تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-06-2020

انسان کی مراجعت و رحلت…(1)

کہتے ہیں کہ دنیا کے 99.9فیصد انسان ‘جس طرح پیدا ہوتے ہیں ‘ اسی طرح مر جاتے ہیں ۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ انسان اپنی افتادِ طبع پہ چل رہے ہوتے ہیں ۔ یہ افتادِ طبع کیا ہے ؟یہ آپ کی فطرت ہے ۔ یہ فطرت کیا ہے ؟ یہ آپ کا رجحان ہے ‘ یہ آپ کی جبلت ہے ۔ جبلت کیا ہے ؟ یہ کروڑوں برس میں پختہ ہو جانے والی وہ عادات ہیں ‘ جو جانوروں اورانسانوں میں مشترک ہیں ۔ درحقیقت یہ جانوروں سے ہی انسانوں میں آئی ہیں ۔ آپ یہ سوچتے ہیں کہ انسان جانوروں سے بہت زیادہ مختلف ہے ۔ چلیں ‘ ہم مان لیتے ہیں کہ انسان میں جانوروں سے کوئی چیز نہیں آئی ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ بلڈ پریشر انسانوں میں ویسا ہی نہیں ‘ جیسا جانوروں میں ؟ جانوروں کے سارے اعضاء اسی طرح کام کرتے ہیں ‘ جیسا کہ ہم انسانوں میں ‘ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہو گئی اناٹومی کی بات ۔ مزاج کے حساب سے بتائیں کہ کیا چیز مشترک ہے؛ جانوروں اور انسانوں میں ؟؟
حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ مشترک ہے ۔ مثال کے طور پر آپ یہ بتائیں کہ جب ایک مرد تولیدی فعل کرتاہے تو کیا اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق باقی رہ جاتا ہے ؟ سائنس یہ کہتی ہے کہ حیاتیاتی طور پر انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔ سانس لینے سے لے کر جسم میں خون پمپ کرنے تک ‘ پیش تر اعضاء اورسارے نظام تو مشترک ہیں ۔ آپ ایک کتے کو گوشت ڈالیں یا پھر اسے پتھر ماریں ‘ وہ اسی طرح خوشی اور غصے کا اظہار کرے گا ‘ جس طرح ایک انسان کو دولت دے دی جائے یا اس کی کوئی چیز چھین لی جائے ۔ 
سائنسدانوں نے ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے بندر سدھائے۔ بندر کو ایک خاص کام کرنے پر انعام دیا جاتا تھا۔ یہ انعام کیا تھا ؟ یہ کھیرے کا ایک ٹکڑا تھا ۔ سائنسدان نے ایک سدھائے ہوئے بندر کے پنجرے کے اندر ایک کنکر رکھا۔ اس نے کنکر اٹھا کر پنجرے کی سلاخوں سے باہر رکھ دیا۔انعام کے طور پر اسے کھیرے کا ایک ٹکڑا دیا گیا۔ یہ عمل پچیس دفعہ دہرایا گیا۔ اب‘ اس تجربے میں نیا موڑ آتا ہے ۔ ایک اور سدھایا ہوا بند رلایا گیا اور اسے ساتھ والے پنجرے میں بند کر دیا گیا۔ نئے بندر کو یہی عمل دہرانے پر ایک انگور دیا گیا۔ پرانے بندر نے جب یہ دیکھا تو اسے غصہ چڑھ گیا۔ اب ‘پرانے بندر کے پنجرے میں کنکررکھا گیا ۔ اس نے کنکر باہر رکھا تو اسے وہی کھیرے کا ٹکڑا۔ کھیرے کا یہ ٹکڑا اس نے قبول تو کر لیا ‘ لیکن اس کے تاثرات بگڑے ہوئے تھے ۔اب‘ نئے بندر کے ساتھ وہی عمل دہرایا گیا ۔ انعام کے طور پر انگور‘ پرانا بندر بے تابی سے انتظار کر رہا تھا۔ اسے کنکر دیا گیا۔ اس نے کنکر باہر رکھا ‘ اسے کھیرے کا ٹکڑا ہی پیش کیا گیا۔ 
یہ وہ وقت تھا‘ جب پرانے بندر نے محسوس کیا کہ بہت ہو چکا۔ اس نے وہ کھیرااٹھایا اور پنجر ے سے باہر پھینک دیا۔ پنجرے کی سلاخیں پکڑیں اور زور لگانے لگا ۔ وہ اس بے انصافی پر سخت مشتعل تھا؛حالانکہ جب یہ بندر اکیلا تھا‘ تو اس نے پچیس دفعہ کھیرے کا ٹکڑا قبول کیا تھا۔ یہ وہی رویہ ہے ‘جو ہم انسانوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ سو فیصد وہی ۔ کوئی فرق نہیں ۔ نا انصافی پرانسان اور بندر ایک طرح سے مشتعل ہوتے ہیں ۔ گو کہ انسان نے لباس پہن رکھا ہے ۔ گو کہ وہ پڑھ لکھ سکتا ہے‘ لیکن مزاج یا جسے ہم نفس کہتے ہیں ‘ وہ دونوں کا بالکل ایک جیسا ہے ۔ 
آپ ایک تجربہ کریں ۔ سکول کے دو ہم جماعت لڑکے لیں۔ انہیں درخت پر چڑھنے کا کہیں ۔ ایک کو انعام میں سو روپے دے دیں اور دوسرا کو پانچ ہزار۔ اس کے بعد آپ سو روپے والے کی شکل دیکھیں ۔ آپ کو اس میں اور کھیرے والے بندر میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا ۔ اسی طرح باپ اولاد میں سے ایک کو جائیداد میں زیادہ حصہ دے دے تو باقیوں میں یہی جذباتی ردّعمل نظر آتاہے ۔ 
وہ لوگ صفر اعشاریہ ایک فیصدہیں ‘ جو مشتعل نہیں ہوتے ۔ انہیں معلوم ہوتاہے کہ یہ چیز میری ہے ہی نہیں ۔ میرے نصیب میں لکھی نہیں گئی۔ میرے رزق کا حصہ نہیں اور میں جو مرضی کر لوں ‘ اسے استعمال نہیں کر سکتا۔ اسی طرح انہیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جو چیز میری ہے ‘ وہ مجھ تک پہنچ کر رہے گی اور میں ہی اسے استعمال کروں گا۔ یہ صفر اعشاریہ ایک فیصد لوگ اولیائے اللہ ہیں ۔ انہیں یہ بات معلوم ہے کہ میرے ہاتھ سے تو کوئی چھین سکتاہے ‘ مقدر میں سے نہیں ۔ 
تو ہم سب اسی مزاج کے ساتھ مرتے ہیں ‘ جس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ اولیائے اللہ ‘چونکہ زندگی میں ہر لمحہ علمی ترقی کا سفر طے کر رہے ہوتے ہیں ‘ اس لیے وہ عا م لوگوں کی طرح مشتعل نہیں ہوتے ۔ نہ وہ عام لوگوں کی طرح خوف اور غم کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ پرسکون رہتاہے ۔ جتنی دیر ایک انسان کا دماغ غصے یا کسی بھی جذباتی کیفیت کا شکار ہوتا ہے ‘ اتنی دیر اس کا دماغ تکلیف میں رہتا ہے ۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں کہ شدید بھوک کی حالت میں انہیں کوئی ایک چپاتی پیش کرے‘ تو وہ کسی سائل کو دے دیتے ہیں اور پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ مجھے زیادہ بھوک لگی ہے ‘لہٰذا یہ رزق میرا نہیں تھا۔ کچھ دیر میں ان کا رزق کہیں اور سے انہیں پہنچا دیا جاتاہے ۔ یہ ہوتاہے توکل ۔ اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ اگر تم اس طرح توکل کرو ‘ جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا‘ جس طرح پرندوں کو دیا جاتاہے ۔ صبح وہ خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شا م کو بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں ‘پھر وہی بات ‘انسان اسی state of mindکے ساتھ مر جاتاہے ‘ جس افتادِ طبع کے ساتھ وہ پیدا کیا گیا تھا ۔ تحصیل ِعلم جو نہیں ہوتی۔ (جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved