساز کارنامہ کرڈالا ہے۔سومنات کو کوئی مندر توڑ ڈالا ہے یا آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں اور یہ فخریہ بیان بھی سبھی کی زبان پر یکساں ہے کہ کمیشن کی یہ رپورٹ پبلک کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ ایسا اقدام ہے‘ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی ماضی کی کسی حکومت نے اس اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔
کمیشن کی رپورٹ پر بات کرنے سے قبل انصاف سرکار کے اس فخریہ بیانئے کی طرف چلتے ہیں ؛یہ کوئی پہلا اور اکلوتا اقدام نہیں‘ جس کی ماضی میں مثال نہ ملتی ہو‘ نجانے کتنے ہی اقدامات انصاف سرکارکے کریڈٹ پر ہیں ‘جو ماضی کے بدترین ادوار میں بھی نظر نہیں آتے۔نیت سے لے کر معیشت تک‘ ضابطوں سے لے کر قانون تک‘ بدانتظامیوں سے لے کر بدعنوانیوں تک‘ بدعہدی سے لے کر خود غرضی تک‘ اقربا پروری سے بندہ نوازی تک‘ وسائل کی بربادی سے لے کر ذخائر کی بندر بانٹ تک‘ اداروں سے لے کر وزارتوں تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ سماجی انصاف اور کڑے احتساب سے لے کر اخلاقی قدروں تک‘ سبھی کا جو حشر نشر ہو چکا اور جو اندھیر 22ماہ میں مچایا گیا ہے ‘وہ گزشتہ کئی دہائیوں میں دیکھا نہ سنا۔ 126دن کنٹینر پر کھڑے ہوکرجن ناحق مارے جانے والوں کے خون کو گواہ بنا کر عوام کا خون گرمایا کرتے تھے۔ان کی روحیں آج بھی انصاف کے لیے بے چین اور بھٹکتی پھرتی ہیں۔ 12 مئی 2007ء کا دن حکمرانوں کویاد ہو گا کہ جب دن دیہاڑے کراچی کی سڑکوں پر ''خون کی ہولی‘‘ کھیلی گئی‘ اُنہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ وہ خود اس خونریزی کی انکوائری اور ذمہ داروں کے تعین کا مطالبہ کرتے نہ تھکتے تھے‘ بلکہ سانحہ 12 مئی کے متاثرین کو انصاف دلوانے سے لے کر ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ بھی دھرنوں اور انتخابی تحریک کا حصہ رہا‘اسی طرح سانحہ بلدیہ ٹاؤن جیسے ظلم پر بھی آپ کس طرح سراپا احتجاج نظر آتے تھے۔ ان ناحق مارے جانے والوں کے لواحقین آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں‘ مگر سرکار اب‘ انصاف دلانے کی بجائے وکٹ کی دوسری جانب کھڑی دکھائی دیتی ہے۔غالباً سیاسی مصلحتیں انصاف کے اصولوں پر غالب آچکی ہیں۔ اقتدار کے دوام کی خواہش عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر غالب آ چکی ہے‘مگر تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی وطن ِ عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا‘ نہ وہ رہا اور نہ ہی اُس کا اقتدار۔ آج کون کس حال میں ہے؟یہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سیاسی منڈپ پر بیٹھ کر ا ن سانحات میں مارے جانے والوں کے نوحے پڑھنے والوں ‘ کس طرح سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے خون کاحساب مانگا کرتے تھے۔کہاں گئیں ‘وہ جے آئی ٹیز؟وہ کمیشن کیا ہوئے؟ وہ انکوائریاں کہاں رہ گئیں؟ جو ان سانحات کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے قائم کی گئی تھیں۔ رائو انوار اور عزیر بلوچ سمیت نجانے کتنے کردار ایسے ہیں ‘جنہیں نشان عبرت بنانے کا بیڑا تحریک انصاف اٹھائے پھرتی تھی۔ان سانحات میں مارے جانے والوں کے متاثرہ خاندانوں میں شوگر کمیشن کی اس رپورٹ کے تعویذ بناکر تقسیم کرکے دیکھیں‘ شاید ان کے دلوں کو قرار آجائے۔ ان کی بھٹکتی ہوئی روحوں کو چین آجائے کہ انصاف سرکار نے بھلے ان کے ناحق خون کا حساب نہیں لیا‘ لیکن برسوں سے رستے ہوئے ان کے زخموں پر چینی ضرور انڈیل دی ہے‘ تاکہ مکھیوں کا جمگھٹا لگا رہے ‘جو ان کے زخموں کو چاٹ چاٹ کر نا صرف ہرا رکھیں‘ بلکہ کبھی بھرنے نہ دیں۔اب‘ واپس چلتے ہیں اُس رپورٹ کی طرف‘ جس میں شوگر ملز مالکان نجانے کونسی سلیمانی ٹوپیاں پہن کر بوگس درآمد کرکے سبسڈی سے مال بناتے رہے ۔سلام ہے ایسی رپورٹ مرتب کرنے والوں کو کہ جنہوں نے شوگر ایڈوائزری بورڈ سے لے کر اسدعمر ‘ عثمان بزدا راور جواں ہاشم بخت صاحبان سمیت متعلقہ کسی سرکاری ادارے پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی اور نہ ہی کوئی سزاتجویز کی ۔شوگر کمیشن رپورٹ پر شعلہ بیانی اور پریس کانفرنسز کرنے والی منتخب اور غیرمنتخب شخصیات نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کابینہ میں شامل اور شریک اقتدار خسرو بختیار صاحب کو کونسا شوکاز دیا گیا اور ان سے استعفیٰ کب طلب کیا جارہا ہے؟جبکہ صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کو بلی کا بکرا بنانے کے باوجود اس شوگر سکینڈل میں ان کا کردار تاحال معما ہے ۔ سفارشات پر مبنی اس رپورٹ میں نجانے کون سے صفحے اور کون سے پیرے پر نظر نہ آنے والے وہ کون سے فیصلے ہیں‘ جن کی بنیاد پر دھواں دھار پریس کانفرنسز کے ساتھ طوفان اٹھایا جارہا ہے۔اس کمیشن میں تحقیقاتی اداروں کی معاونت کے لیے فرانزک آڈٹ کے ماہرین اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو شامل نہ کرنا بھی ایک بڑا اور کڑا سوال ہے اوران ماہرین کے بغیر فرانزک آڈٹ‘ کیوں کر ممکن ہے۔آئی پی پیز پر کڑی تنقید کرنے والے آج برسر اقتدار آکر اس کی رپورٹ پبلک کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں‘جبکہ کیا وزیر ‘کیا مشیر سبھی اس پر بات کرنے سے ناصرف گھبراتے ہیں ‘بلکہ سوالات پر لاجواب ہی نظر آتے ہیں۔اس تناظر میں سرکار دوہرے معیار پر کاربند نہیں کثیر المعیار کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔
بدقسمتی سے ہر دور میں حکمرانوں کے بعض رفقاء اور مصاحبین ان کے پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بنتے چلے آئے ہیں۔ سقراط‘ بقراط ٹائپ ''کرداروں‘‘ نے پوری حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیاہے۔اس کوئے سیاست میں کوئی کسی کا بھائی ہے‘ نہ بہن‘ کوئی دوست ہے‘ نہ رفیق‘ ہمنوا ہے‘ نہ کوئی ہمراز‘ یہاں بس ایک ہی رشتہ چلتاہے‘ وہ ہے مفادات کا۔ جب تک مفادات چلتے رہیں گے‘ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے واری واری جاتے رہیں گے‘جہاں مفادات کو خطرہ لاحق ہو یا مطلب نکلتے ہی ''اصولی سیاست‘‘ کا بخار اور عوام کا درد یوں جاگ جاتا ہے کہ''واری واری‘‘ جانے والے‘ چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمیت کچھ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ آف دی ریکارڈ رازونیاز پَل بھر میں وائٹ پیپر بن جاتے ہیں اوراس قدر گند اچھالا جاتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔
سنسکرت زبان میں تین ضدیں بڑی مشہور ہیں‘ جو آج نہ جانے کیوں بے اختیار یاد آ گئیں۔ یہ ضدیں کچھ یوں ہیں ؛بال ہٹ‘ تریا ہٹ اور راج ہٹ۔ ان کا مطلب بھی بتاتا چلوں‘ بال ہٹ (بچے کی ضد)‘ تریا ہٹ (عورت کی ضد) اور راج ہٹ (حکمران کی ضد)‘ ہمارے ہاں سیاست اور ریاست میں یہ ساری ضدیں بھی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اکثر فیصلہ ساز اور اربابِ اختیار بچے کی طرح ضد لگا بیٹھتے ہیں‘ جس پر سننے اور دیکھنے والا بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے ''یہ کیا بچوں والی ضد لگا رکھی ہے‘‘ گویا اس ضد کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے اور اقدامات طفلانہ حرکت سے کم نہیں ہوتے‘بھلے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ عورت کی ضد کے بے شمار واقعات اور مناظر ہماری ریاست و سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست ہو یا ریاست عورت کا کردار بہرحال کلیدی اور بعض اوقات فیصلہ کن بھی نظر آتا ہے۔ ماضی سے لے کر دورِ حاضر تک‘ خواب سے تعبیر تک‘ خیال سے تکمیل تک‘ ذاتی خواہشات سے من مانی اور بغاوت تک‘ رائے اور مشورے سے دوٹوک فیصلوں تک ''تریا ہٹ‘‘ کے بے شمار واقعات کوئے سیاست سے ایوانِ اقتدار تک عورت کی اہمیت ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ان واقعات کی تفصیل میں جانے سے احتیاط بہتر ہے اور رہی بات ''راج ہٹ‘‘ کی‘ اس کا تو کوئی ''اَنت‘‘ ہی نہیں ۔
چلتے چلتے اس خط کا ذکر بھی کرتاچلوں جو وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وزیراعظم کو لکھا ہے۔ وزیر موصوف نے نواز شریف کی رپورٹوں کو جعلی قرار دیتے ہوئے ان کے تشخیصی ٹیسٹ اور علاج معالجہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ‘جبکہ وہ نواز شریف کی بیماری کو لے کر نظام پر پہلے ہی سوال اٹھاچکے ہیں۔ برطانیہ میں نوازشریف کی سرگرمیوں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر پر واویلا کرنے والے انصاف سرکار کے چیمپئنز کو کو ئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ اب‘ تحقیقات کروائو یا نہ کرواؤ دونوں صورتوں میں سبکی کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved