جو کچھ فطری یا قدرتی عمل کے ذریعے انجام کو پہنچتا ہے اُسی میں کچھ بات ہوتی ہے۔ کائنات کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ جو کچھ اصولی اور فطری طور پر انجام دیا جائے وہی کام کا ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار یا اسے نظر انداز کرنا ایسی خرابیاں پیدا کرتا ہے جن سے چھٹکارا پانا جُوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے۔ اہلِ مغرب نے فطری علوم و فنون کے شعبے میں فقیدالمثال پیش رفت کے ذریعے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی کا رخ بدلنے کے لیے کافی تھا۔ مگر سوال صرف زندگی کا رخ بدلنے کا نہیں بلکہ ایسی تبدیلی یقینی بنانے کا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کا معیار بلند ہو۔ فطری علوم و فنون کے شعبے میں پیش رفت زندگی کا رخ بدلنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر سوال صرف رخ بدلنے کا نہیں بلکہ طرزِ فکر و عمل میں کجی کو پیدا ہونے سے روکنے کا بھی ہے۔ مادّی ترقی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو معاشرے فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بناکر قابلِ رشک مادّی ترقی یقینی بناتے ہیں وہ ہر معاملے میں خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔
جو معاشرے مادّی اعتبار سے غیر معمولی ترقی سے ہم کنار ہوتے ہیں اُنہیں دنیا رشک کی نظر سے دیکھتی ہی ہے۔ المیہ اُس وقت جنم لیتا ہے جب مادّی ترقی سے ہم کنار ہونے والے ہر معاملے کو سیدھا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ غیر معمولی مادّی ترقی اخلاقی اقدار کے زوال کی راہ ہموار کرتی ہے۔ دنیا کو پانے والے معاشرے بالعموم اخلاقی و روحانی پہلو کھو بیٹھتے ہیں۔ ہر دور میں یہی ہوا ہے اور کم و بیش دو صدیوں سے مغرب کا بھی یہی المیہ ہے۔ اہلِ مغرب نے قابلِ رشک مادّی ترقی یقینی بناکر دنیا کو پالیا اور پھر اپنے طور پر یہ بھی طے کرلیا کہ اب باقی دنیا کو ''سُدھارا‘‘ جائے۔ اخلاقی اور روحانی اقدار سے محروم ہو جانے والے مغربی معاشروں نے باقی دنیا اور بالخصوص پس ماندہ خطوں کو روحانی اور اخلاقی اعتبار سے درست کرنے کی غرض سے اپنی طرزِ زندگی اُن پر تھوپنے کا عمل شروع کیا۔ لبرل ازم اور اُس کی کوکھ سے پیدا ہونے والی لبرل ڈیموکریسی کو اہلِ مغرب نے دنیا کے لیے سب سے بڑا تحفہ گردانا۔ سیاسی و معیشتی اعتبار سے لبرل ڈیموکریسی اور اُسی کے شانہ بشانہ چلنے والے آزاد منڈی کے نظام کو تمام مسائل کا حل سمجھ لیا گیا۔ معاملہ یہیں تک رہتا تو کوئی بات نہ تھی۔ اہلِ مغرب نے لبرل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ کو روئے ارض کی سب سے بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے باقی دنیا پر تھوپنے کی بھرپور شعوری کوشش کی۔ کئی خطوں کے مزاج میں جمہوریت نہ تھی اور اس میں کچھ خاص قباحت بھی نہ تھی ‘ مگر مغرب بضد رہا کہ جو ''نعمتیں‘‘ اُس نے پائی ہیں اُسے باقی دنیا میں تقسیم کرکے دم لے گا۔ اس معاملے میں کلیدی کردار امریکا نے ادا کیا۔
امریکا کی قیادت میں مغرب نے کم و بیش ایک صدی کے دوران باقی دنیا کو ''مہذب‘‘ بنانے کے نام پر جو کچھ کیا ہے اُس نے معاملات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ اب تلافی یا ازالے کی کوئی معقول صورت دکھائی نہیں دیتی۔ مغرب نے فقیدالمثال مادّی ترقی یقینی بنانے کی دُھن میں اخلاقی اقدار بالخصوص حیا کا دامن یوں چھوڑا کہ پھر وہ ہاتھ نہ آیا۔ عریانی کو لبرل ازم یعنی آزاد فکری اور شخصی ارتقا کا نقطۂ عروج سمجھ لیا گیا۔ جب سوچ اتنی پست ہوجائے تو خرابیوں کو راہ پانے سے نہیں روکا جاسکتا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر اپنی مادّی ترقی کے بطن سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو عام کرنے کی ٹھانی تو باقی دنیا میں بگاڑ کے پیدا ہونے کی ابتدا ہوئی۔ کئی معاشروں اور خطوں کو لبرل ڈیموکریسی سے ہم کنار کرنے کے نام پر شدید اندرونی شکست و ریخت سے دوچار کردیا گیا۔ مشرق کے بہت سے معاشرے مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ معاشرتی ڈھانچے کی نوعیت ایسی ہے کہ جن اخلاقی اقدار پر ہزاروں سال تک انحصار رہا ہے اُنہیں راتوں رات چھوڑا نہیں جاسکتا۔ اپنی مرضی کا سیاسی‘ معاشرتی اور اخلاقی نظام باقی دنیا پر تھوپنا یا مسلط کرنا مغرب کا ایک بڑا بلنڈر تھا۔
طاقت میں رونما ہونے والی کمی کا گراف مزید گرنے سے بچانے کے لیے مغرب نے اب باقی دنیا کو مطیع و فرماں بردار بنانے کی غرض سے عمومی طرزِ زندگی تبدیل کرنے کی ٹھانی ہے۔ پوری دنیا اور بالخصوص کمزور خطوں اور معاشروں کو ایک ایسی طرزِ زندگی اپنانے پر مجبور کیا جارہا ہے جو کسی بھی اعتبار سے اُن کی نہیں۔ جمہوریت نافذ کرنے کی بھونڈی کوششوں کے ناکام ہوجانے کے بعد اب افریقہ اور ایشیا کے پس ماندہ خطوں کو مختلف طریقوں سے فرماں بردار رکھنے کی خاطر جال پھیلائے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے نام پر جو کچھ کیا گیا ہے وہ بھی بہت حد تک اِسی خواہش کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ پس ماندہ معاشروں پر اپنی مرضی تھوپنے کے لیے مغرب نے ''ایس او پی‘‘ (سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) کا ہتھکنڈا اپنایا ہے۔ مغربی طرزِ زندگی پوری دنیا کے لیے موزوں نہیں مگر یہ طرزِ زندگی اپنانے کے لیے شرمناک حد تک زور دیا جارہا ہے۔ اب یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مغربی طاقتیں دنیا بھر کے پس ماندہ معاشروں کے عوام میں پیدا ہونے والی بیداری کی لہر سے گھبراکر ایک ایسی طرزِ حیات متعارف کرانا چاہتی ہیں جس میں لوگوں کے لیے گھر سے نکلنے کی کم سے کم گنجائش ہو۔ جن معاشروں میں کھل کر‘ مل کر جینے کا چلن عام ہے اُن کے لیے یہ نئی طرزِ حیات سوہانِ روح ہے۔ مغرب نے اپنی مرضی اور طرزِ فکر و عمل تھوپنے کی کوشش کی صورت میں جو غلطی اب تک کی ہے اُس کا تسلسل برقرار ہے۔ یہ ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے تاکہ دنیا کو مکمل تباہی سے بچانا ممکن ہو۔