تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     07-06-2020

کورونا سے نجات کیسے ؟

زمانۂ قدیم سے انسان قدرتی آفات ‘ بیماریوں اور وباؤں کی زدّ میں رہاہے۔ ان آفات اور وباؤں کے نتیجے میں مختلف زمانوں میں ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ جب کہ بہت سے لوگوں ان آفات اور بیماریوں کے دوران بھی خیر وعافیت سے رہے۔ کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا نے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس وبا کے اسباب اور تدارک کے حوالے سے آئے دن مختلف طرح کے تجزیات سننے کو ملتے ہیں۔ کچھ لوگ اس وبا کی سنگینی کی وجہ سے نا اُمیدی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ جب کہ بہت سے لوگ اس حوالے سے پراُمید نظر آتے ہیں کہ جلد یا بدیر اس وبا سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران مختلف حکومتوں کے مسلسل تبدیل ہونے والے اقدامات کے نتیجے میں عوام الناس میں کبھی اضطرات اورمایوسی پیدا ہو جاتی ہے تو کبھی اُمید جاگ اٹھتی ہے۔ کورونا وائرس کے تدارک کے لیے تاحال کوئی موثر میڈیسن یا ویکسین منظر عام پر نہیں آ سکی۔ اس لیے دنیا بھر میں عوام کی ایک بڑی تشویش اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے۔ اس قسم کی وباؤں کے دوران جہاں پر طبی ماہرین اپنے علم ‘ فن ‘ تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں ‘وہیں پر ان وباؤں کا روحانی تجزیہ بھی کیا جاتا ہے اور یہ بات فقط کورونا وائرس تک محدود نہیں‘ بلکہ جب بھی کبھی دنیا کے کسی مقام پر زلزلہ یا قدرتی آفت آتی ہے تو اس وقت بھی جہاں ارضیات کے ماہر اپنے انداز میں اس آفت کا تجزیہ کرتے ہیں ‘وہیں پر علمائے دین اِن آفات اور بیماریوں کا روحانی تجزیہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب افراد اور اقوام معاشی اعتبار سے گراوٹ یا پستی کا شکار ہوتی ہیں‘ تو جہاں پر اس پستی کا اقتصادی تجزیہ کیا جاتا ہے‘ وہیں پر اس کے روحانی تجزیے بھی کیے جاتے ہیں۔ 
قدرتی آفات‘ حادثات‘ معاشی انحطاط اور بیماریوں کے روحانی تجزیے کا مقصد بنیادی طور پر اس بات کو واضح کرنا ہوتا ہے؛ اگرچہ ان تمام چیزوں کے حیاتیاتی ‘ معاشی‘ ارضیاتی اور سائنسی اسباب ہوتے ہیں ‘لیکن ان کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی روحانی محرک بھی ضرور ہوتا ہے۔ عام طور پر انسان جب اشیاء کا تجزیہ کرتا ہے تو اپنے خالق ومالک کے ارادے‘ امر اور اذن کو فراموش کر دیتا ہے۔ یہ رویہ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام مجید میں بہت سی سابقہ اقوام کی ایسی مثالیں بیان کی ہیں کہ جن پر غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس قسم کے حوادث اور پریشانیاں درحقیقت ‘اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم ہی سے آتی ہیں۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احقاف میں قوم عاد کی بداعتقادی اور ان پر آنے والے عذاب کی کیفیت کو نہایت بلیغ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ‘سورہ احقاف کی آیت نمبر 21سے 25میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور یاد کیجئے عاد کے بھائی (ہود) کو جب اُس نے ڈرایا اپنی قوم کو (سرزمین) احقاف میں جب کہ یقینا گزر چکے کئی ڈرانے والے اس (ہود) سے پہلے اور اس کے بعد (اس بات سے) کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘ بے شک میں ڈرتا ہوں تم پر بڑے دن کے عذاب سے۔ انہوں نے کہا کیا تو آیا ہے ہمارے پاس لیے کہ تو ہٹا دے ہمیں ہمارے معبودوں سے پس تو لے آ ہمارے (وہ عذاب) جس کا تو وعدہ (یعنی دھمکی) دیتا ہے ہمیں اگر تو ہے سچوں میں سے۔ اس (ہود)نے کہا (یہ) علم تو بلاشبہ صرف اللہ کے پاس ہے اور میں پہنچاتا ہوں تمہیں (وہ پیغام) جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اور لیکن میں دیکھتا ہوں تمہیں ایسے لوگ (کہ) تم نادانی کر رہے ہو‘پھر جب انہوں نے دیکھا اس (عذاب) کو بادل کی شکل میں اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے (تو) انہوں نے کہا ؛یہ بادل ہے ہم پر بارش برسانے والا۔ (نہیں) بلکہ (یہ) وہ ہے جس کو تم جلدی طلب کر رہے تھے (یعنی) آندھی جس میں دردناک عذاب ہے۔ وہ تباہ وبرباد کر دے گی ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے‘ پھر وہ (ایسے)ہو گئے (کہ) کچھ دکھائی نہ دیتا تھا‘ ان کے گھروں کے سوا‘ اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں مجرم لوگوں کو۔ ‘‘قرآن مجید کی ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب قوم عاد نے اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ہودعلیہ السلام کی نافرمانی کی اورا ن کی دعوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اوپر آندھی اور تیز ہواؤں کے عذاب کو مسلط کیا‘ جسے قوم عاد کے لوگ رحمتوں والے بادل سمجھ رہے تھے ‘اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب چھپا ہوا تھا‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قوم فرعون پر آنے والے عذابوں کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر مختلف طرح کے عذابوں کو مسلط کرتے رہے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 130سے 133میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''اور البتہ تحقیق ہم نے پکڑا آل فرعون کو قحط سالیوں سے اور نقصان کر کے پھلوں سے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ تو جب آئی اُن پر خوشحالی (تو) کہتے ہیں : ہمارا (حق ) ہے۔ یہ اور اگر پہنچتی انہیں کوئی تکلیف (تو)نحوست کا باعث ٹھہراتے ہیں موسیٰ کو ‘ اور (اُن کو) جو اُن کے ساتھ ہیں خبردار درحقیقت اُن کی نحوست (تو) اللہ کے پاس ہے اور لیکن اُن کے اکثر نہیں جانتے۔ اور انہوں نے کہا ؛ جو بھی تو لائے گا ہمارے پاس اُس کو کوئی نشانی ‘تاکہ تو جادو کرے ہم پر اُس کے ذریعے تو نہیں ہیں ہم آپ پر ایمان لانے والے؛ چنانچہ ہم نے بھیجا اُن پر طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون (جو) نشانیاں تھیں‘ الگ الگ پھر (بھی) انہوں نے تکبر کیا اور تھے وہ مجرم لوگ۔‘‘ ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آل فرعون نے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانیاں کیں تو اللہ نے ان پر مختلف طرح کے عذابوں کو مسلط کیا۔ 
قرآن مجید کے مطالعے سے ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں پر انسانی زندگی میں رونما ہونے والے تغیرات اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت کا نتیجہ ہوتے ہیں‘وہیں پر کئی مرتبہ انسان کی زندگی میں آنے والی بہت سی مشکلات اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش بھی ہوتی ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ‘ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155سے 157میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیںاور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ‘ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آزمائشوں کے دوران صبر کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے لوگ اللہ کی طرف سے عنایات کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں قرآن مجید سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ بہت سی تکالیف انسانوں کو جھنجھوڑ نے کے لیے بھی آتی ہیں اورا ن کامقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے اصلاح کر لے۔ تکالیف اور مشکلات کے روحانی اسباب اور محرکات پر غور کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان تکالیف کے تدارک کے لیے جہاں پر مادی تدابیر کو اختیار کرتا ہے‘ وہیں پر روحانی تدابیر کو بھی اختیار کرتا ہے۔ ان روحانی تدابیر کو اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو ان مصائب اور تکالیف سے نجات دے دیتے ہیں۔ماضی قریب میں دنیا میں فواحش اور بدکرداری کے وسیع پیمانے پر ارتکاب کی وجہ سے ایچ آئی وی کا وائرس عام ہوا اس کے تدارک کے لیے سب سے بہترین راستہ اسی کو سمجھا گیا کہ انسان برائی اور بدکرداری کے کاموں سے اجتناب کرنا شروع کر دے۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد جہاں پر ہمیں علاج معالجے اور ممکن حد تک احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے‘ وہیں پر ہمیں اس بات پر بھی غوروخوض کرنا چاہیے کہ ہم اعتقادی‘ فکری ‘عملی اور اخلاقی اعتبارسے کس حد تک انحطاط کا شکار ہیں‘ اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اورخود احتسابی کے راستے پر چل نکلیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکے توبہ ‘ استغفار‘ دعا ‘ مناجات‘ صدقات اور دیگر روحانی ذرائع کو اختیار کریں تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ اس وبا اور پریشانی کو ہم سے دور کر سکتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمان اُمت اور پرُ امن انسانیت سے اس موذی وبا کورونا کو دُور فرمائے۔( آمین) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved