تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     06-06-2020

بھارت سرکار اپنا خزانہ کب کھولے گی؟

مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ بھارت سرکار اپنی سپریم کورٹ سے کہہ رہی ہے کہ ملک کے غیر سرکاری کارخانوں‘ دکانوں اور گھروں میں کام کرنے والے لوگوں کو وہ ان کی پوری تنخواہ دلوائے۔ گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے انہیں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی ہے۔ وہ بھوکوں مر رہے ہیں۔ ان کے مکان مالک انہیں تنگ کر رہے ہیں۔ ان کے پاس اپنی دوا کے لیے بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ سرکار کی دلیل کافی دم دار معلوم ہوتی ہے‘ کیونکہ وہ بھی اپنے کروڑوں ملازمین کو تالا بندی کے دور کی پوری تنخواہ دے رہی ہے اور بھتوں میں کوئی کٹوتی نہیں ہوئی ہے۔ ایم پی ایز نے ضرور اپنی تنخواہ میں کٹوتی کروائی ہے۔ ایسے میں اگر سرکار ملک کے کارخانے داروں‘ تاجروں اور کھیت مالکان سے اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کی گزارش کرے تو وہ سمجھ میں آتی ہے۔
لیکن سرکار اس سچائی کو کیوں نہیں دیکھ پا رہی کہ کارخانوں اور دکانوں کی آمدنی صرف تالابندی کے دنوں میں ہی زیرو نہیں ہوئی ہے‘ وہ اگلے تین چار ماہ تک بھی لنگڑاتی رہے گی۔ ان مالکوں کے پاس کچا مال خریدنے اور اپنے کاروبار کو چلانے کے بھی پیسہ نہیں ہے تو وہ اپنے ملازموں کو پیسے کہاں سے دیں گے ؟کتنی ہی فیکٹریاں اور دکانیں بند ہو چکی ہیں ۔جو چالوہونا چاہتی ہیں ‘وہ اپنے مزدوروں کو ان کے گائوں سے واپس لانے کا بھی جگاڑ بٹھا رہی ہیں۔ ایسے میں سب سے بہتر حل وہ ہے جو برطانیہ میں ہوا ہے۔ غیرسرکاری تنظیموں کے ملازمین کی اسی فیصد تنخواہ سرکار دے رہی ہے۔ ہماری سرکار اسی فیصد نہ سہی! پچاس فیصد ہی دے دے تو گاڑی چل پڑے گی۔ یہ کام سال بھر نہیں‘ صرف چھ ماہ کے لیے کر دے تو ہماری اقتصادیات پٹڑی پر آ جائے گی۔ بازاروں میں مانگ بڑھے گی تو پیداوار بھی بڑھے گی۔ سرکار کو اب کروڑوں مزدوروں کی واپسی کے انتظام کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ ہماری وفاقی اور صوبائی سرکاروں کو کیرل سرکار کو اپنا گرو بنانا چاہیے۔ وہ مزدوروں کے لیے کیا کیا نہیں کر رہی ہے۔ وفاقی سرکار اب عدالت سے کہہ رہی ہے کہ مالک اور مزدور آپس میں بات کر کے اپنا لین دین طے کریں۔ میں سرکار سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے خزانے کو کیوں نہیں کھولتی؟ جب کھیتی سوکھ جائے گی تب برسات کے کیا معنی رہ جائیں گے؟ 
نئی مصیبت میں پھنس گئے ٹرمپ 
عجیب مصیبت میں پھنس گئے ٹرمپ! امریکہ کے لگ بھگ سبھی بڑے شہروں میں ان کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں تو وہائٹ ہائوس کو ہزاروں لوگوں نے ایسا گھیرا کہ ٹرمپ خوف کے مارے نیچے بنکر میں جا چھپے۔ درجنوں لوگ اس مظاہروں میں مارے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے دکانوں اور گھروں میں گھس کر سامان لوٹ لیا۔ ٹرمپ نے مظاہرین کو دس برس کی گرفتاری‘ لاٹھیوں اور گولیوں کا ڈراوا بھی دیا ہے۔ الگ الگ صوبوں کے گورنرز کو اس لاقانونیت کے لیے وہ ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ امریکہ جیسے خوشحال اور تعلیم یافتہ ملک میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ خاص طور سے تب جبکہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دنیا میں وہیں سب سے زیادہ ہے؟ اس کا سبب ویسے تو معمولی دکھائی پڑتا ہے لیکن ہے وہ بہت گہرا۔ ہوا یہ کہ منیپولس کے ایک گورے پولیس افسر نے ایک کالے شہری جارج فلائیڈ کو زمین پر پٹخ کر اس کے گلے کو گھٹنے سے اتنی دیر دبائے رکھا کہ اس نے دم توڑ دیا۔ وہ چلاتا رہا کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے لیکن اس کی کسی نے نہ سنی۔ اس جان لیوا حادثے کا ویڈیو جیسے ہی ساری دنیا میں پھیلا‘ مظاہرے بھڑک اٹھے جن میں سے گورے اور کالے سب شامل ہیں۔ یہ مظاہرے صرف امریکہ میں ہی نہیں ہو رہے‘ آسٹریلیا‘ ایران‘ یورپ اور اسلامی ممالک میں بھی ہو رہے ہیں۔ جارج کا جرم یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ 20 ڈالر کا نقلی نوٹ چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ امریکہ کی 33 کروڑ آبادی میں کالوں کی تعداد 4 کروڑ کے قریب ہے۔ یہ لوگ محروم اور ان پڑھ بھی ہیں۔ ابھی امریکہ میں کورونا سے ہلاک ہونے والوں میں بھی زیادہ تعداد انہی کی ہے۔ امریکہ میں کورونا سے ہونے والی کل اموات میں 50 فیصد کالوں کی ہیں جبکہ گوروں کی 20 فیصد ہیں۔ امریکہ کی جیلیں بھی کالوں سے بھری رہتی ہیں۔ اب سے 51 برس پہلے جب میں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا‘ تب میری کلاس میں ایک بھی شاگرد یا ایک بھی معلم کالا نہیں ہوتا تھا۔ بارک اوبامہ کالی نسل کے ہوتے ہوئے بھی امریکہ کے صدر ضرور بن گئے لیکن مارٹن لوتھر کنگ کے قربانیوں کے باوجود امریکہ میں آج تک کالوں کو برابری کا درجہ نہیں ملا ہے۔ ٹرمپ کو کالے لوگوں کی خاص پروا نہیں۔ وہ گوروں کے تھوک ووٹ کے دم پر جیتے ہیں۔ وہ ان مظاہروں کو بھڑکانے کا ذمہ دار 'عنطفا‘ نام کے کمیونسٹ تنظیم کو قرار دے رہے ہیں۔ اتنے پُرتشدد مظاہرے امریکہ میں پہلی بار ہو رہے ہیں۔ 
چینی مال کا بائیکاٹ کریں یا نہ کریں؟
اس سوال کا دوٹوک جواب دینا آسان نہیں ہے کہ چینی مال کا ہم لوگ بائیکاٹ کریں یا نہ کریں۔ جب سے لداخ میں بھارتی اور چینی افواج ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑی ہوئی ہیں‘ ملک میں کئی تنظیمیں‘ کئی لیڈر‘ کئی بابا اور کئی لالا مانگ کر رہے ہیں کہ بھارت سرکار چین کا حقہ پانی بندکر دے۔ ان کی ناراضی جائز ہے کیونکہ نریندرمودی کی سرکار نے چینی لیڈروں کے ساتھ کافی اچھے تعلقات بنا رکھے ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ کورونا وائرس کے معاملے میں دنیا کے قریب قریب سوا سو ملک چین کی طرف انگلی اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں بھارت بالکل خاموش بابا بنا ہوا ہے۔ ہم چین سے لگ بھگ پانچ لاکھ کروڑ روپے کی تجارت بھی کر رہے ہیں‘ جس میں اسی کا پلڑا بھاری ہے۔ اس کے باوجود لداخ میں چین نے بھارت کی سرحد میں گھس کر اپنے ٹرک‘ ٹینک اور جہاز اڑا دیے ہیں۔ بات چیت سے کشیدگی ختم کرنے کا بہانہ وہ بنا رہا ہے لیکن بات آگے بڑھ ہی نہیں ری ہے۔ ایسے میں اگر بھارت کے کچھ لوگ چین کو معاشی سبق سکھانا چاہتے ہیں تو یہ فطری ہے۔ لیکن اگر بھارت سرکار ہمارے ان غصہ ور لوگوں کے اشارے پر تجارت بند کا اعلان کردے تو کیا یہ ٹھیک ہوگا؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ سرکار اگر چین کے ساتھ تجارت بند کرنے کا اعلان کردے تو یہ ٹھیک ہے کہ چین سے لگ بھگ 74 بلین ڈالر کا مال بھارت آنا بند ہو جائے گا لیکن ہمارا بھی لگ بھگ 18 بلین ڈالر مال وہ کیوں خریدے گا؟ اس کے علاوہ ہمارے لاکھوں تاجر اور ملازمین دوطرفہ تجارت بند ہونے کے سبب بے روزگار ہو جائیں گے۔ پہلے ہی کورونا نے کروڑوں لوگوں کو گھر بٹھا دیا ہے۔ اس موضوع کو ہم اچانک کیوں طول دینا چاہتے ہیں؟ اس کے سوا چین کی کئی کمپنیاں بھارت میں کام کر رہی ہیں۔ بھارت کی کئی کمپنیوں میں چین نے پیسے بھی لگا رکھے ہیں۔ اگر سرکار تجارت بند کرے گی تو اچانک بہت سی مشکلیں کھڑی ہو جائیں گی لیکن چین کو سرعام بھارتی بازاروں پر قبضہ کرنے دینا بالکل بھی مناسب نہیں‘ لیکن یہ کام بڑی ترکیب سے اور آہستہ آہستہ کیا جانا چاہیے۔ چین کا مال نہ خریدنے کا مشن غیر سرکار ی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کو چلانا چاہیے۔ ہم جو ساٹھ‘ ستر بلین ڈالر کا مال چین سے خریدتے ہیں اس میں 10 بلین ڈالر کی خرید شاید ٹالی نہیں جا سکتی‘ لیکن کپڑے‘ کھلونے‘ جوتے موبائل فون‘ ائیرکنڈیشنر‘ ریفریجریٹر‘ مورتیاں وغیرہ تو ہم خود ہی بنا سکتے ہیں۔ چین کے کئی ایپ اور ویب سائٹس کے بائیکاٹ کی بات بھی سوچی جا سکتی ہے۔ اگر ہم بھارت کو اپنے پائوں پرکھڑے ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں تو چین سے کیا‘ ہر ملک سے مال خریدنے میں ہمیں کافی خبرداری سے کام لینا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved