تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-06-2020

دعا کی گزارش

کبھی کبھار تو باقاعدہ شرم سی محسوس ہونے لگتی ہے کہ آخر ایک ہی چیز کو کتنی بار لکھا جا سکتا ہے؟ ایک پنجابی کہاوت کے مطابق وہی پرانا رنڈی رونا۔ خیال آتا ہے کہ قارئین کیا کہیں گے؟ اسے لکھنے کے لیے اور کچھ نہیں ملتا جو وہی ایک قصہ بار بار دہرانے لگ جاتا ہے؟ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اگر اتنا کچھ لکھے جانے پر حکمرانوں کو خیال نہیں آتا‘ کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا اور انہیں شرمندگی نہیں ہوتی تو بھلا مجھے شرمندہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر قصوروار کو احساس نہیں ہو رہا تو اسے احساس دلانے والے کو شرم محسوس کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا ٹڈی دل پر ایک اور کالم حاضر ہے۔ ہم جنوبی پنجاب والوں کی ساری معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ ہمارے ہاں کوئی بڑی صنعت تو ہے نہیں۔ اور جو ہے وہ بھی زراعت سے ہی وابستہ ہے۔ زراعت تباہ ہو گئی تو گویا یوں سمجھیں کہ اس پورے خطے کی معیشت تباہ ہو گئی۔ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران میں نے دوسرے شریک گفتگو کو (جس کا تعلق وسطی پنجاب سے تھا) یہ کہہ دیا کہ آپ کو کیا پتا کہ زراعت ہمارے لیے کتنی اہم چیز ہے‘ یہ ہمارے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ وہ دوست پروگرام کے دوران ہی ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ ہمیں زراعت سے اتنا لا تعلق کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا ہم زراعت کی اہمیت کو نہیں سمجھتے؟ آپ اس کے ٹھیکیدار کیوں بن رہے ہیں؟ میں نے کہا: آپ کی ناراضگی بلا جواز ہے۔ آپ اپر پنجاب اور سنٹرل پنجاب کے رہنے والوں کا زراعت پر اس طرح انحصار نہیں‘ جس طرح جنوبی پنجاب والوں کا ہے۔ زراعت آپ کے ہاں متبادل ذریعہ آمدن ہو سکتا ہے لیکن بنیادی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ آپ کا بنیادی ذریعہ آمدنی اور معیشت کا بنیادی مرکزہ صنعت ہے، کاروبار ہے اور سروس انڈسٹری ہے۔ زراعت تو آپ کی معیشت کا ایک جزوی پہلو ہے جبکہ ہمارے وسیب میں یہ ساری چہل پہل کی بنیاد ہے۔ ساری معاشی حرکت برکت اسی زراعت کے دم سے ہے۔ ہماری سال بھر کی روٹی کا دارومدار زراعت پر ہے۔ غریب سے امیر تک سب اسی کے مرہون منت ہیں۔ ہمارے مزارعے کے گھر دانے گندم کی فصل کٹنے پر آتے ہیں اور زمیندار کی گاڑی کپاس کی فصل کے بعد آتی ہے۔ کاشتکار کی بیٹی کی شادی گنے کی فروخت سے جڑی ہوتی ہے تو مکان کی مرمت مکئی کی فصل کے انتظار میں ہوتی ہے۔ ہمارے وسیب کی معیشت کا پہیہ زراعت کی لہر بہر سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ بھلا ہم سے زیادہ اس کی کس کو فکر ہوگی؟ لوکسٹ یعنی ٹڈی دل کا مقامی لشکر تباہیاں پھیر رہا ہے۔ انڈے، بچے دے رہا ہے اور کھیتوں، کھلیانوں، باغوں اور شہروں، دیہاتوں میں ویسے ہی مزے سے پھر رہا ہے جیسا بقول حافظ برخوردار 'سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘ (گلیاں ویران ہو جائیں اور ان میں مرزا یار پھرے) تاہم یہاں صورتحال الٹ ہے۔ مرزا اس وقت ویران نہیں بلکہ با رونق گلیوں میں پھر رہا ہے لیکن اس کے پھرنے کے بعد یہ گلیاں ضرور ویران ہو جائیں گی۔ ٹڈی دل کا موجودہ تباہ کن حملہ جو چھ ماہ پہلے شروع ہوا ابھی جاری ہے اور ٹڈی دل کی تعداد مقامی افزائش کے باعث کئی گناہ بڑھ چکی ہے؛ تاہم اب اصل خطرہ یہ ہے کہ یہ والا جتھہ تو قابو سے باہر ہو ہی چکا ہے ایک اور تباہ کن لشکر ہلہ بولنے کے لیے آنے والا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نیا لشکر ایک آدھ ماہ میں یہاں آن وارد ہو گا اور اس کا اندازہ یوں لگایا جا رہا ہے کہ کروڑوں ٹڈیوں پر مشتمل اس جتھے کی پرواز کے دوران چوڑائی پچیس کلومیٹر کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ اسی دوران تھل، تھر اور چولستان میں ٹڈیوں کے انڈوں سے بچے نکلنا شروع ہو جائیں گے۔ یوں معاملہ جو پہلے ہی کسی کے کنٹرول میں نہیں آ رہا مزید بے قابو ہو جائے گا اور ملکی زراعت کو عمومی اور جنوبی پنجاب کی زراعت کو خصوصی طور پر تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ نقصان کورونا کے نقصان سے بھی کئی گنا بڑا ہو سکتا ہے۔ 
انتظامی معاملات کی صورتحال ویسی ہی ہے جیسے ہم اپنے گھر کا کوڑا اٹھا کر ہمسائے کے گھر کے دروازے کے آگے پھینک دیں اور گمان کریں کہ گلی صاف ہو گئی ہے۔ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر دو چار دن کی ٹڈی تلفی مہم کے بعد بڑے فخر سے اعلان کرتا ہے کہ اس نے اپنے ضلع سے ٹڈی دل کا خاتمہ کر دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ٹڈی دل کا خاتمہ نہیں کرتا بلکہ دو چار دن میں سبزہ چٹ کر کے ٹڈی دل از خود اگلے ضلع کی طرف کوچ کر جاتا ہے تا کہ وہاں کے سبزے سے اپنا پیٹ بھر سکے۔ ادھر ڈپٹی کمشنر اپنی کامیابیوں کے جھنڈے لہراتے پھرتے ہیں۔ پنجاب کے پندرہ بیس کے لگ بھگ اضلاع اس کی زد میں ہیں اور افریقہ سے براستہ یمن، اومان، ایران آنے والا نیا لشکر یہاں پہنچ گیا اور مقامی لوکسٹس کے انڈوں سے بچے نکلنے کا عمل پورا ہو گیا تو پنجاب کے متاثرہ اضلاع کی تعداد بڑھ جائے گی۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کے اکسٹھ کے قریب اضلاع ٹڈی دل سے ہونے والی تباہی سے دوچار ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر اضلاع کا تعلق بلوچستان سے ہے؛ تاہم پنجاب میں متاثرہ اضلاع کی اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ویسے تو پنجاب کے پچیس اضلاع میں ٹڈی دل کی موجودگی کی اطلاع ہے لیکن جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن یعنی ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے کل گیارہ کے گیارہ اضلاع اس آفت کے متاثرین میں شامل ہیں۔ غضب یہ کہ ٹڈی دل کے انڈوں اور افزائش کے حوالے سے تین میں سے دو صحرائی علاقے یعنی تھل اور چولستان بھی انہی اضلاع میں ہیں۔ حکومت کی گومگو کی پالیسی نے سب کچھ ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ہے اور اوپر سے ابھی تک اس آفت سے نمٹنے اور ٹڈی دل کی تلفی کیلئے ان کے پاس نہ کوئی جامع پلان ہے اور نہ ہی تیاری۔ اگر سپرے والے جہازوں کی خرید اور آمد کا انتظار کیا گیا تو پھر یہ خرچہ صرف خزانے پر بوجھ ہی ثابت ہو گا کیونکہ ٹڈی دل اس وقت تک ساری فصلوں کو چٹ کر چکا ہو گا اور سپرے کرنے کیلئے کوئی فصل مشکل سے ہی بچی ہو گی۔ اس کے فوری حل کے طور پر میں نے ڈرون کاپٹرز کے ذریعے ٹڈی دل کی تلفی بارے لکھا تھا۔ اس پر ایک قاری طاہر حفیظ نے مجھے ای میل بھیجی ہے۔ 
طاہر حفیظ نسٹ سے روباٹک انجینئرنگ میں گریجوایٹ ہے اور خانیوال کے نواحی قصبے جہانیاں کا رہنے والا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سپرے کیلئے ڈرونز اور پائلٹ کے ذریعے اڑائے جانے والے جہازوں کی پاکستان میں تیاری ممکن ہے اور یہ کام درآمدی جہازوں سے کئی گنا کم قیمت میں ہو سکتا ہے۔ طاہر حفیظ گزشتہ چھ سال سے اسی فیلڈ میں ریسرچ کر رہا ہے؛ تاہم فی الوقت پاکستان میں چاروں طرف دندناتے ہوئے ٹڈی دل کے ساتھ ساتھ افریقہ سے آنے والے متوقع نئے حملہ آور دل سے نمٹنے کی ضرورت ہے‘ لیکن فکر مندی کی بات یہ ہے کہ اس کیلئے کوئی تیاری یا منصوبہ بندی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ برسوں سے تنخواہیں وصول کرنے والا اس مسئلے کے حل کیلئے بنایا جانے والا محکمہ عملی طور پر صفر ہو چکا ہے۔ پنجاب کا وزیر زراعت معاملات کو ہینڈل کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہے۔ کابینہ میں بیٹھے دیگر لوگوں کو زراعت اور کاشتکار سے کوئی لینا دینا نہیں اور حکومت مجموعی طور پر نالائقی، نااہلی اور بے حسی کا حسین امتزاج ہے جو ایک عرصے بعد دیکھنے کو ملا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ میرے اندیشے حقیقت کا روپ دھاریں۔ اگر ایسا ہوا تو نئے پاکستان میں غذائی قلت کا دور دورہ ہو گا۔ میرا مالک ہمیں اس نئے پاکستان سے محفوظ رکھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved