تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-06-2013

جے ول رُکساں کافر تھیساں

دو طرح کی اقوام ہوتی ہیں۔ ایک ہمہ بیدار کہ جن کے حکمران احتساب کے خوف سے چوکنّا رہتے ہیں۔ دوسری وہ جو خود کو حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔ ہم کون ہیں؟ انحصار ترجیح اوّل کے تعین پر ہوتا ہے۔ قلب و دماغ کی ہم آہنگی سے فیصلہ ہو جائے تو باقی فقط تفصیلات رہ جاتی ہیں۔ حکمتِ عملی کے لیے عرق ریزی یقیناً درکار ہوتی ہے۔ آدمی کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ آرزو کی شدّت سے یکسوئی پیدا ہو چکے تو بے آب و گیاہ صحرائوں کی مسافتیں چمن کی گل گشت ہو جاتی ہیں۔ کبھی ناکامی بھی کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔ آدمی کی کمزوری احساس میں ڈھلے تو ظفرمندی کا دروازہ کھولتی ہے۔ بچپن میں صدر باراک حسین اوباما کو کالے رنگ اور لمبے کانوں پر طعنہ زنی سے گزرنا پڑا۔ ایک دوسرے ممتاز امریکی محمد علی (کلے) کی کہانی بھی یہی ہے۔ کون جانتا ہے کہ ایک ٹیڑھی انگلی یا ماتھے پر کسی زخم کا نشان کس طرح آدمی کا مددگار ہو سکتا ہے۔ سکواش کی تاریخ کے سب سے بڑے کھلاڑی جہانگیر خان کو The champion of all the championsکہا گیا۔ آغازِ کار یہ تھا کہ کمزور ٹانگوں کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اس کم رو سے بچے کو جفاکشوں کے اس کھیل میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ والدین اس پر نگراں رہتے کہ خود کو تباہ نہ کر ڈالے۔ پشاور کی لُو سے بھری دوپہروں میں تنِ تنہا وہ سکواش کورٹ میں چلا جاتا۔ خود کلامی کرتا ہوا، خوف زدہ بچہ، کسی مسترد شدہ گیند کے ساتھ الجھا رہتا۔ اس کی تمام تمنائیں اس ایک نکتے پر مرکوز تھیں کہ کسی طرح وہ اس غم سے نجات پا لے، جو بھائی کی موت نے اس کی جان میں بڑھتے پھیلتے خود رو پودے کی طرح اُگا دیا تھا۔ اپنے عالی قدر باپ کی طرح جہانگیر خان کا بڑا بھائی سکواش کے عالمی منظر پر ابھرنے کی پوری صلاحیت رکھتا تھا۔ ایک ایک سیڑھی پھلانگتا وہ سوئے منزل روانہ تھا کہ پائوں پھسلا اور موت نے اسے آ لیا۔ شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے باپ عمر شیخ مرزا کی طرح، اپنے بھاری بدن پر تنگ ملبوس کے ساتھ کبوتر خانے کا زینہ طے کرتے ہوئے جو جان ہار گیا۔ اکبرِ اعظم کے خوش ذوق باپ ہمایوں کی طرح ، جو لائبریری کا در کھولنے کی بے تابی میں لڑکھڑا کر گرا تھا۔ اس چیز کو آدمی ہر حال میں پا سکتا ہے جس کے لیے خود کو نذر کرنے پر آمادہ ہو۔ کبھی تو قدرت اپنے ابدی قوانین تک میں استثنیٰ پیدا کر دیتی ہے۔ ظہیرالدین بابر کو ہم اس کے فرزند ہمایوں کی مسہری کا طواف کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ طبیبوں نے انکار کر دیا تھا۔ علالت کا سبب ادراک میں نہ آسکا تو علاج کیا کرتے۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ اب آخری نسخہ ہی آزمایا جا سکتا ہے…صدقہ! کیا چیز؟ کون سی قیمتی چیز؟ سلطان نے پوچھا، جس کے دستِ سخا کی حدود بے کنار تھیں۔ امرا نے مشورہ دیا: ہیرا! شاہی خزانے کا سب سے زیادہ قیمتی ہیرا۔ شیبانی خان کے ہاتھوں دو بار سمرقند سے مار کر بھگایا گیا، دشتِ غربت میں سالہا سال بسر کرنے والا، جھوٹ اور ریاکاری سے نفرت کرنے والا فاتح ہنس پڑا۔ ’’ہیرا‘‘ اس نے کہا: اللہ کی بارگاہ میں ایک پتھر، اس بچے کی جان کے عوض، زمین و آسمان کے درمیان جس سے بڑھ کر کوئی مجھے عزیز نہیں؟ ’’میں اپنی زندگی نذر کروں گا‘‘ ا س آدمی نے کہا، جس کی اولوالعزمی کو عہدِ آئندہ سے خراج پانا تھا۔ مولانا زین العابدین کے شاگرد کو کہ جب نصیحت مقصود ہوتی تو سر اٹھا کر اسے دیکھتے اور اکثر ایک آدھ جملے سے زیادہ نہ کہتے۔ دل گرفتہ پدر مسہری کے گرد چکّر کاٹتا رہا۔ اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس کے الفاظ کیا رہے ہوں گے۔ مادری ترکی زبان یا شاید فارسی میں، جو طالب علمانہ مزاج کے حکمران کو محبوب تھی، اس نے شاید یہ کہا ہو گا: بارِ الٰہا، میں تاب نہیں رکھتا اور تیری مشیت سے لڑ نہیں سکتا۔ باپ کا کمزور دل، جس پر پہلے ہی سینکڑوں زخم ہیں، ایک اور کا متحمل ہرگز نہیں… پھر ایسا ہوا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمایوں کی صحت بہتر اور اس کی بگڑتی گئی، جو کبھی دو آدمیوں کو بغلوں میں داب کر قلعے کی دیوار پر دوڑا کرتا۔ نذر قبول کی جاتی ہے، نیت اگر خالص ہو۔ شرط یہ ہے کہ سر کے ساتھ دل بھی سجدہ ریز ہو جائے۔ عاشقی کا کیا دعویٰ، دوستی سے کیا مطلب میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں آرزو کو سینچنا پڑتا ہے۔ اپنے پسینے اور اپنے لہو سے۔ ایک بلند و بالا اور برتر خواب ایثار کا طلب گار ہوتا ہے۔ ایسی قربانی کا، جس کی لو میں زندگی کی باقی سب تمنائیں کمتر ہو جائیں۔ ماں بننا پڑتا ہے۔ پیٹ ہی نہیں، جگر بھی کاٹنا ہوتا ہے۔ خونِ دل سے آبیاری کی جاتی ہے، تبھی کونپل پھوٹتی ہے۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے جلائے ہوئے چراغ کی روشنی میں منزلوں کا تعین کرنے والے قطب الاقطاب عبدالقادر گیلانی ؒ نے کہا تھا: دل کو ویرانہ بنا دیا جاتا ہے، پھر اس میں دیا جلتا ہے تو ہمیشہ جلتا ہی رہتا ہے۔ بادِ سموم کا کوئی جھونکا اور بادِ صبا کی کوئی آہٹ اس تک پہنچ نہیں سکتی۔ خواجہ غلام فریدؒ نے یہ کہا تھا۔ کیچ ڈو ٹرساں جے تاں جیساں جے ول رکساں کافر تھیساں گل وچ پایم پریت مہار (منزلِ مقصود کی طرف روانہ رہوں گا تو زندہ رہوں گا۔ رک جائوں تو گویا کافر ہی ہو جائوں کہ میں اپنے گلے میں محبت کی نکیل ڈال چکا) چار چیلنج تحریکِ انصاف کے علمبرداروں کو درپیش ہیں، خون دینے اور دودھ پینے والے دونوں طرح کے مشتاق جس میں یکجا ہیں۔ اوّل کراچی میں احتجاج کا شرر زندہ رکھنا، جہاں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ قرار چاہے گی؛ لہٰذا میاں محمد نواز شریف مصالحت کر لیں گے۔ صوبہ سرحد میں امانت داری کے ساتھ حکمرانی۔ سیاست دانوں کا حال معلوم۔ اگر افسروں کے تقرر میں مصلحت سے کام لیا گیا اور اب تک یہی لگتا ہے تو انجام معلوم۔ بلدیاتی الیکشن بالخصوص پنجاب میں، جہاں پارٹی کو نون لیگ کی سرکاری یلغار سے واسطہ پڑے گا۔ ابھی سے اگر تیاری نہ کی گئی تو صفایا۔ معرکہ آرائی خوشامدیوں کے بس کی بات نہیں، جو لیڈر کا قصیدہ گاتے ہیں کہ اہلِ اخلاص کی جڑیں کاٹ سکیں۔ چہارم پارٹی کی تنظیمِ نو کہ نصف سے زیادہ اضلاع میں وہ ادنیٰ ترین کی یرغمال ہے۔ کلید سامنے ہے۔ حالات کو، دوسروں کو اور خود اپنے ساتھیوں کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے، خود احتسابی۔ امید کا دیا روشن رکھتے ہوئے، خود احتسابی کہ مایوسی اور کامیابی کبھی یکجا نہیں ہوتے۔ یہ پارٹی کارکنوں پر ہے کہ وہ بروئے کار آئیں اور رہنمائوں میں جو گوارا ہیں، ان کے گرد جمع ہوں۔ کارِ سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور ریاضت کبھی رائیگاں نہیں ہوتی۔ کامیابی اور ناکامی بندوں کے نہیں، اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہی عقلوں کو فروزاں کرتا اور تاریک راستوں کو منوّر فرماتا ہے۔ بندوں سے جن کی امیدیں وابستہ ہیں، ان کے لیے شام ہو چکی۔ اللہ، جن کا سہارا اور ایثار جن کا شعار ہے، ان پر تاریکی کا نزول کبھی ہوتا ہی نہیں۔ لہولہان اس خطّہ ارض کو اب امن درکار ہے۔ بھکاری کی طرح ہاتھ پھیلا کر مگر بھارت سے صلح کی استدعا حوصلے برباد کر نے کے سوا کچھ نہ کر پائے گی۔ یہ برطانیہ، امریکہ اور اس کے لے پالک عرب ممالک کا ایجنڈہ ہے، پاکستانی عوام کا نہیں۔ لیڈروں میں کھلونے بٹ رہے ہیں۔ ایل پی جی کی قیمتوں میں کچھ اضافہ نگرانوں کے دور میں ہوا، شاید اس سے زیادہ آئندہ چند دنوں میں؟ حصہ بقدرِ جثّہ۔ اسلام آباد کے کھرب پتی کو ایف بی آر سے ملنے والے 119ارب کے نوٹس پر بھی کمیشن ایجنٹوں کی رال ٹپک رہی ہے۔ فیصلہ اسلام آباد میں ہوگا یا دبئی میں؟ دو طرح کی اقوام ہوتی ہیں۔ ایک ہمہ بیدار کہ جن کے حکمران احتساب کے خوف سے چوکنّا رہتے ہیں۔ دوسری وہ جو خود کو حکمرانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہیں۔ ہم کون ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved