تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     07-06-2020

ذہن کو بچانا ہے !

کورونا وائرس کے ہاتھوں آپ کو‘ مجھے ‘ ہم سب کو لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ عجیب ہی کیفیت ہے کہ تمام مصروفیات تج کر گھر میں رہیے۔ یہ مفت کی اور بہت حد تک بلا جواز فراغت ذہن کو الجھانے کے لیے کافی ہے۔ سب نے لاک ڈاؤن کو اپنی اپنی ذہنی استطاعت اور مزاج کے مطابق جھیلا ہے۔ معاشی الجھن اپنی جگہ‘ حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن نے سماجی معاملات کو بھی بہت حد تک الجھادیا ہے۔ 
فی زمانہ بہت کچھ الجھا ہوا ہے‘ ایسے میں کسی بھی انسان کا بالکل درست ذہنی حالت کے ساتھ جینا انتہائی دشوار ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے‘ کہیں نہ کہیں وہ الجھ ہی جاتا ہے۔ ہم کسی کو بھی پلک جھپکتے میں ''مینٹل‘‘ کہہ بیٹھتے ہیں۔ ذہنی عارضہ بہت آگے کی منزل ہے۔ عمومی سطح پر ہم بہتر زندگی کی تحریک سے محروم ہوسکتے ہیں‘ اداسی اور مایوسی کا شکار ہوسکتے ہیں‘ کسی بھی بات پر بدک اور بپھر سکتے ہیں‘ شش و پنج میں مبتلا رہتے ہوئے ایسا بہت کچھ سوچ اور کرسکتے ہیں‘ جو سراسر گھاٹے کا سَودا ہو‘ مگر ہر معاملے کو حقیقی ذہنی خلل یا عارضہ قرار نہیں دے سکتے۔ بہت سی ذہنی کیفیتوں کا معاملہ یہ ہے کہ اُن کا پیدا ہونا کسی محرک کا محتاج نہیں ہوتا۔ آج کے انسان کو بیرونی سطح پر بہت سے معاملات کا سامنا رہتا ہے۔ بہت سی باتیں لاشعور میں بستی جاتی ہیں اور سوچ پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ باہر کا ماحول بگڑتا ہی جارہا ہے اور بگڑتا ہی رہے گا۔ دل چاہے کہ نہ چاہے‘ ہمیں اب بہت سی پیچیدگیوں کے ساتھ جینا ہے۔ مالی و سماجی حیثیت کے علی الرغم یہ الجھن دنیا کے ہر انسان کیلئے ہے۔ 
شدید نوعیت کا ڈپریشن فی زمانہ کوئی باضابطہ عارضہ نہیں ‘بلکہ طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و عمل کا حصہ ہے۔ ڈپریشن ہماری نفسی ساخت کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے‘ اسے باضابطہ عارضہ سمجھتے ہوئے تدارک کے نام پر اپنی ذات پر تجربے کرنے کی بجائے ہمیں یہ سمجھ لینا ہے کہ دنیا اُس مقام پر کھڑی ہے جہاں کل کی بیماریاں اب بیماریاں نہیں رہیں۔ سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے تک جن الجھنوں کو شدید نوعیت کے ذہنی عوارض میں شمار کیا جاتا تھا‘ وہ الجھنیں اب عام ہیں اور بہت حد تک زندگی کا ایسا حصہ ہیں‘ جسے الگ کیا اور پھینکا نہیں جاسکتا۔ بعض معاملات میں شدید نوعیت کی غلط فہمی یا خوش فہمی ہمارے لیے بہت سے الجھنیں پیدا کرتی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں حقیقت سے یکسر گریز اور خوش فہمی کا جام لنڈھاتے رہنے سے معاملات آگے چل کر بگڑ سکتے ہیں۔ معالج چاہتے ہیں کہ ہم متعلقہ دوائیں کھائیں ‘تاکہ نارمل ہوجائیں۔ ہم بیشتر معاملات میں دوائیں لینے سے اجتناب برتتے ہیں ‘جبکہ ہمیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہمارے لیے الجھنیں بڑھیں گی۔ 
کے ریڈفیلڈ جیمیسن نے اپنی کتاب ''این اَن کوائٹ مائنڈ: اے میموئر آف موڈز اینڈ میڈیسن‘‘ میں شدید نوعیت کے ڈپریشن کو خاصی تصریح کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جب ذہن غیر معمولی حد تک متحرک ہو‘ تب خیالات بہت تیزی سے وارد ہوتے ہیں‘ گویا شہابِ ثاقب کے ذرات کی بارش ہو رہی ہو‘ ایسے میں رفعت‘ تنہائی‘ درد اور دہشت کا احساس بہت شدت سے ہوتا ہے‘ پھر ذہن اپنے لیے سکون کی راہ خود ہی تلاش کرتا ہے۔ ہمارے ذہن میں ابھرنے والے خیالات میں سے غیر متعلق اور غیر مفید قسم کے خیالات الگ ہوتے جاتے ہیں اور ذہن صرف اُن نکات پر متوجہ ہوتا ہے‘ جو کام کے ہوں۔ جب ذہن واضح ہوتا چلا جاتا ہے تب سکون بھی کسی کونے میں بیٹھا نہیں رہتا‘ بلکہ سامنے آکر طبیعت کا بوجھل پن دور کرنے لگتا ہے۔ دل کی طرح انسانی ذہن بھی آرام نہیں کرتا‘ تسلسل کے ساتھ کام میں لگا رہتا ہے۔ ہمارے لیے‘ ہمارے بارے میں جو کچھ بھی طے کرنا ہے‘ ذہن کو طے کرنا ہے۔ ذہن کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو کہیں سے کہیں جا نکلتا ہے۔ تیزی سے وارد ہونے والے خیالات بالعموم تیزی سے گزر بھی جاتے ہیں‘ یعنی عمومی سطح پر ہمارے کام کے نہیں ہوتے‘ اسی طور بہت سے احساسات اور جذبات پر بھی ہمارا کچھ اجارہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی بہت تیزی سے نمودار ہوتے ہیں اور اُتنی ہی تیزی سے رخصت بھی ہو جاتے ہیں۔ ذہن کا بنیادی کام خیالات‘ احساسات اور جذبات کی تطہیر ہے‘ تاکہ ہم ''غیر ضروری سامان‘‘ لیے پھرنے کے جھنجھٹ سے چھٹکارا پائیں۔ ذہن کو بے لگام چھوڑنے سے توانائی ضائع ہوتی ہے اور ذہن کی بے ترتیبی بڑھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نیند کا معمول بگڑتا ہے‘ طبیعت اداس اور بوجھل ہو جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ماحول سے عدمِ تعلق کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت انسان سے ماحول اور ماحول سے انسان کو نکالنے کا کام کرتی ہے۔ 
اکیسویں صدی کا انسان کئی ایسی الجھنوں کے ساتھ جی رہا ہے‘ جن کے ختم ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بلند ہوتا ہوا معیار اور ٹیلی مواصلات کے بڑھتے ہوئے ذرائع ذہن کو شدید الجھن سے دوچار کرتے جارہے ہیں۔ مین سٹریم چینلز اور انٹر نیٹ پر ایسا بہت کچھ ہے ‘جو ہمارے کسی کام کا نہیں ‘مگر ہم تک نا صرف یہ کہ پہنچتا ہے‘ بلکہ ہمارا وقت بھی ضائع کرتا ہے۔ ایسے میں ذہن کا الجھنا فطری امر ہے۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ لوگ ذہن کے الجھنے کو دماغ کی پیچیدگی سمجھ لیتے ہیں۔ دماغ کو سکون بخشنے کے نام پر جو دوائیں استعمال کی جاتی ہیں ‘وہ ذہن کو پرسکون رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ دماغ میں پائی جانے والی کمزوری دور کرنے کی دواؤں سے ذہن کو طاقتور نہیں بنایا جاسکتا۔آج کے انسان کا انتہائی بنیادی مسئلہ ذہن کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون رکھنا ہے۔ یہ مقصد اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ہم اپنے لیے ترجیحات کا واضح طور پر تعین کریں اور اُن ترجیحات کے مطابق ہی ذہن کو بروئے کار بھی لائیں۔ ذہن کو فضول باتوں اور لاحاصل معاملات سے بچانا اور پورے ذہنی توازن کے ساتھ جینا ایک بڑا ہنر ہے جو سیکھے بغیر چارہ نہیں‘ جو اس میں دلچسپی نہیں لیتے اور ذہن کو بے لگام چھوڑدیتے ہیں‘ وہ ناکام ٹھہرتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved