تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     04-06-2020

کورونا کی حشر سامانیاں اور ہماری بے اعتدالیاں

یہ شاید میری زندگی کا تیسرا کالم ہے جسے میں یوں سپردِ قلم کر رہا ہوں جیسے کوئی اپنے پیارے کو سپردِ خاک کرتا ہے۔ میں لکھ رہا ہوں اور زاروقطار آنسو میری آنکھوں سے رواں ہیں۔ یہ مالاکنڈ ڈویژن کے خوبصورت علاقے شانگلہ کے ایک گائوں کا منظر ہے جہاں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے 65 سالہ محمد زار کی میت کو چار پانچ اجنبی ہیلتھ ورکر سفید وردیاں پہنے ہوئے لحد میں اتار رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے لائوڈ سپیکر پر اعلان کردیا ہے کہ متوفی کا کوئی رشتہ دار قریب نہ آئے اور نہ ہی کوئی دیہاتی تدفین کے کام میں ہاتھ بٹانے کیلئے آگے آئے۔ محمد زار کا 21 سالہ بیٹا بے بسی کی تصویربنا دور کھڑا ہے۔ اسے قریب آنے، تابوت کوکندھا دینے، بلکہ چھونے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ 
لاہور سے یہ میت شانگلہ کیسے پہنچی، بے حسی کے اس موسم خزاں میں یہ انسانی ہمدردی اور عظمت کا ایک عجیب شاہکارہے۔ جب 65 سالہ محمد زار قرنطینہ ہونے کیلئے لاہور کے ایک ہسپتال پہنچا تو اس کی نگہداشت پر ایک نوجوان ڈاکٹر حافظ ثنااللہ مامور تھا۔ حافظ ثنااللہ نے بتایا کہ 65 سالہ پروفیشنل باورچی سے اس کی دوستی ہوگئی۔ نوجوان ڈاکٹر اس بزرگ کا دل بہلانے کیلئے اس کے ساتھ باتیں کرتا، اس کی دلجوئی کرتا اور محمد زار اسے اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سناتا۔ اس روز ڈاکٹر حافظ ثنااللہ جب کورونا وارڈ پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا بزرگ دوست کورونا کا شکار ہوکر اس جہانِ فانی سے کوچ کرگیا ہے۔
ڈاکٹر حافظ ثنااللہ نے سات روزہ عقیدت مندانہ دوستی کا حق ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ڈبلیو ایچ او کے قواعدوضوابط کے مطابق محمد زار کی میت کو خودڈس انفیکٹ کیا، اسے غسل دیا‘ پھراسے پلاسٹک بیگ میں بند کیا اور اپنے بزرگ دوست کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی۔ اس نماز میں اس کے ساتھ وارڈ کے چارپانچ ہیلتھ ورکرز تھے۔ ینگ ڈاکٹر نے میت کیسے شانگلہ پہنچائی یہ ایک الگ داستان ہے۔ میں چشم تصور سے محمد زار کے 21 سالہ بیٹے کو اپنے والد کی تدفین کے موقع پر بے بسی میں آنسو بہاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں‘ کل خدانخواستہ یہ وقت مجھ پر آگیا تو میرے جاں نثار بیٹے کسی دورافتادہ قبرستان میں میری تدفین کے موقع پربے بسی میں آنسو بہا رہے ہوں گے، میرے دست و بازو بھائی کہیں دور کھڑے اس کارروائی کے جلدازجلد خاتمے کے منتظر ہوں گے، میرے کئی شفیق بزرگوں کو اُن کے احتیاط پسند فرزندوں نے گھر سے ہی نہ نکلنے دیاہو گا اور پھر میری زندگی کی سب سے بڑی کمائی مجھ پر جان چھڑکنے والے میرے مخلص دوست ''شرعی وطبی عذر‘‘ کی بنا پرقبرستان ہی نہ آئے ہوں گے۔ شاید کوئی اِکادُکا آ بھی جائے۔ اسداللہ غالب نے کہا تھا:
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی شرم
مرے خدا! کیا مرے اپنے وطن میں مری بیکسی کی تو لاج نہ رکھے گا؟ مرے خدا! کیا مری موت ایک بیکسی کے عالم میں ہو گی۔
آج کل جس طرح سے پاکستان میں کورونا اموات کی تدفین کے بارے میں افواہیں پھیلی ہوئی ہیں، اپریل کے اوائل میں اسی طرح کی افواہیں نیویارک میں پھیلی ہوئی تھیں۔ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (کیئر) سے نیویارک سے ڈائریکٹر راجہ عبدالحق نے بتایا کہ مسلمان کورونا میتوں کے بارے میں یہ افواہیں کہ انہیں اجتماعی قبروں میں پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیاجاتا ہے بالکل بے بنیاد ہیں۔ اسلامک سنٹر نیویارک کورونا میتوں کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ فیملی اورفرینڈز کی موجودگی میں دفنانے کا کارِخیر انجام دے رہا ہے۔ 
پاکستان میں اس وقت کورونا میتوں کی تدفین کے بارے میں جونام نہاد احتیاطی تدابیر اختیارکی جا رہی ہیں وہ ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کے سراسر منافی ہیں۔ ''اجنبی روبوٹس‘‘ کے ہاتھوں کورونا میت کی تدفین کا ''مگروں لاہو‘‘ والا طریقہ بالکل غلط ہے۔ ساری قوم کو پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹرافضل کا شکرگزار ہونا چاہئے جنہوں نے عالمی سطح پر زبردست ریسرچ کرکے بتایا ہے کہ کسی کورونا میت کوجراثیم سے پاک کرکے اور احتیاطی غسل دے کر ورثا کے حوالے کیا جا سکتا ہے اور اقربا اور احباب تابوت کو چھو سکتے ہیں، اسے کندھا دے سکتے ہیں اور اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارسکتے ہیں۔ میت کے تابوت سے دور رہنا، میت کی اشیا کو نذرِآتش کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے کورونا میت کی تدفین کے قواعدوضوابط بنا کر سندھ حکومت کو تمام ذمہ داری کے ساتھ پیش کیے ہیں جسے اس نے ناصرف قبول کیا ہے بلکہ نوٹیفکیشن جاری کرکے نافذ بھی کردیا ہے۔ جہاں تک وفاقی اور پنجاب حکومت کا تعلق ہے وہ حسبِ معمول گومگو اور کنفیوژن کا شکار ہے۔ ڈاکٹرافضل اور ڈاکٹر عمارہ نے بتایا کہ ورثا کو اپنے پیاروں کی کورونا تدفین کی اجازت دینے سے ایک بہت بڑا جذباتی مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے اور لواحقین کوجان لیوا دوہری اذیت سے بچایا جا سکتاہے۔ 
اس وقت گورننس ہمارا بڑا مسئلہ ہے یا کورونا؟ میں پورے شرحِ صدر کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ اس وقت ملک میں گڈگورننس ہے نہ بیڈگورننس بلکہ سرے سے گورننس ہی نہیں۔ گورننس کیا ہے؟ گورننس واضح ترجیحات کاتعین اور اُن پر مکمل عملدرآمد ہے۔ کورونا کے روزِ اوّل سے حکومت متردّد ہے، لاک ڈائون لگانا ہے یا نہیں لگانا، ٹیسٹ کرنے ہیں یا نہیں کرنے، اجتماعی مدافعت کی طرف جانا ہے یا نہیں جانا، کاروبار کھولنے ہیں یا نہیں کھولنے، ہرکام اس وقت تک حکومت نے ڈھلمل یقین ہوکر کیاہے۔ اس ڈھلمل یقینی کی مرکزی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ جب سے ڈھیلا ڈھالا لاک ڈائون نوے پچانوے فیصد نرم ہوا ہے اس وقت سے لے کر اب تک روزانہ ستر اسی افراد کورونا کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے ہیں، ان میں وزرا بھی ہیں، ممبران اسمبلی بھی ہیں، افسران بھی ہیں اور عوام بھی ہیں۔ ہم نے پہلے دواڑھائی مہینے ضائع کیے۔ اُن دنوں سعودی عرب نے بہت سخت لاک ڈائون کیا۔ ذرا سی خلاف ورزی پر دس ہزار ریال جرمانہ اور جنوبی کوریا میں اڑھائی ہزار ڈالر جرمانہ‘ جبکہ ہم نے بڑی تاخیرکے بعد نیم دلی کے ساتھ ماسک کی پابندی لگائی ہے۔
ہم نہایت ذمہ داری کے ساتھ کورونا جیسے وبائی امراض کے عالمی ماہرین سے تبادلۂ خیال کرکے بتا رہے ہیں کہ حکومت کواس مرض کی شدت اور پیچیدگیوں اوراس کے علاج کی دقتوں کے بارے میں کچھ علم نہیں‘ نہ ہی وہ ماہرین کی بات سننے کوتیار ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر کہ جنہوں نے پیچیدہ مریضوں کی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں وینٹی لیٹر وغیرہ استعمال کرنے اورمریض کو بچانے کی تیس سالہ ٹریننگ لی ہے، نے بتایا کہ پاکستان میں صرف میڈیا پر یہ دعویٰ کردیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس اتنے وینٹی لیٹرہیں مگر ان کو درست طورپر استعمال کرنے والے ڈاکٹر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں‘ اسی لیے وینٹی لیٹرز پر پاکستان میں اتنی زیادہ اموات ہورہی ہیں۔ ہم زبانی کلامی کورونا مسیحائوں کے گن گاتے ہیں مگراُن کی سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں میو ہسپتال کے کورونا پر مامور دوڈاکٹروں پر رات اڑھائی بجے بے نظیر ہسپتال کی ایک لیڈی ڈاکٹر اور سروسز ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مریضوں کے لواحقین نے حملہ کیا۔ دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ اب تک 1232 ڈاکٹرزکورونا کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے تقریباً 20 شہید ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں اُس وقت تک کورونا کی حشر سامانیاں جاری رہیں گی جب تک جناب وزیراعظم حقیقی قومی مشاورت سے کورونا سے نبردآزما ہونے کا فیصلہ نہیں کر لیتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved