یہ ملک کے سینئر سیاستدان اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت ہے جسے ملک کے قدیم اور معتبر ادارے فیروز سنز نے چھاپ کر شائع کیا ہے۔ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے:چوہدری پرویز الٰہی کے نام، جو میرے عزیز از جان بھائی بھی ہیں، میرے بہترین دوست بھی ہیں اور آغازِ سیاست سے میرے سیاسی ہمسفر بھی ہیں۔
یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ملکِ عزیز میں آج سیاست کو سمجھنے والا چوہدری صاحب کا ہم پلّہ کوئی بھی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ہمارے پاس صرف دو مثالیں ہیں، پیر صاحب پگاڑا اور نوابزادہ نصر اللہ خاں۔ کوئی سوا تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جو ایک نہایت قیمتی اور چشم کشا دستاویز بھی ہے، صاحبِ موصوف نے اپنے آغازِ سیاست سے لے کر ماضیٔ قریب تک کے تمام اہم واقعات ایک دلنشیں انداز میں کھل کر بیان کر دیئے ہیں۔سرورق چوہدری صاحب کی تصویر سے مزیّن ہے جبکہ پسِ سرورق تحریر کے مطابق ''یہ خود نوشت ہے چوہدری شجاعت حسین کی، جنہوں نے سیاست میں کبھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ایک سپاہی کے بیٹے سے منتخب وزیراعظم کے منصب تک پہنچے۔ساتھ ہی سر گزشت ہے چوہدری پرویز الٰہی کی جنہوں نے بطور وزیراعلیٰ‘ پنجاب میں برسوں کے سیاسی اور انتظامی جمود کو توڑا اور اپنے پانچ سالہ دور میں اس کو ہر لحاظ سے ایک مثالی صوبہ بنا دیا۔ پھر تذکرہ ہے چوہدری ظہور الٰہی شہید کا جنہوں نے سیاست میں تا دمِ شہادت کلمۂ حق بلند کیا۔ بے انتہا مصائب سہے لیکن کبھی سر نہیں جھکایا۔ ان کی اسیری کے دوران انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ورلڈ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں ضمیر کا قیدی قرار دیااور کہانی ہے پاکستان کے ایک سیاسی خاندان کی جس نے سیاست میں کبھی اپنے عزّت و وقار پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ہر طرح کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا‘‘۔
ہمارے وزرائے اعظم یا صدور مملکت کی طرف سے خود نوشت کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں، شاید اس لیے کہ کسی نے بھی اپنے سیاسی سفر اور زندگی کو اس قابل نہیں سمجھا۔ چوہدری صاحب اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔پیش لفظ میں کچھ احباب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد جنہوں نے کسی نہ کسی طرح اس تاریخی دستاویز کی تکمیل میں تعاون کیا، انہوں نے اپنے بزرگوں کے تعارف سے کتاب کا آغاز کیا ہے اور اس کے بعد زندگی میں پیش آنے اور نظروں سے گزرنے والے واقعات کو ایک عینی گواہ کے طور پر عیاں کر دیا ہے جو فکشن سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ پسِ سرورق چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ان کی تصویر ہے جبکہ کتاب کے اندر بھی مشاہیرِ عالم کے ہمراہ ان کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔ اندرونی فلیپ پر صاحبِ موصوف کا مکمل تعارف درج ہے اور جن جن عہدوں پر وہ براجمان رہے ہیں جبکہ دوسرے اندرون سرورق پر اسی طرح چوہدری پرویز الٰہی کا تعارف درج ہے۔ کتاب کو سفید کاغذ پر نہایت اعلیٰ اور شایانِ شان گیپ اپ میں شائع کیا گیا ہے۔کتاب کا عنوان ''سچ تو یہ ہے‘‘ کی بجائے کچھ اور بھی ہوتا تو کتاب کے صفحات پر بکھرا سچ صاف نظر آتا جبکہ یہ ساری تاریخ انہوں نے پوری دیانتداری کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دی ہے اور بہت سی عظیم خود نوشتوں کی یاد تازہ کر دی ہے کیونکہ یہ واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے سے بھی گزرے ہیں اور جس طرح کی ہنگامہ خیز زندگی انہوں نے گزاری ہے، عوام کو اس کا صحیح عکس دکھانا بھی ضروری تھا اور جس کا حق انہوں نے ادا کر دیا ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ یہ دوسرے سیاستدانوں کے لیے بھی ایک سبق اور ترغیب کی حیثیت رکھتی ہے یعنی ع
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کُنند
فیروز سنز بھی اس کی اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اور، اب آخر میں عامر سہیل کی غزل:
تیرے بدن پہ خاک نژادوں کے دستخط
یادوں کے دستخط ہیں یہ وعدوں کے دستخط
اور حُور جو بُتوں کی جوانی میں بسکٹی
اور ہجرتوں کے اور فسادوں کے دستخط
ہم نام نام تیری طرف دوڑتے ہوئے
یہ شام شام تن پہ لبادوں کے دستخط
سب یار میرے کون طرف یار رہ گئے
اس آخری غزل پہ ہیں آدھوں کے دستخط
شہ زادیوں کے ساتھ ہو، مہ زادیوں کے ساتھ
تجھ حسن پر نہیں ہیں پیادوں کے دستخط
مٹی کی کائنات بکھرنے پہ آ گئی
غیض و غضب کے اور عنادوں کے دستخط
سرخ و سفید بیل جو کاندھے سے جھڑ گئی
ہاتھوں سے جھڑ گئے ہیں ارادوں کے دستخط
چھلنے لگا ہے جسم، پھسلنے لگا ہے جسم
کمرہ بھرا ہوا ہے برادوں کے دستخط
کس درد کی دراز میں، کس رین کوٹ میں
ہم نے کہاں سنبھالے تھے یادوں کے دستخط
جُگنو نہیں بتاتے، بتاتی نہیں شبیں
کس آگ میں جلے ہیں یہ بھادوں کے دستخط
آج کامطلع
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
لاکھ تو کہتا پھرے میرا تو اپنا رنگ ہے