تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     07-06-2020

تڑپ کے رہ گئی بلبل قفس میں اے صیاد

اولاد بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر اس سے پوچھو ‘جس کے پاس یہ نعمت نہیں۔ پتا نہیں کس دل کے ساتھ والدین اپنے چھوٹے بچوں کو خود سے دُور ملازمت پر بھیج دیتے ہیں؟بھوک اور غربت بڑی ظالم شے ہے ‘اس کے آگے رشتے اورپیار و محبت بھی مانند پڑجاتا ہے ۔پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کیلئے بچوں سے ملازمت کرائی جاتی ہے۔معاشرتی مسائل ‘ غربت و مہنگائی ‘ سماجی و معاشی رویے‘کم اُجرت ‘ملکی حالات ‘ رشوت ‘ اقربا پروری ‘ امتیازی رویے‘ بے روزگاری اورایسے بہت سے عوامل ہیں‘ جو غریب کے استحصال کا باعث ہیں اوراس استحصال کی چکی میں سب سے زیادہ بچے پستے ہیں۔
کچھ بچے یتیم ہوتے ہیں اور کچھ بچے‘ جن کا کوئی بڑا سر پر نہ ہووہ پیٹ بھرنے کیلئے ملازمت کرتے ہیں ۔کچھ والدین کئی بچے پیدا کر لیتے ہیں اوربعد میں سوچتے ہیں کہ ان کو کھلانا کہاں سے ہے؟ لہٰذا وہ ان بچوں کو کم عمری میں ملازمت پر رکھوا دیتے ہیں۔ چھوٹی بچیوں کو گھروں پر میڈ ( نوکرانی) بنا کر کئی ظالموں کیلئے ترنوالہ بنادیاجاتا ہے اور چھوٹے لڑکوں کو ورکشاپس‘ ہوٹلز ‘دکانوں میں ''چھوٹا‘‘ بنا کرظالموں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔یہ معصوم بچے کھیتوں‘ کانوں‘ بھٹوں ‘ کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ کچھ گلی گلی جا کر چیزیں بیچتے ہیں۔کچھ بچے بوٹ پالش کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کھانے کی اشیا کا سٹال لگا لیتے ہیں‘ توکچھ بچے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔وہ بچوں سے گداگری کراتے ہیں‘ وارداتیں کراتے ہیں ‘سمگلنگ کرواتے ہیں‘ منشیات‘ اسلحے اور دہشت گردی جیسے مذموم کام بھی کروائے جاتے ہیں۔
یہاں سے جبری مشقت کے شکار بچوں کے ساتھ ظلم کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کو اچھا کھانا‘ پینا اور پہنا نصیب نہیں ہوتا اور ان میں سے زیادہ تر سکول بھی نہیں جاپاتے۔اقوام متحدہ کے مطابق ‘ پاکستان میں دو سے تین ملین بچے جبری مشقت کا شکار ہیں۔انہیں جذباتی‘ جسمانی ‘ذہنی نفسیاتی تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بچوں کے حوالے سے عدم دلچسپی کا یہ حال ہے کہ پاکستان کا پہلا اور آخری نیشنل چائلڈ سروے1996ء میں ہوا تھا۔گھریلو ملازم بچوں کے حوالے سے موثر قوانین موجود نہیں۔ اسلام شہر آباد کی ہر گلی میں ایک یا دو گھروالوں نے بچوں کو ملازم رکھا ہوا ہے اور بہت فخر سے ان کی نمائش دوسروں کے سامنے کی جاتی ہے۔بچوں سے ملازمت کرانا میرے نزدیک ایک مکروہ اور قبیح فعل ہے ۔ ان کی جو عمر کھیلنے کی ہوتی ہے یا پڑھنے کی ہوتی ہے‘ اس عمر میں ان سے مشقت کروانا ظلم ہے۔
متوسط طبقہ اور اشرافیہ میں میڈ رکھنے کا ایک فیشن ہے‘ جس میں غریب چھوٹی بچیوں کو ان کے ہی ہم عمر امیر بچوں کی دیکھ بھال کیلئے رکھا جاتا ہے۔ یوں ان کو طبقاتی تفریق کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ہربچے کا دل کرتا ہے کہ وہ بھی کارٹون دیکھے‘ چپس کھائے ‘سکول جائے‘ اس کے پاس کھلونے ہوں‘ لیکن جب اس سے مشقت کروائی جاتی ہے‘ تو اس کا دل کیا سوچتا ہو گا؟ننھے منے ہاتھوں سے یہ بچے برتن دھوتے ہیں ‘اگر کوئی برتن ان کے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹ جائے تو ان کی پٹائی کی جاتی ہے اور ان کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے ‘چھٹی منسوخ کردی جاتی ہے‘یہ بچے چھٹی کیلئے ترس جاتے ہیں‘ لیکن ان کو گھر نہیں جانے دیا جاتا۔دن بھر ان سے کام کرواکر رات کو بچا ہوا کھانا دیکر ان کا بستر سٹور یا سیڑھیوں کے نیچے لگا دیا جاتا ہے اور یہ ڈرتے ڈرتے نیند کی وادی میں کھو جاتے ہیں۔صبح پھر ان کو جلدی اٹھا کر کاموں میں لگادیا جاتا ہے‘جو بچے گھروں سے باہر کام کرتے ہیں‘ وہ مار پیٹ کے ساتھ جنسی تشدد کا بھی شکار ہوتے ہیں۔بات یہیں نہیں رکتی ‘ بلکہ اکثر کی ویڈیوز بنا کرکے انہیں برسوں بلیک میل کیا جاتا ہے ۔ان بچوں کیلئے زندگی آسان نہیں۔لاہور کی بچی عظمی سب کویاد ہو گی‘ جو صرف چودہ برس کی تھی اور اس کو صرف اس لیے مالکن اور اس کی بیٹی نے قتل کردیا تھا‘ کیونکہ اس نے بھوک کی وجہ سے ایک نوالہ مالکن کی بیٹی کی پلیٹ سے لے کر کھا لیا تھا۔صرف 2500روپے ماہوار پر رکھی گئی عظمی کو آٹھ ماہ سے گھر والوں سے ملنے بھی نہیں دیا گیا تھا اور بھوک‘ پیاس اور تنہائی کے عالم میں اس کا قتل کردیا گیا اور وہ صیاد کی قید سے آزاد ہوگئی۔
آپ کو وہ چھوٹی پیاری بچی طیبہ بھی یاد ہو گی‘ جس کی سوجے ہوئے چہرے والی تصویر ہر جگہ وائرل ہوئی تھی۔ اس کو بھوکا‘ پیاسا رکھا جاتا تھا ‘وہ ایک بااثر افسر کے گھر پر میڈ( ملازمہ) تھی۔سب بچی کی حالات دیکھ کر احتجاج کرنے لگے۔ بعد میں وہ ہی ہوا جو ہوتا ہے‘ راضی نامہ ہوگیا‘ لیکن سپریم کورٹ نے بروقت سوموٹو لے کر مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھیجا ‘ جہاں ملزمان کو3 برس قید اور5 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی اور بااثر افسر کونوکری سے بھی برخاست کردیا گیا۔ رمشہ ‘ارم‘ کنزا‘شازیہ ‘ رضیہ‘اختر علی‘ ثنا‘ صابرہ ‘فضا‘ فوزیہ‘فاطمہ ‘ حنا‘ زینب‘ مسکان‘ فائزہ جیسے بچوں کی ایک طویل فہرست ہے‘ جن پر ظلم کی داستانیں سب کے سامنے ہیں‘ لیکن موثر قوانین نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بچوں کو ملازم رکھ بھی رہے ہیں اوران پر ظلم بھی کررہے ہیں۔گھروں پر بچوں پر وہ ظلم توڑے جاتے ہیں‘ جن کی مثال نہیں ملتی‘ ان کو مناسب لباس اور رہائش نہیں دی جاتی۔ان سے زیادہ کام کروایا جاتا ہے‘ ان کو نہانے یا سونے نہیں دیا جاتا۔بات بات پر مارا پیٹاجاتا ہے۔الغرض یہ بچے غلاموں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ننھی زہرہ بھی ایسی ہی غلامی تھی ‘وہ ایک بلبل تھی‘ جس کو قید کردیا گیا تھا۔ اس پنجرے میں اس کو ہنسنے‘ بولنے‘ کھیلنے اور خواب دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔وہ تو پڑھنا چاہتی تھی ‘اس لئے شہر آئی تھی۔پر یہاں کوئی سکول نہیں تھا‘ یہاں تو اس کو پنجرے میں قید کردیا گیا‘ جس کو اس کو ملازمت پر رکھنے والے اپنا گھر کہتے تھے۔زہرہ اس پنجرے میں صرف کام کرتی تھی۔ کام اور مالکان کے پانچ ماہ کے بچے کی دیکھ بھال؛ حالانکہ وہ خود آٹھ سال کی تھی۔زہرہ کے گھر والوں کو کہا گیا کہ اس کو اپنی بیٹی بناکر رکھیں گے‘ اس کو ہم پڑھائیں گے ‘لیکن ایسا نہیں ہوا۔بس‘ زہرہ نے صیاد کی قید سے آزاد ہونا تھا‘ تو اس نے اپنی طرح کے قید دو طوطے غلطی سے اڑا دئیے اور اس کی سزا میں اس کو نوکری پر رکھنے والے صاحب اور اس کی بیوی نے اتنا مارا کہ وہ دم توڑ گئی۔چھوٹی بلبل پنجرے سے آزاد ہوکر بہت دُور چلی گئی۔ایک ایسی جگہ جہاں اب اس کو کوئی دکھ درد اور تکلیف نہیں دے سکے گا۔
اگر کسی دن عالم برزخ سے راولپنڈی کی زہرہ ‘ لاہور کی عظمی اور ارم نے اللہ کے ہاں‘ ہماری شکایت کردی تو کورونا وائرس ‘ ٹڈی دل کے بعد کون سا عذاب اس قوم پر اترے گا؟ خدارا‘ بچوں سے پیار کریں‘ ان سے شفقت کریں ‘اگر کسی کے والدین مجبور ہیں کہ وہ بچے سے ملازمت کرانا چاہتے ہیں تو اس بچے کے کھانے پینے کے اخراجات اور تعلیم کا ذمہ خود اٹھا لیں‘ اگر تمام صاحب ِ ِثروت افراد ملازمت دینے کی بجائے ایسے بچوں کفالت کریں تو معاشرہ جنت بن جائے۔آئیں ‘سب مل کر ایسے بچوں کو ان کا بچپن لوٹا دیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved